"ANC" (space) message & send to 7575

عرب بھا ئی ہماری پوزیشن سمجھیں!

یمن تناز ع کے بارے میں پارلیمنٹ کی قرارداد پر بعد از خرابیٔ بسیار اندرون ملک ہاہا کا ر مچ گئی ہے۔ قابل ذکربات یہ ہے کہ متحدہ عرب امارات کے خا رجہ امور کے وزیرڈاکٹر قرقاش نے باقاعدہ بیان جاری کرنے کے بجائے ٹو یٹس کا سہارا لیا اور خلیج ٹا ئمز کے ساتھ ایک انٹرویو میں پاکستان کو دھمکی آمیز انداز میں سخت سست کہا۔ مناسب تو یہی تھا کہ ہمارا دفتر خا رجہ امارات کے وزیر خا رجہ کی دھمکی کا نوٹس لیتے ہو ئے پاکستان کی پوزیشن کوواضح کرتا‘ لیکن دفتر خا رجہ کی ترجمان محترمہ تسنیم اسلم نے اس پر کو ئی تبصرہ کرنے سے یہ کہہ کر جان چھڑا لی کہ متذکرہ بیان کی ابھی تک تصدیق نہیں ہو سکی ۔تاہم پاکستانی قوم کی غیرت اور حمیت کا پاس رکھنے کا اعزاز وزیرداخلہ چوہدری نثار علی خان کو حاصل ہوا جنہوں نے اپنے مخصوص انداز میں اماراتی وزیر کی دھمکی کو توہین آمیز اور نا قابل قبول قرار دیا ۔اس طرح وزارت خا رجہ کاکام بھی وزارت داخلہ نے کیا۔اگرچہ یہ خبر یں میڈیا میں گشت کر رہی ہیں کہ چوہدری نثا ر کی بڑے میاں صاحب یعنی میاں نواز شریف سے کیفیت کچھ یوں ہے ''بگڑے بگڑے مری سرکار نظرآ تے ہیں‘‘۔ چوہدری صاحب جذباتی اور لا اُبالی طبیعت کی حامل شخصیت ہیں۔اگر کسی شخص کو مسلم لیگ (ن) میں میاں شہباز شریف کا ذاتی اور بے تکلف دوست کہا جا سکتا ہے تو وہ چوہدری صاحب ہی ہیں۔ چوہدری نثار علی خان کی بیک وقت طاقت اور کمزوری یہی ہے کہ وہ لگی لپٹی رکھے بغیر برملا اپنی بات کرنے کے عادی ہیں ۔یہ رویہ میاں نواز شریف کے اردگرد اُس درباری کلچر سے لگا نہیں کھاتا ،جہاں وزیراعظم اور ان کی ٹیم پر مبارک سلامت اور سَتے خیراں کے ڈونگرے برسائے جاتے ہیں۔شاید یہی وجہ ہے کہ چوہدری صاحب کچھ روٹھے روٹھے سے رہتے ہیں۔ بعض نا قدین کے نزدیک چوہدری نثار نفسیاتی طورپر نر گسیت کا شکارہیں۔ ان کی دانست میں انھیں وزیراعظم نہیں تو کم از کم ملک کا وزیر خا رجہ ضرور ہو نا چاہیے ۔بعض باخبر لوگوں کے مطابق وہ انتخابی مہم کے دوران پنجا ب کی وزارت اعلیٰ کے سرگرم امید وار تھے اور اسی بنا ء پر انھوں نے آ زاد حیثیت میں صوبائی اسمبلی کا الیکشن بھی لڑا تھا۔ 
چوہدری نثا ر علی خان کی خود سرطبیعت کا مجھے ذاتی طور پر اندازہ اس وقت ہوا جب7 199ء کے آخر میں میاںنواز شریف کی جسٹس سجاد علی شاہ سے ٹھنی ہو ئی تھی ۔اسی دوران ''نوائے وقت‘‘ میںایک ادارتی نوٹ لکھا گیا کہ چوہدری نثا رعلی خان وزیر اعظم ہا ؤس میں اسفنج چپل پہنے اور شلوار قمیض میں ملبوس ہو کر ایسے گھومتے ہیں جیسے یہ ان کا ذاتی گھر ہو۔ گو یا کہ وہ وزیر اعظم ہا ؤس کے تقدس کا بھی خیال نہیںکرتے ۔اس بات پر چوہدری نثا ر اتنے ناراض ہو ئے کہ انھوں نے شہباز شریف اور میرے اصرار کے باوجود محترم مجید نظامی سے علیک سلیک سے بھی انکار کردیا۔یقینا چوہدری صاحب کی طرف سے اماراتی وزیرکی گیدڑبھبھکی کا جواب اتنا حساس معاملہ ہے کہ اسے محض ان کی جذباتیت سے تعبیر نہیںکیا جا سکتا ۔لیکن یہاں یہ سوال پید اہو تا ہے کہ ہمارا دفتر خا رجہ جو آغا شاہی مرحوم اور صاحبزادہ یعقوب خان کے دور میں اپنے حسن کارکردگی کی بناء پر ایک مثالی ادارہ قرار دیا جاتاتھا‘ اب سالہاسال سے انحطاط کا شکار کیوں ہے۔ بعض نا قدین تو یہاں تک کہتے ہیں کہ فارن آفس اب محض ایک پوسٹ آ فس بن کر رہ گیا ۔خا رجہ پالیسی کہیں اور بنتی ہے جبکہ دفتر خارجہ کے بز رجمہر محض مکھی پر مکھی مارنے پرمامور ہیں۔ان حلقوں کا تو یہ بھی کہنا ہے کہ انڈیا پالیسی،افغان پالیسی اور حتیٰ کہ ایران پالیسی اور سب سے بڑھ کر امریکہ سے تعلقات کار جیسے معاملات میں جی ایچ کیو کا کردار کلیدی بن چکا ہے۔