"ANC" (space) message & send to 7575

گرم جو شی کے ساتھ حقیقت پسندی بھی…

حسب توقع چین کے صدر شی چن پنگ اور ان کے وفد کا اسلام آ باد میں والہا نہ اور گرم جوش استقبال کیا گیا۔ ہونا بھی ایسا ہی چاہیے تھا کیونکہ ہمارا دعویٰ ہے کہ پاک چین دوستی ہمالیہ سے بلند،سمندر سے گہری ہے اور جب 2011ء میں وزیراعظم یو سف رضا گیلانی بیجنگ گئے تو اس میں سٹیل سے مضبوط اور شہدسے زیا دہ میٹھی ہو نے کااضا فہ کیا گیا ۔چین کو پاکستان میں "All weather friend" بھی کہا جاتا ہے اور یقینا ایسا ہے بھی۔ ہمارے دعووں کے مطابق چینی صدر کے اس تاریخ ساز دورے میں قریباً45 کھرب 67ارب روپے کے 51 معاہدے ہوئے اور پاک چین تجارتی حجم 20 ارب ڈالر تک لانے پر اتفاق کیا گیا ۔لیکن اس بظا ہر گرم جو شی کے پیچھے کچھ سنجیدہ معاملات بھی ہیں جو پاکستان اور چین کے درمیان ''ستے خیراں‘‘ کی نوید نہیں سناتے ۔یہ بات ملحوظ خا طر رہنی چاہیے کہ چینی صدر کا حالیہ دورہ خا صے پا پڑ بیلنے کے بعد ہوا ہے۔
ہماری خواہش یہ تھی کہ جنوری میں جب امریکی صدر اوباما بھارت کے یوم جمہو ریہ کی تقریب میں مہمان خصوصی کے طور پر نئی دہلی تشریف لے گئے تھے تو وہ اسلام آ باد بھی آ تے لیکن اس مو قع پرانھوں نے ''وفادار دوست‘‘ اسلام آباد کو یکسر نظر انداز کر دیا تھا۔ ہم چاہتے تھے کہ چینی صدر 23مارچ کو یوم پاکستان کے موقع پر اسلام آ باد تشریف لائیںاور پریڈ کے مہمان خصوصی بنیں۔
ہماری خا رجہ پالیسی کے بز رجمہروں نے اس بات کا غیر رسمی طور پر اعلان بھی کر دیا تھا ،لیکن چینی صدر نہ آ ئے اور یہ جواز پیش کیا گیا کہ چین کی پارلیمنٹ کا اجلاس انہی دنوں ہو رہا ہے۔ لہٰذاشی چن پنگ کا اس موقع پر بیجنگ میں موجود ہو نا ضروری ہے۔قبل ازیں گز شتہ برس ستمبر میں کہا گیا کہ چینی صدر کا دورہ خان صاحب کے دھرنے کی نذ ر ہو گیا ۔ اس موقع پرچینی زعما سے درخواست کی گئی کہ وہ اسلام آ با د کے بجائے لاہور تشریف لے آ ئیں لیکن صدر شی چن پنگ پاکستان نہ آئے اور بھارت تشریف لے گئے ۔اب خوشی کا مقام ہے کہ ہمارے عزیز دوست نے بڑے بھرپور طریقے سے ہماری عزت افزائی کی اور اسلام آ باد تشریف لائے اور چھ ماہ کے بعد اپنے پہلے غیر ملکی دورے کے لئے پاکستان کا انتخاب کیا۔یہاں سوال یہ پیدا ہو تا ہے کہ چینی صدر کے دورے میں تا خیر محض ایک شیڈولنگ کا مسئلہ تھا یا پاکستان کو کوئی خاص پیغام دیا جارہا تھا ۔مو قر بر طانو ی ہفت روزہ ''اکانومسٹ‘‘ کے مطابق چین پاکستان سے اس بات پر تھوڑا سانالاں تھا کہ اس کے جنوب مغربی صوبے میںیوغر مسلمانوں کی پشت پناہی پاکستان سے آپریٹ کرنے والے انتہا پسند لوگوں کی طرف سے کی جا رہی ہے۔ایک سال قبل kunming کے ریلوے سٹیشن پر انہی لو گوں نے کئی لوگوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا تھا ۔
