خان صاحب اور ان کے حواریوں کی کراچی کے حلقہ این اے 246 کوفتح کرنے کی توقعات نقش برآب ثابت ہوئیں۔وہاں تحریک انصاف کے امیدوار عمران اسماعیل کو محض 22 ہزار ووٹ لے کر منہ کی کھانا پڑی۔یہ شکست آبرومندانہ بھی نہیں تھی اوراس طرح ایک مرتبہ پھر خان صاحب کے سیاسی طور پر ناقابل تسخیر ہونے کا بھانڈا بیچ چوراہے پھوٹ گیا۔ایم کیو ایم نے بجا طور پر این اے 246 کے الیکشن کو '' حق و باطل‘‘ کا معرکہ بنا دیاتھا کیونکہ اس کے نزدیک اس کے گڑھ عزیز آباد کا حلقہ اس کی جاگیر ہے اور وہاں ہارنا یا جیتنا متحدہ کے بارے میں ریفرنڈم کی حیثیت رکھتا ہے لیکن خان صاحب اور ان کے مشیروں کی بوالعجبیوں نے اس حلقے میں ضمنی انتخاب کوواقعی زندگی اور موت کا مسئلہ بنا دیا۔ اسی بناپر ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین بڑے دھڑلے سے دعویٰ کر رہے ہیں کہ انتخابات میں کامیابی نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ ایم کیو ایم کے خلاف انتقامی کارروائیوں کے باوجود اس کی سیاسی برتری جوں کی توں اورقائم و دائم ہے۔ قائد تحریک اپنی صفوں میں جنگجوئوں کی موجودگی کی تاویل دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ کیا مسلم لیگ (ن) میں عسکری ونگ نہیں ہے؟ گویا ایم کیو ایم کے زیر سایہ پلنے والے بھتہ مافیا اور دیگر جرائم پیشہ افرادکی موجودگی بھی اس کے ووٹ بنک کا کچھ نہیں بگاڑ سکی اور نہ ہی پارٹی قیادت کا ان کی بیخ کنی کا ارادہ ہے۔ کراچی الیکٹرک سپلائی کمپنی کے سابق ایم ڈی شاہد حامد کے قتل کے جرم میں سزائے موت پانے والے ایم کیو ایم کے صولت مرزا کے چونکا دینے والے انکشافات بھی ایم کیو ایم کے سپورٹرز کی اس کے حق میں رائے کو تبدیل نہیں کر سکے بلکہ نائن زیرو پررینجرز کے حالیہ چھاپے اور ایم کیو ایم کے کارکنوں کی گرفتاریوں اور بلدیہ ٹائون کے سانحے کے بارے میں انکشافات کے باوجود شاید پارٹی کے حق میں کچھ ووٹوں کا اضافہ ہی ہوا ہے۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو ایم کیو ایم جس نے چند برس قبل اپنا نام مہاجر قومی موومنٹ سے متحدہ قومی موومنٹ رکھا تھا اب بھی اپنے لسانی خول سے باہر نہیں نکل سکی تاہم اگر کسی کا خیال ہے کہ اس ''ریفرنڈم‘‘ کے بعد رینجرز کراچی میں اپنی کارروائیاں بند کر دے گی تو اس سے بڑی اور کوئی خام خیالی نہیں ہوسکتی ۔ ویسے بھی ایم کیو ایم میڈیا میں گہرے اثرونفوذ رکھنے اور ایک پڑھی لکھی جماعت ہونے کے ناتے یہ تاثر جاگزیں کرنے میں کامیاب رہی ہے کہ کراچی میں رینجرز کی تمام تر کارروائیوں کا نشانہ صرف وہی ہے، جو خلاف واقعہ ہے۔ اعداد وشمار بتاتے ہیں کہ ستمبر 2013 ء میں جب کراچی کو جرائم پیشہ افراد اور دہشت گردوں سے پاک کرنے کی مہم کا وزیراعظم میاں نوازشریف نے آغاز کیا تو اس وقت سے تحریک طالبان کے خلاف سات سو آپریشن ہوچکے ہیں۔ اس طرح رینجرزنے ممنوعہ تنظیموں کے خلاف دوسو کے قریب کارروائیاں کیں۔ قریباًچھ سو کارروائیاں لیاری گینگ کے خلاف کی گئیں،جس کا تعلق پیپلزپارٹی سے بتایا جاتا تھا۔ اس کے بعد ایم کیوایم کا نمبر آتا ہے۔