شاید انہی حقیقتوں کومد نظر رکھتے ہوئے میاں نواز شریف نے وزارت خا رجہ کا قلمدان اپنے پاس رکھا ہوا ہے اورمعاملات چلانے کے لیے بزرگوار سرتاج عزیز‘ جو میاں نواز شریف کے پرانے ساتھی ہیں مشیر برائے خا رجہ اموروقومی سلامتی ہیںلیکن دوسری طرف انھیںبیلنس کرنے کے لیے طارق فا طمی صاحب کو تعینات کیا گیا ہے۔فاطمی صاحب سے میراتعارف اس وقت ہوا جب وہ وزیر خارجہ صاحبزادہ یعقوب خان کے سٹاف افسر تھے۔ پھر وہ دور بھی آیا ،جب میاں نواز شریف نے ریاض کھوکھر کی جگہ انھیں امریکہ میں پاکستان کا سفیر تعینات کیا‘ لیکن چند ہفتوں بعد میاں صاحب کی حکومت کے جنرل پرویز مشرف کے ہاتھوں خاتمے کے ساتھ ہی ان کی سفارت بھی ختم ہو گئی ۔ فاطمی صاحب اپنی نجی محفلوں میں خو د کو امریکہ مخالف جبکہ سرتاج عزیز کو امریکہ نواز قرار دیتے ہیں۔ اس طرح وزارت خا رجہ کی عملی طور پر کیفیت ایک شتر بے مہار کی طرح ہے۔جس کا اندازہ اماراتی وزیر کی دھمکی کے بارے میں ردعمل کے فقدان سے واضح طور پر ہوتا ہے۔ 
یقینا سعودی عرب بھی پاکستان کی پارلیمنٹ کی مشترکہ قرارداد سے نا خو ش ہے۔اگرچہ سعودی وزیر مذہبی امورصالح بن عبدالعزیز بن محمدالشیخ‘ جنہیں خا ص طور پر اسلام آ باد بھیجا گیا ہے‘ نے پارلیمانی قرارداد کو پاکستان کا اندرونی معاملہ قرار دیا ہے‘ لیکن ساتھ ہی اس ضمن میں مایو سی کا اظہا ر بھی کیا ہے۔ امارات کے وزیر خارجہ کے ٹویٹس پر ردعمل کے طور پر ہمارے بعض رہنماؤں نے بھی غیر محتا ط رویہ اختیا ر کیا ہے۔ جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمن کا بغیرکسی ثبوت کے یہ کہنا کہ متحدہ عرب امارات ،کراچی اور بلو چستان کی گڑ بڑ میں ملوث ہے ،انتہا ئی غیر ذمہ دارانہ بیان ہے۔پارلیمنٹ کی قراردادمیں یہ بات بھی موجود ہے کہ اگر سعودی عرب کی علاقائی سالمیت کو کو ئی خطرہ ہواتو پاکستان اس کے شانہ بشانہ کھڑا ہو گا‘ لہٰذا نہ تو سعودی عرب اور متحدہ امارات کو گھبرانے کی ضرورت ہے کہ پاکستان نے ان کا ساتھ چھوڑ دیا ہے ،اور نہ ہی ہمارے زعما کو احتیا ط کا دامن ہا تھ سے چھو ڑنا چاہیے‘ کیو نکہ برادر اسلامی ممالک سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے علاوہ ایران اور ترکی سمیت تمام اسلامی ممالک سے ہمارے مضبو ط رشتے ہیں ۔اس تنا ظر میں یہ بات بھی مد نظر رکھنی چاہیے کہ بالواسطہ طور پر یمن کے بحران کی وجہ سے پاکستان اور ایران کے درمیان سردمہر ی کی برف پگھلی ہے اور ترکی کے صدر طیب اردوعان‘ جن کے تہران سے تعلقات انتہائی کشیدہ تھے‘ بھی ایران کا دورہ کرنے پر تیا ر ہو گئے۔ اس دورے میں ایرانی صدر حسن رو حانی کے ہاتھ میں ہاتھ دیتے ہو ئے اردوعان نے کہا کہ یہ خطہ آ گ میں جل رہا ہے اور میں کسی فرقے کی طرف نہیں دیکھتا‘ اس سے غرض نہیں کہ کون شیعہ ہے اور کون سنی‘ مجھے صرف اس بات سے سروکار ہے کہ ہم مسلمان ہیں اور ہم سب کومل کر خو نریزی کو رو کنا چاہیے۔ 
میاں نواز شریف نے یمن کے بارے میں پالیسی بیان میں یہ وضاحت کر دی ہے کہ سعودی عرب سٹریٹجک پارٹنر ہے اور پاکستان بوقت ضرورت اس کے شانہ بشانہ کھڑا رہے گا۔وزیر اعظم نے بلاواسطہ طور پر پارلیمانی قرارداد سے کچھ ہٹ کر واضح کر دیا ہے کہ وہ نہ تو حوثیوں کی بغاوت کے حامی ہیں اور نہ ہی اس قضیے میں غیرجانبدار ہیں۔کاش وزیراعظم یہی وضاحت مشترکہ اجلاس میں قرارداد کی منظوری کے ساتھ پارلیمنٹ میں پالیسی خطاب کر کے کر دیتے لیکن نجانے کیوں میاں صاحب پارلیمنٹ کا حصہ ہونے کے باوجود وہاں اپنے جوہر دکھانے سے شرماتے ہیں۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں