یمن کے تنازع میں پاکستان کے غیرجانبدار رہنے کے بارے میں پارلیمنٹ کی متفقہ قرار داد کو یقینا ایک تاریخی فیصلہ قرار دیا جاسکتا ہے۔ ہماری خارجہ اور سکیورٹی کی داغدار تاریخ میں شاید ہی کوئی ایسی مثال ملتی ہو جب ہماری حکومتوں نے جمہورکی آوازپر اس انداز سے لبیک کہا ہو۔ یقینا اس کا کریڈٹ وزیراعظم نواز شریف کو بالخصوص اور پارلیمنٹ میں موجود تمام سیاسی جماعتوں کو بالعموم جاتا ہے کہ انہوں نے پیٹرو ڈالر اور امریکی اسلحے کے عوض پاکستان کے وسیع تر قومی مفاد کو قربان ہونے سے بچا لیا۔سعودی عرب کے اس یک طرفہ اعلان کے بعد کہ پاکستان وہ واحد غیرعرب ملک ہے جو یمن پر یلغار کرنے والی سعودی قیادت میں بنائی گئی عرب ملکوں کی فوج میں شامل ہے، عوام میں ایک خاص تاثر پیدا ہوگیا تھا۔اس میں تو کوئی شک نہیں کہ سعودی شاہی خاندان اور میاں برادران کے خصوصی تعلقات ہیں۔ سعودی فرمانروا نے جنرل پرویز مشرف کی طرف سے دیس نکالا دینے کے بعدنہ صرف جدہ میں شریف فیملی کو پناہ دی بلکہ نواز شریف کے برخوردار حسین نواز شریف اب بھی وہاںمقیم ہیں اور کاروبار چلا رہے ہیں۔ اس تناظر میں میاں نواز شریف کو خصوصی طور پر محتاط ہونے کی ضرورت تھی اور انہوں نے ایسا ہی کیا اوراپنے اُن مخالفین کو یکسر مایوس کر دیا جو ''قومی مفاد‘‘ کی آڑ میں میاں صاحب کے لتیّ لینے کے لیے کمر بستہ ہو رہے تھے۔
وزیر دفاع خواجہ آصف کی قیادت میں وفد جس میں قومی سلامتی کے مشیر سرتاج عزیز، خارجہ امور کے بارے میں وزیر اعظم کے معاون خصوصی طارق فاطمی بھی شامل تھے، جب ریاض سے واپس پاکستان لوٹا تو انہوں نے خبر دی کہ سعودی حکمرانوں نے پاکستان سے ائرفورس، نیوی اور بری فوج کی کمک مانگی ہے۔ اس سے قبل عین سینٹ کے انتخابات کے موقع پر میاں برادران کو شاہ سلمان بن عبدالعزیز کی دعوت پر ریاض بھی بلایا گیا۔ حکومت کو یقینا اس بات کا کریڈٹ جاتا ہے کہ وزیر دفاع خواجہ آصف نے یہ سب تفصیلات پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں پیش کردیں۔ ابتدائی طور پر یہ تاثر ابھر رہا تھا کہ مشترکہ اجلاس بلانے سے قبل ہی پیپلزپارٹی آن بورڈ ہے اور تحریک انصاف جو پارلیمنٹ میں واپس آچکی ہے کو بھی ہینڈل کر لیا جائے گا‘ لیکن ہوا اس کے برعکس۔اپوزیشن سے تعلق رکھنے والے قریباً تمام مقررین نے اپنے ضمیر کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے دل کی بات کر دی کہ اس امر کے باوجود کہ سعودی عرب سے ہمارا قلبی اور جذباتی تعلق ہے، پاکستان کو یمن کی لڑائی میں جھونکنا ہمارے قومی مفاد میں نہیں ہے۔ مسلم لیگ (ق) کے سربراہ چودھری شجاعت حسین رطب اللسان تھے کہ سعودی عرب کی مدد کے لیے فوج بھیجی جائے جبکہ ان کی پارٹی کے سیکرٹری جنرل مشاہد حسین سیدنے ان کے موقف کے یکسر برعکس‘ مشترکہ اجلاس میں اپنے خطاب میںایسے کسی ایڈونچر کی بھرپور مخالفت کردی۔ پیپلزپارٹی کے سینٹ میں اپوزیشن لیڈر چودھری اعتزاز احسن نے بھی بڑے مدلل انداز سے پاکستانی افواج کو سعودی عرب ڈسپیچ کرنے کے محرکات اور نتائج سے ایوان کو آگاہ کیا۔ انہی کی پارٹی کے سینیٹرفرحت اللہ بابر نے اپنے لیڈر کے موقف کی کھل کر تائید کی۔یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ اس تاثر کے برعکس کہ ہمارے عوامی نمائندوں پر مشتمل ایوانوں میں کچرا ہی بھرا ہوا ہے، ارکان قومی اسمبلی اور سینٹ نے اپنے حلقوں کے عوام کے جذبات کی مدلل انداز میں ترجمانی کی‘ بالخصوص یہ بات بھی سامنے آئی کہ ایوان بالا جہاں میاں نواز شریف اوران کے وزرا قدم رنجہ فرمانے سے ہچکچاتے ہیں‘ اس کے ارکان کی بحث کا معیار قومی اسمبلی سے بہتر ہے اور ہونا بھی ایساہی چاہیے۔
جہاں تک پاکستان تحریک انصاف کا تعلق ہے وہ جوڈیشل کمیشن کے تشکیل کے باوجود دھاندلی، دھاندلی کی رٹ لگاتے رہتے ہیں۔تاہم آٹھ ماہ کے طویل عرصے تک غیرحاضر رہنے کے بعد اس کے ارکان پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس کے موقع پر ایوان میں لوٹ آئے۔مشترکہ قرارداد کی نوک پلک درست کرنے اور اس میں بعض اہم نکات کو شامل کرنے کا کریڈٹ پی ٹی آئی کے وائس چیئرمین اور رکن قومی اسمبلی شاہ محمود قریشی کو جاتا ہے۔ اس سے قبل بحث میں حصہ لیتے ہوئے پارٹی کی شعلہ نوا رکن قومی اسمبلی محترمہ شیریں مزاری نے بھی اپنی تقریر میں بھرپور انداز سے قومی جذبات کی ترجمانی کی۔ وزیر دفاع خواجہ آصف نے میاں نواز شریف کی موجودگی میں جن الفاظ میں پی ٹی آئی کی دھلائی کی‘ بقول ان کے‘ وہ الفاظ پارلیمانی تھے،شاید وہ ایک منجھے ہوئے پارلیمنٹیرین کے طور پر تکنیکی طور پر درست ہی کہتے ہونگے تاہم اکثر ارکان نے خان صاحب کی طرف سے دھرنے کے دوران کنٹینر پر مسلسل ہرزہ سرائی کی طرح خواجہ آصف کے الفاظ کو آداب محفل بلکہ آداب سیاست کے بھی خلاف قرار دیا‘ لیکن پی ٹی آئی کے سربراہ عمران خان جو اسمبلیوں کو بوگس اور فراڈ قرار دیتے ہیں انہیں بھی یہ احساس ہو جانا چاہیے کہ ان کے ارکان سمیت پارلیمنٹ کے تمام ارکان بحیثیت مجموعی جمہوری اداروں کو مضبوط کرنے کے لیے کلیدی کردار ادا کرسکتے ہیں۔ یقینا میاں نواز شریف نے تاریخ سے سبق سیکھا ہے۔ یہ وہ نواز شریف نہیں ہیں جو 1997ء میںدوسری مرتبہ وزیر اعظم بننے کے بعد بھاری مینڈیٹ کے نشے میں بدمست ہوگئے تھے اور میڈیا کے علاوہ تمام جمہوری اداروں کو زیر کرنے کے درپے تھے۔ میاں صاحب کایہی طرز عمل بالواسطہ طور پر اکتوبر 1999 ء میں جنرل پرویز مشرف کے ہاتھوں ان کی رخصتی کا باعث بنا۔
قید اور جلا وطنی کے بعد میاں صاحب میں یہ احساس غالباً جاگزیں ہو چکا ہے کہ جمہوریت میں ہتھوڑا مارنے کے بجائے ''کچھ لواور کچھ دو‘‘ کی بنیاد پر ہی گاڑی آگے بڑھتی ہے۔ تحریک انصاف اور اس کے سوشل میڈیا پر ہمہ وقت فعال نوجوان حواری اسے چوروں کے درمیان مک مکا قرار دے رہے ہیں‘ لیکن یہی جمہوریت کا حسن ہے۔
سعودی عرب پاکستان کے اس فیصلے پرچیں بجبیں ہے لیکن طوعاً و کرہاًاسے پاکستان کے جمہورکی اس آواز کو تسلیم کرنا پڑاہے۔ تمام تر معاملے میں پاک فوج نے خاموشی اختیار کیے رکھی اور آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے صرف یہ ریمارکس دئیے کہ پارلیمنٹ جو بھی فیصلہ کرے گی، پاک فوج اس پر صاد کرے گی۔ اس طرح اس عمومی تاثر کی نفی ہوگئی کہ پاکستان میں فوج کی مرضی کے بغیر بالخصوص خارجہ اور سکیورٹی معاملات میں ایک پتا بھی نہیں ہلتا۔ یقینا سکیورٹی اور خارجہ معاملات میں پاک فوج کا گہرا اثرونفوذ ہوتا ہے لیکن 'جس کا کام اسی کو ساجھے‘ کے مصداق اگر سیاسی حکومت اور پارلیمنٹ اپنارول ذمہ داری اور جانفشانی سے ادا کریں تو کسی کومداخلت کی کیا ضرورت ہے۔ پاکستان نے یمن تنازع میں غیرجانبدار رہتے ہوئے بحران کے سفارتی حل کا ڈول ڈالا ہے۔ سعودی عرب پاکستان کا محسن، مربی اور دوست ہے جبکہ ایران برادر اسلامی ہمسایہ ملک ہے۔ اس تناظر میں پاکستان ترکی کے ساتھ مل کر یمن کے تنازعے میں مثبت کردار ادا کر سکتا ہے۔
متحدہ عرب امارات کے وزیر خارجہ ڈاکٹر انور محمد قرقاش نے انتہائی غیر محتاط انداز میں پاکستان کو اُن کے بقول مبہم موقف اختیار کرنے پر بھاری قیمت ادا کرنے کی دھمکی دی ہے۔ ایسی زبان استعمال کرنے کے بجائے ہمارے عرب برادران کو پاکستان کے معروضی حالات کا ادراک کرنا چاہیے۔ امارات تیل کی دولت سے مالدار ضرور ہیں لیکن ان ممالک کی بادشاہتوں کے برعکس پاکستان ایک جمہوری ملک ہے‘ جہاں عوام کی امنگوں اور خواہشوں کا احترام کرنا پڑتا ہے۔شاید ان ممالک تک ابھی یہ خبر نہیں پہنچ پائی کہ ضیاء الحق، پرویز مشرف طرز کے آمروں کا دور ٹل چکا ہے۔ اب وطنِ عزیز میں ایک جمہوری حکومت ہے، منتخب پارلیمنٹ، آزاد میڈیا اور عدلیہ ۔لہٰذا اگر حکمران چاہیں بھی تو بادشاہوں کی خواہشات کے آگے کورنش بجا لانا اُن کے بس میں نہیں ہے۔متحدہ عرب امارات یقینا پاکستان کو اقتصادی طور پر نقصان پہنچانے کی پوزیشن میں ہے۔ کہتے ہیں کہ پاکستان کے مراعات یافتہ طبقہ کے اربوں ڈالر امارات میں پڑے ہیں۔ جہاں تک وہاں لاکھوں کی تعداد میں موجود پاکستانی لیبر کا تعلق ہے تو امارات کے انفراسٹرکچر کا حسن انہی کی کاوشوں کے طفیل ہے۔ یقینا اگر عرب امارات کی حکومت اوچھے ہتھکنڈوں پر اتر آئے تو پاکستان کا وقتی طور پر ضرور نقصان ہوگا لیکن بطور قوم ہم محض بعض امارات کا گماشتہ بن کر زندہ نہیں رہ سکتے۔