بالآخر '' ٹارزن‘‘کی واپسی ہو گئی،تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے قریباً آٹھ ماہ کے تعطل کے بعد اسمبلیوں کا بائیکاٹ ختم کر دیا۔خان صاحب نے جہاں اپنے سیاسی کیرئیر کے دوران بالخصوص گزشتہ برس اگست میں دھرنے کے بعد کئی سیاسی قلابازیاں لگائیں‘ اس مرتبہ انہوں نے یمن کی جنگ کواسمبلیوں میں واپسی کیلئے جواز بنا یا۔تجزیہ کار ہارون الرشیدکے مطابق ''عمران مزید انتظار چاہتے تھے مگر پارٹی کے ارکان نہیں مانے‘‘لیکن اب خان صاحب خود اپنے ساتھیوں سمیت بنفس نفیس پارلیمنٹ میں حاضرہو گئے اور وہ بھرپور اپوزیشن کا کردار ادا کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔پی ٹی آئی ارکان کی پارلیمنٹ میں آمدکے موقع پر حکمران جماعت مسلم لیگ (ن) کے ارکان نے ''گو عمران گو‘‘ کے نعروں سے ان کا استقبال کیا۔وزیر اعظم کے دست راست وزیر دفاع خواجہ آصف نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ'' شرم کرو،اسمبلی کو گالی دیتے ہو اور پھر یہیں بیٹھے ہو‘‘۔یہ بات سمجھ سے بالا تر ہے کہ حکومتی وزراء میاں صاحب کے خیر خواہ ہیں یا ان کے اقتدار کو صحیح معنوں میں کانٹوں کی سیج بنانے پر تلے ہیں۔بقول اعتزاز احسن وزیر دفاع پورس کے ہاتھی نظر آئے ہیں،سو فیصد درست بات لگتی ہے۔یہ عجیب ستم ظریفی ہے کہ خواجہ صاحب اُس وفد کے قائد تھے جو یمن کی صورتحال کے سلسلے میں حال ہی میں سعودی عرب کا دورہ کر کے لوٹا ہے،بجائے اس کے‘ کہ اس مقصد کے لئے بلائے گئے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں اتفاق رائے پیدا کرتے‘ وہ پی ٹی آئی پر برس پڑے۔افسوسناک بات یہ ہے کہ اس ضمن میں انہیں اپنے باس میاں نواز شریف کی تائید اور حمایت حاصل تھی۔
تحریک انصاف کو پہلے بھی اسمبلیوں میں بھرپور کردار ادا کرنے سے کوئی نہیں روک رہا تھا لیکن ابتدائی پنگا خان صاحب نے خود لیا جب انہوں نے اجلاس شروع ہونے سے پہلے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے اس اسمبلی کو بوگس اور جعلی قرار دیاجس میں اب وہ دوبارہ لوٹ رہے تھے۔حقیقت تو یہ ہے کہ پی ٹی آئی کے وہ رہنما جن میں شاہ محمود قریشی ،شفقت محمود،شیریں مزاری،اسد عمر اور ڈاکٹر عارف علوی پیش پیش ہیں،پارلیمنٹ اور صوبائی اسمبلیوں میں واپس جانے کیلئے بے تاب تھے جبکہ خان صاحب کے علاوہ ان کی پارٹی کے بعض سینئر ارکان جوٹکٹ نہ ملنے یا انتخابات میں شکست کھا جانے کی وجہ سے اسمبلیوں سے باہر رہ گئے تھے،وہ بائیکاٹ کے حامی تھے،صرف ایک 'مرد حر‘ جس کا نام جاوید ہاشمی ہے ،نے پارٹی ڈسپلن کی پابندی کرتے اور اپنے ضمیر کی آوازپر لبیک کہتے ہوئے ،جو کہا وہی کیااور قومی اسمبلی میں حاضر ہو کر مستعفی ہونے کا اعلان کر دیا۔محترم جاوید ہاشمی کے علاوہ دیگر ماہرین قانون و آئین کا کہنا ہے کہ تکنیکی طور پر تحریک انصاف کے ارکان اسمبلی کی رکنیت ان کے استعفے دینے اور ان کی کئی ماہ کی غیر حاضری کی وجہ سے ختم ہو چکی ہے۔یہ الگ بات ہے کہ اس معاملے میں جمہوریت کے وسیع تر مفاد کی خاطر'مٹی پاؤ‘اپروچ اختیار کی گئی۔ قومی اسمبلی کے سپیکر ایاز صادق نے‘ جن کی حلقہ این اے 122 میں دھاندلی کے الزامات کے حوالے سے عمران خان کے ساتھ مقدمہ بازی بھی چل رہی ہے، پی ٹی آئی کے ارکان کو متعدد بار دعوت دی کہ انفرادی طور پر ان کے پاس آ کر اپنے استعفوں کی تصدیق کریں لیکن ان کی واقعی استعفے دینے کی نیت ہوتی تو وہ ایسا کرتے۔ویسے دیر آید‘ درست آیدکے مصداق تحریک انصاف نے اسمبلیوں میں واپس جانے کا درست فیصلہ کیا ہے کیونکہ آنے والے دنوں میں اسمبلی سے باہر رہنے کے شاخسانے کے طور پر پارٹی جو پہلے ہی گروہ بندی کا شکار ہے اس میں مزید دراڑیں پڑ جاتیں۔اسمبلیوں سے استعفے یا بائیکاٹ ایک مخصوص تناظر میں کیا جاتا ہے۔عمران خان صاحب نے جس پس منظراور وجوہ کی بنا پر یہ فیصلہ کیا ہے اسے واپس لینا ان کی ناکام سیاسی حکمت عملی کا مظہر ہے۔خان صاحب نے دھرنے کے دوران جو منظر کھینچا تھا اس کے تحت نواز شریف کی حکومت کو یکسر مفلوج کرنا اور فوج کی ممکنہ حمایت سے ان کا استعفیٰ لینا تھا،اس صورتحال میں اسمبلیوں کو بے معنی ہوجانا تھا‘ لہٰذا اپنے ارکان اسمبلی سے استعفیٰ لینانواز شریف کے اقتدار کے تابوت میں آخری کیل ٹھونکنے کے مترادف ہوتا، بالکل ویسے ہی جیسے 1977 ء میں جب وزیراعظم ذوالفقارعلی بھٹو کے زیر اہتمام ہونے والے قومی اسمبلی کے انتخابات میں وسیع تر دھاندلی ہوئی تھی تو مشترکہ اپوزیشن نے بطور احتجاج اگلے روز صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات کا بائیکاٹ کر دیا تھا،چونکہ اپوزیشن کی انتخابی مہم ایک تحریک کی صورت اختیار کر چکی تھی اس لئے یہ انتخابی بائیکاٹ مکمل اور بھرپور تھا۔
خان صاحب کی بدقسمتی کہ وہ نواز شریف کے خلاف اس قسم کا ماحول پیدا نہیں کر سکے جس سے تیسرے امپائر کو انگلی اٹھانا پڑتی اور نہ ہی نوازشریف نے وزارت عظمیٰ سے استعفیٰ دیا۔اس پر مستزاد یہ کہ سب سے بڑی اپوزیشن جماعت پیپلزپارٹی کے سربراہ آصف علی زرداری نے میاں صاحب کو پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس بلانے کا مشورہ دے دیا جس پر نواز شریف نے صاد کیا اور یہ کلیدی فیصلہ ان کے اقتدار کے ڈولتے سنگھاسن کو نئی زندگی دے گیا۔اس ناکامی کے بعد خان صاحب کو دھرنا ختم کرنے کے ساتھ ہی اسمبلیوں میں بھی واپس چلے جانا چاہیے تھا لیکن دھرنا ختم کرنے کی بندوق سانحہ اے پی ایس پشاورکے کندھے پر رکھ کر چلائی گئی اور اسمبلیوں میں واپسی بظاہر یمن کے بحران کے طفیل ہوئی ہے حالانکہ تحریک انصاف کے مطالبے پرجوڈیشل کمیشن بننے کے بعد اسمبلیوں سے باہر رہنے کا ویسے بھی کوئی جواز باقی نہیں رہ جاتا تھا۔
پی ٹی آئی کو 14 اگست کے دھرنے سے لے کر اب تک اپنے معاملات اور سیاسی قیادت کے فیصلوں کا ایک آڈٹ ضرور کرنا چاہیے کہ کیا کھویا اور کیا پایا۔اس میں کوئی شک نہیں کہ دھرنے کے ذریعے خان صاحب نے خیبر سے لے کر کراچی تک کم از کم تین ماہ تک ہر روز گو نواز گو کے نعرے لگا کر عوام کے دلوں کو گرمائے رکھا۔اس طرح انہوں نے اپنی پارٹی کے حق میں رائے عامہ خاصی ہموار کی ۔ذاتی طور پر شاید دھرنے کے طفیل ہی محترم، دلہن بھی گھر لے آئے۔اس کے علاوہ میاں صاحب کو جو زبردست سیاسی دھچکا لگااس کے بعد پرانا نواز شریف جو اپنے ہر دور اقتدار میں فوجی سربراہوں سے دو دو ہاتھ کرنے کے لئے ادھار کھائے بیٹھا رہتا تھااب شیر قالین بن گیا ہے۔غالباً میاں صاحب نے زرداری صاحب کا یہ مشورہ پلے باندھ لیا ہے کہ اگر اپنی پانچ سالہ مدت پوری کرنی ہے تو فوج سے بنا کر رکھیں اور ان کو کسی معاملے میں'' ناں ‘‘نہ کریں۔میاں صاحب کی اس سوچ میں تبدیلی کا کریڈٹ زرداری صاحب کے علاوہ خان صاحب کو بھی دینا پڑے گا۔
خان صاحب کو محض اب اپنے دعوؤں کی بعد از خرابی بسیار نفی کرنے کی بجائے، اپنی پارٹی میںفیصلہ سازی کے طریقہ کار پر نظر ثانی کرتے ہوئے کوئی قابل عمل سیاسی ویژن دینا چاہیے۔ان کی خوش قسمتی ہے کہ ملک کی بڑی سیاسی جماعت پیپلز پارٹی سندھ کے دیہی علاقوں تک محدود ہو کر رہ گئی ہے۔باقی ملک میں اس کا سیاسی وجود ہرچند کہیں کہ ہے‘ نہیں ہے۔دوسری طرف برسراقتدار جماعت مسلم لیگ (ن) ابھی تک حکومت میں کسی غیر معمولی حسن کارکردگی کا مظاہرہ نہیں کر پائی،اس لحاظ سے تحریک انصاف اپنے پتے صحیح کھیلے تو اس کے لئے میدان صاف ہے۔
حکومت نے جوڈیشل کمیشن بنا کر اچھا کیا ہے،اس طرح خان صاحب کی بھی 'فیس سیونگ ‘ہو گئی ہے،لیکن آئینی،قانونی اور سیاسی طور پر اس کمیشن کے تلوں میں تیل نظر نہیں آتا۔لہٰذا اب تحریک انصاف کو پارلیمنٹ کے اندر اور باہر اپنا بھرپور کردار ادا کرنا چاہیے اور مزید قلابازیاں نہیں لگانی چاہئیں۔اسمبلی میں واپسی کے بعدخان صاحب کو تابڑ توڑ پریس کانفرنسیں کرنے کے بجائے پالیسی سازی اور مشاورتی عمل پر زیادہ توجہ دینی چاہیے۔جوڈیشل کمیشن بننے کے بعد اسمبلی کو گالیاں دینے کا کوئی جواز باقی نہیں رہتا۔
جہاں تک کراچی کے حلقہ این اے 246 میں پڑنے والے گھمسان کے رن کا تعلق ہے ،پی ٹی آئی نے وہاں پر ایم کیو ایم کی اجارہ داری کو توڑنے کی سعی کر کے ایک اچھا اقدام کیا ہے۔سیاست میں کوئی نو گو ایریاز نہیں ہونے چاہئیں۔پی ٹی آئی سمیت ہر سیاسی جماعت کو کراچی کے ہر حلقے سے الیکشن لڑنے کی مکمل آزادی ہونی چاہیے اور اسی طرح ایم کیو ایم کو بھی پاکستان بھر میں الیکشن لڑنے سے کسی کو نہیں روکنا چاہیے۔سیاسی عمل میں دھونس، دھاندلی اور تحریص کے بغیر ہر شخص کے الیکشن لڑنے کی آزادی کو یقینی بنانے کے لئے حکومت ،الیکشن کمیشن، قانون اور امن و امان نافذ کرنے والے اداروں کو اپنا کردار غیر جانبدار اور بے لاگ طریقے سے ادا کرنا چاہیے۔