مقام شکر ہے کہ آپریشن ''ضرب عضب‘‘ کے بعد چین کا یہ گلہ کسی حد تک دور ہو چکا ہے لیکن یہ حقیقت ہے کہ دہشت گردوں کے کھل کھیلنے سے پاک چین دوستی کوبھی گز ند پہنچ رہا تھا۔ اب شی چن پنگ نے اقتصادی تعاون کے ساتھ دہشت گردی کے خاتمے کے لیے تعاون کا یقین دلایا ہے۔ چینی صدر کے دورے کا ایک بنیا دی عنصر پاک چا ئنہ اقتصادی راہداری کا معاہدہ ہے جس سے کئی بلین ڈا لرز کی چینی سرمایہ کاری کی تو قع کی جا سکتی ہے۔اس کے ساتھ ہی گوادر پو رٹ چین کے حوالے کرنے کے نتیجے میں پاکستان کو آ ٹھ آبدوزیں دینے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ گوادر پورٹ چینی نیوی کو استعمال کرنے کی بھی سہو لت حا صل ہو گی۔اس لحاظ سے دیکھا جا ئے تو چینی صدر کے اس دورے کے اقتصادی اور سڑ یٹجک محرکا ت بھی ہیں۔چینی صدر ایک عام قسم کے لیڈر نہیں ہیں۔ ان کا چین کے اندرونی سیاسی اور اقتصادی نظام کے علاوہ بین الاقوامی طور پر بھی چین کی پوزیشن کو مزید مستحکم کرنے کے حوالے سے ایک ویثرن موجودہے جس میں وہ بڑی کامیا بی سے رنگ بھر رہے ہیں ۔اس ویثرن کے تحت علاقائی اور بین الاقوامی تعاون کے لیے ''ایک بیلٹ اور ایک شاہراہ‘‘ کا سلوگن گزشتہ سال چین میں ہونے والے اعلیٰ سطح کی اقتصادی کانفرنس 'boao forum‘ میں دیا گیا۔ چینی صدر نے 2013ء میں قازقستان میں شاہراہ ریشم کے اردگرد اقتصادی بیلٹ بنانے کا اعلا ن کیا تھا ۔ یہ شاہراہ ریشم چین،وسطی ایشیا ،روس سے یورپ تک پھیل جا ئے گی۔اسی قسم کی سمندری ''شاہراہ ریشم‘‘ بنانا بھی چین کی منصوبہ بندی میں شامل ہے۔پاکستان سے گزرنے والا اکنامک کو ریڈور (اقتصادی راہداری )چین کے قائم کر دہ بین الاقوامی اور علاقائی سلک روٹ سے منسلک ہو گا ۔اسی بناء پر اقتصادی راہداری روٹ کے بارے میں ہمارے ہاں ہو نے والی بحث انتہائی ناگوارہے اور قطعاً پاکستان کے مفاد میں نہیں ہے۔اس سے پہلے کہ یہ معاملہ مزید متنا زعہ ہو جا ئے میاں صاحب کو پاکستان میں تمام سٹیک ہو لڈرز کو آ ن بورڈ لینا چاہیے کیو نکہ راہداری کے ساتھ وسیع پیمانے پر چینی سرمایہ کاری آنے کی توقع ہے، یہ کو ئی موٹر وے، بائی پاس یا رنگ روڈ نہیں ہے کہ حکمران جما عت سے تعلق رکھنے والے سیاستدان وقتی طور پر اپنا الوسید ھا کرنے کے لیے اس کا روٹ ہی من مرضی سے بدل دیں۔چینی صدر سے آصف علی زرداری اور عمران خان سمیت اپوزیشن ارکان کی بھی ملاقات ہو ئی ہے جو خو ش آ ئند ہے، ویسے بھی امریکہ یا ہمارے روایتی حلیف سعودی عرب سے تعلقات کے بر عکس چین سے دوستی کے بارے میں قومی اتفا ق رائے پایا جا تا ہے۔سابق صدر آصف علی زرداری بھی شریف برادران کی طرح بھا گم بھا گ چین جا یا کرتے تھے۔
ہمیں یہ بات بھی مد نظر رکھنی چاہیے کہ چین بین الاقوامی سطح پرایک بہت بڑا پلیئر بن چکا ہے اور یہ ماؤزے تنگ اور چواین لا ئی کے دور کاکمیو نسٹ ملک نہیں ہے۔ یہ وہ دور تھا جب میں 1976ء میں وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کے ہمراہ چین گیا تو چواین لا ئی کا انتقال ہو چکا تھا اور ماؤزے تنگ شدید علیل تھے، اس کے باوجو د پاکستان اور ذوالفقار علی بھٹو سے ماؤزے تنگ کے پیار کا یہ عالم تھا کہ چینی رہنما نے ذوالفقار علی بھٹو کا دورہ چین ختم ہونے سے عین قبل شدید علالت کے باوجو د انھیں ملاقات کے لیے بلالیا تھا ۔اس طرح بھٹو وہ آ خری سربراہ حکومت ومملکت تھے جن سے ماؤزے تنگ ملے تھے۔ اس کے بعد موت سے قبل انھوں نے کسی سربراہ مملکت سے ملاقات نہیں کی۔ یہ وہ وقت تھا جب چین کے مردوزن ماؤسوٹ میں ہی ملبوس نظر آ تے تھے۔بیجنگ میںپیکنگ ہو ٹل کے نام سے صرف ایک ہو ٹل تھا اورحکمران کمیونسٹ پارٹی کے چند لیڈر وں کے سوا سڑک پر کو ئی کار نظر نہیں آ تی تھی ۔لیکن صرف دس سال بعد میں نے جب وزیر اعظم
محمد خان جونیجو کے ساتھ چین کادورہ کیا تو یہ ایک بدلا ہو املک تھا اور یہاں کمیونزم کے ساتھ ساتھ بین الاقوامی اور نجی سرمایہ کاری کو فروغ دیا جارہا تھا ۔اس وقت پاکستان چین کے معدودے چند دوستوں میں شامل تھا ۔یہ پاکستان ہی تھا جس نے 1971ء میںہنری کسنجر کے چین کے خفیہ دورے کا اہتمام کیا تھا جس کی پاداش میں اس وقت سوویت یونین اور بھارت نے پاکستان کومعاف نہیں کیا ۔آ ج کا چین بین الاقوامی سٹیج پر ایک بہت بڑا پلیئر بن چکا ہے جوجا پان سے آ گے نکل چکا ہے اور امریکہ کو للکار رہا ہے ۔روس بھی ماضی کی سائنو سوویت مخاصمت کو طاقِ نسیاں میں رکھ کر اب بیجنگ کی خوشنودی حا صل کرنے پر مجبور ہے۔ اس تنا ظر میںیہ بات بھی مدنظر رہنی چاہیے کہ بھارت چین کا ایشیا میں سب سے بڑا تجارتی پارٹنر بن چکا ہے ۔دلچسپ بات یہ ہے کہ اب چینی رہنما پاکستان کو کہتے ہیں کہ خدارا بھارت سے اپنے تعلقات ٹھیک کریں‘ تجارت اور اقتصادی تعلقات کو فروغ دیں ۔مسئلہ کشمیر سے دستبردار نہ ہوں لیکن پہلے اپنے آ پ کو اقتصادی طور پر مستحکم کریں،اس ضمن میں وہ قریباً سوسال بعد ہانگ کانگ واپس ملنے کی مثال دیتے ہیں اور ساتھ ہی ساتھ تائیوان کو چین کا حصہ سمجھنے کے باوجود اس سے گہرے اقتصادی روابط کی پالیسی پر کاربند ہیں۔تا ہم اس سے یہ مطلب ہر گز نہیں اخذ کرنا چاہیے کہ چین اور بھارت کے درمیان چپقلش ختم ہو چکی ہے۔بھارت اب بھی چین کے بارے میں تحفظات رکھتا ہے اور خود غلبہ حاصل کرنے کی کو ششوں میں ہے اور بطور ایک اقتصادی طاقت کے‘ کردار کو اپنا حق سمجھتا ہے۔اگلے ماہ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی چین کے سرکاری دورے پر جارہے ہیں۔ اس دوران بھارت اور چین کے اقتصادی روابط مزید بڑھیں گے۔اس تنا ظر میں دیکھا جا ئے تو پاکستان کوبھی محض چین، چین کرنے کے ساتھ ساتھ چین کی عملی طور پر تقلید کر کے اپنی خا رجہ حکمت عملی کو زمینی حقائق کے مطابق وضع کرنا چاہیے۔
پیر کو چینی صدر کی آ مد کے موقع پر نور خان ائیر بیس چکلالہ پر استقبالیہ قطار میں وفاقی وزراء کے علاوہ وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف بھی موجود تھے؛ تا ہم وزیرداخلہ چوہدری نثا ر علی خان عنقاتھے ۔ویسے اصولی طور پر وزیراعلیٰ پنجاب کے علاوہ دیگر صوبوں کے وزرائے اعلیٰ کو بھی ہو ائی اڈے پر موجود ہ ہونا چاہیے تھا ،اس سے چین کو ایک مثبت پیغام جا تا کہ پاک چین دوستی محض کسی ایک سیاسی جماعت کی جا گیر نہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں