پاکستان کس حد تک تبدیل ہو چکا ہے ،اس کا اندازہ اس امر سے لگا یا جا سکتا ہے کہ حکومت کی طرف سے یمن کی جنگ سعودی عرب کی قیادت میں دیگر عرب ممالک کے شانہ بشانہ لڑنے کے اعلان کے خلاف ملک بھر میں ہاہا کار مچ گئی ہے۔ایک زمانہ وہ تھا جب فو جی آمر اور ان کے نمائندے ملک کی تقدیر سے منسلک کلیدی فیصلے بیک جنبش قلم کرلیتے تھے۔ جب 'نا ئن الیون ‘کا سانحہ ہو اتو مشرف کے دست راست لیفٹیننٹ جنرل محمود‘جو آئی ایس آ ئی کے سربراہ اور نواز شریف کی حکومت ختم کرنے والے جرنیلوں میں پیش پیش تھے ‘ اس وقت واشنگٹن میں مو جود تھے ۔ امریکی قیا دت نے انہیں الٹی میٹم دیاکہ ''القاعدہ کے خلاف جنگ میں آ پ ہمارے ساتھ ہیں یا مخالف کیمپ میں‘فیصلہ کر لیں؟‘‘اس دوران جنرل صا حب کے سامنے ایک سات نکا تی ایجنڈا بھی رکھا گیا ‘جس کا لب لباب یہی تھا کہ پاکستان افغا نستان کے خلاف اعلانِ جنگ میں فریق بن جائے۔جنرل صاحب نے فوراً ہی ''ہا ں ‘‘کردی جس سے الٹی میٹم دینے والی امریکی انتظامیہ بھی حیران وششدر رہ گئی اورانہوں نے جنرل محمو د سے کہا کہ پرویز مشرف صاحب سے پو چھ تولیں‘جس پر انہوں نے فرمایا کہ انہیں پو چھنے کی کو ئی ضرورت نہیں کیو نکہ انہیں پرویز مشرف کے مائنڈ سیٹ کا پتہ ہے۔یہ الگ بات ہے کہ بزعم خود ''کنگ میکر‘‘ جنرل محمود احمد جو کچھ زیا دہ ہی پھونک لے رہے تھے ‘کی یہ ادا اس وقت کے ''مرد آ ہن‘‘ کو زیا دہ پسند نہ آ ئی اور کچھ عرصے کے بعد انہیں فارغ کر دیا گیا۔تاہم پاکستان اس جنگ میں دامے درمے سخنے شریک ہوا اور اس کے عوض نہ صرف اربوں ڈالر اینٹھے گئے بلکہ پرویز مشرف کے دور آمریت کو بھی بھرپور امریکی سپورٹ حاصل ہو ئی ۔اس بات پر بحث ہو چکی ہے کہ واقعی پاکستان کے پاس کو ئی چارۂ کا ر نہیں تھاکیونکہ اس وقت تو کر وسیڈر جارج ڈبلیو بش امریکہ کا صدر تھا اور جواس کے مطالبات پر صاد نہ کرتا تو اس کا حشر افغانستان جیسا کیا جا تا‘ لیکن اس جنگ کی پاکستانی قوم بھاری قیمت آ ج تک ادا کر رہی ہے ۔تحریک طالبان کے ہاتھوں دہشت گردی نے ملک کو چھلنی کر کے رکھ دیا ہے۔ اس وقت پارلیمنٹ تو نہیں تھی لیکن مشرف صاحب نے محض ایڈیٹروں کی ایک میٹنگ میں ہی اپنا عندیہ بیان کر دیا تھا۔ مجید نظامی مر حوم اس میٹنگ میں موجود تھے۔انہوں نے جب دو ٹوک انداز میں جنرل مشرف سے استفسار کیا کہ آپ' ہاں‘ کرنے سے پہلے توقف سے کام لیتے،تو ان کے مشیر طارق عزیز ناراض ہو گئے اور کہنے لگے ''آپ ہمارے صدر سے کس انداز میں بات کر رہے ہیں؟ ‘‘ موجودہ تنا ظر میں پاکستان کے یمن کی جنگ میںکو دنے کی کوششو ں پر اپوز یشن سراپا احتجاج بنی ہوئی ہے ۔وزیراعظم میاں نواز شریف کا کہنا ہے کہ پاکستان اپنے برادر اسلامی ملک کے ساتھ شانہ بشا نہ کھڑا ہے۔با خبر لو گوں کا ماتھا تو اسی وقت ٹھنکا تھا جب نئے سعودی بادشاہ شاہ سلمان بن عبد العزیز نے اچانک شریف برادران کو مدعو کیا تھا اور وہ سینیٹ کے انتخا بات کو چھو ڑ چھا ڑ کر ریا ض پہنچ گئے تھے ۔ جب سعودی فرمانروا شاہ سلمان ان کا استقبال کرنے کے لیے خو د مطار پر پہنچے تو یہی انداز ہ لگایا گیا کہ خادم حرمین الشریفین کو پاکستان سے کو ئی بڑی'' فیور‘‘ مطلو ب ہے حالانکہ اس سے پہلے یہ افواہیںگردش کر رہی تھیں کہ سعودی عرب پاکستان سے ناراض ہے اور کئی ماہ سے اسلام آ باد میں نئے سفیر کی تعینا تی بھی نہیںکی گئی۔
اب یمن کی یلغار کے بعد بلی تھیلے سے باہر آگئی ہے۔ سعودی ذرائع کا کہنا ہے کہ پاکستان نے یمن میں شیعہ حو ثی قبیلے کو کچلنے کے لیے اپنی فوج تعینا ت کر دی ہے اورکہا ہے کہ پاکستان سعودی عرب کا بھرپوردفاع کرے گا ،ساتھ ہی میاں نواز شریف نے سعود ی فرمانروا سے ٹیلی فون پر بات چیت میں پاکستانی فوج بھیجنے کی با قاعدہ یقین دہانی کر ا دی ہے۔ وزیر دفاع خواجہ آ صف اور مشیر امور خا رجہ سرتاج عزیز کی قیا دت میں وفد کو سعودی عرب بھیجنے کا فیصلہ ہو ا تھاجو سعودی حکام کی درخواست پر مو خر کر دیا گیا ۔وزیر دفاع کا یہ بھی کہنا ہے کہ فوج بھیجنے کا فیصلہ ہوا تو پارلیمنٹ کو اعتماد میں لیا جا ئے گا ۔یہاں یہ سوال پیداہو تا ہے کہ پارلیمنٹ کو کیوں نہیں بتایا جا رہا کہ کیا کھچڑی پک رہی ہے۔خواجہ آ صف کے پالیسی بیان کے مطابق پاکستان عرب لیگ کے خصوصی اجلاس کے بعد وفد بھیجنے کا فیصلہ کرے گا ۔ دنیائے عرب اس وقت سخت انتشار اور خلفشار کا شکا ر ہے ۔حالیہ برسوںمیں امریکہ نے جس عرب ملک کے بھی اندرونی معاملات میں ٹانگ اڑائی یا وہاں جمہوریت کا احیا کرنے کے بہانے فو جی مداخلت کی ،ان ملکوں کا بیڑہ غرق کر کے رکھ دیا ۔عراق میں صدام حسین کے خاتمے کے بعد ملک شیعہ سنی فرقوں میں بٹنے کے علاوہ عراق اور شام میں امریکی پالیسیوں کے شاخسانے کے نتیجے میں اٹھنے والی '' داعش‘‘ کے خلاف بھی نبردآزما ہے،اور وہاں امریکہ محدود پیمانے پر اپنی فوج بھیجنے پر مجبورہے۔ اسی طرح قذافی کی چھٹی تو کر ادی گئی لیکن تیل سے مالا مال لیبیا سخت قسم کی اندرونی شورش میں الجھا ہو اہے ۔شام کے صدر بشارالاسد کو رخصت کرنے کے لیے خود ہی ایک سرخ لا ئن کھینچ کر امریکہ اور اس کے حواریوں نے جو کارروائیاں کیں‘ ان کے نتیجے میں ایک نسبتاً سیکو لر ملک، اسلامی گروپوں کی شورش سے نبردآزما ہو رہا ہے ۔ یہی حال پُرامن تیونس کا ہو تا جارہا ہے ۔جہاں تک مصر کا تعلق ہے تو وہاں اوباما انتظامیہ کو جمہو ریت اس لیے راس نہیں آ ئی کہ اس میں اسلام پسند اخوان المسلمون کی حکومت بن گئی تھی ۔مرسی اور اس کے ساتھیوں کو فارغ کرکے پابند سلاسل کر دیا گیا اور اب وہاں ایک امریکہ نواز جرنیل سوٹ پہن کرحکومت کر رہا ہے ۔اس تناظر میں دیکھا جا ئے تو سعودی عرب کے وزیر اعظم میاں نواز شریف اور پاکستان پر احسانات ایک طرف ،لیکن ہمیں اس پرائی لڑائی میں خود کوجھونکنے کی کیا ضرورت ہے ؟ پاکستان میںاہل تشیع کی بڑی تعداد ‘جسے بعض اندازوں کے مطابق آبادی کا بیس فیصد قرار دیا جا تا ہے ‘کے ہو تے ہوئے ایسا کرنا کیاہمارے مسا ئل میں مزید اضا فے کا با عث نہیں ہو گا؟۔
امریکہ اس خطے میں اپنی تمام تر ناکام پالیسیوں کے باوجودا لقاعدہ کو خطے میںناکام بنانے کے بہانے سعودی عرب کی مکمل مدد کر رہا ہے اور بعض ماہرین کے مطابق یمن میں حو ثی شیعہ ‘جو القا عدہ کوبھی سخت نا پسند کرتے ہیں ‘کی ایران کی حمایت سے بغاوت کے ذریعے حکومت گرانے کی کوشش کامیاب ہو گئی تو سعودی عرب کے لیے بہت بڑا خطرہ ہو سکتی ہے ۔یقیناپاکستان اپنے مسائل میں بری طرح گھرا ہو اہے ۔ایک طرف تو ہم آپریشن '' ضرب عضب ‘‘کی صورت میں اپنی بقا کی جنگ لڑ رہے ہیں جو اب ایک نازک اور فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہو چکی ہے ‘دوسری طرف مذ ہب کے نام پر دہشت گردی ہمارے لیے ایک مستقل خطرہ بنی ہو ئی ہے۔کراچی میں ایم کیو ایم کی آ ڑ میںلوٹ مار، ٹارگٹ کلنگ اوربھتہ خوروں کی کارروائیوں کی بیخ کنی میں بھی رینجر زاور فوج مصروف ہیں۔ابھی ملک بھر میں پھیلے ہو ئے دہشتگرد وں کے خلاف مربوط کارروائی ہونا بھی باقی ہے۔ حالیہ دہشت گردی کے واقعات کے تنا ظر میں یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ ہمارے ہا ں اقلیتیں محفوظ نہیں ہیں اور اہل تشیع بھی خود کو غیر محفوظ تصور کرتے ہیں ۔جہاں تک ہماری سرحدوں کا تعلق ہے امریکہ کے افغا نستان سے چل چلا ؤ کے بعد مغربی سرحدوں پر فوج کی ذمہ داریاں بڑھتی جا رہی ہیں اور مشرقی سرحدوں پر مودی سرکار سے ہنوز تا ل میل نہیں بن سکا ۔ا ندرونی اور علاقائی صورتحال کے تناظر میں پاکستانی فوج کو سعودی عرب اور یمن کی لڑا ئی میں جھونکنے کی کو ئی تُک نظر نہیں آ تی ۔