حلقہ این اے 246 کے ضمنی الیکشن نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ ایم کیو ایم ایک سیاسی طاقت ہے جس کو محض انتظامی اقدامات سے سمندر میں نہیں دھکیلا جاسکتا اور نہ ہی ان پر پابندی لگا کر ایم کیو ایم کی سوچ کو ختم کیا جاسکتا ہے۔ ویسے بھی ہماری سیاسی تاریخ بتاتی ہے کہ مذہبی و سیاسی تنظیموں پر اگر قانونی طور پر پابندی لگابھی دی جائے تو وہ کسی اور نام سے ظہور پذیر ہوجاتی ہیں لیکن اب وقت آگیا ہے کہ ایم کیو ایم جرائم پیشہ افراد کو اپنا پلیٹ فارم استعمال نہ کرنے دے۔ یہ ایک انتہائی کٹھن کام ہے کیونکہ سالہاسال سے اس جماعت کے تلے پنپنے والے سیاسی اور جرائم پیشہ افراد گڈمڈ ہوچکے ہیں۔ جہاں تک الطاف حسین کا تعلق ہے، منی لانڈرنگ اور عمران فاروق کے قتل کے حوالے سے ان کی قانونی مشکلات ابھی برقرار رہیں گی جن سے انھیں نبردآزما ہونا پڑے گا۔دوسری طرف پاکستان تحریک انصاف کو بھی اپنی سیاسی حکمت عملی پر نظر ثانی کرنی چاہیے۔ خان صاحب کو یقینا سوچنا چاہیے کہ وہ دھرنا شروع ہونے سے پہلے اگست 2014 ء میں کہاں کھڑے تھے اور اب کہاں ہیں؟یقینا ان کا گراف بہت نیچے آیا ہے۔ دھرنے کے اوائل میں ایک وقت ایسا تھا اور ان کی سیاسی ساکھ اتنے عروج پر تھی کہ میاں نواز شریف کے اقتدار کا سنگھاسن بری طرح سے ڈول چکا تھا۔ اسی مرحلے پر فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف نے خان صاحب کو پیشکش کی تھی کہ پانچ میں سے ان کے چار مطالبات پر میاں صاحب کو منایا جاسکتا ہے۔ وہ صرف میاں نوازشریف کے استعفیٰ کے مطالبے سے دستبردار ہو جائیں لیکن کنٹینر پر سواری کے نشے سے سرشار عمران خان نے پروں پر پانی نہیں پڑنے دیا اور پی ٹی آئی کے ارکان اسمبلی کے استعفوں کا اعلان کر دیا۔ اور بعدازخرابی بسیاروہ نواز شریف کے استعفے کے مطالبے سے دستبردار ہوگئے لیکن قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلیوں سے اپنے اراکین کے استعفے کے فیصلے پر قائم رہے۔ یہ فیصلہ ان کے ارکان اسمبلی میں انتہائی غیر مقبول تھا۔ اسی بنا پر استعفوں کو قواعدوضوابط کے مطابق پیش کرنے کے بجائے ہوا میں لٹکے رہنے دیا گیا۔ اس دوران شاہ محمود قریشی، شیریں مزاری، شفقت محمود اور اسد عمرسمیت اکثر ارکان قومی اسمبلی کی ضد برقرار رہی کہ اسمبلیوں میں واپس جایا جائے اور پھر یمن کے بحران کا بہانہ بنا کر اسمبلیوں میں واپس پہنچ گئے۔قبل ازیں دسمبر میں سانحہ اے پی ایس کو جواز بناکر دھرنے سے جان چھڑائی گئی تھی۔
خان صاحب کے مطابق وہ پاکستان کے واحد پوتر اور ایماندار سیاستدان ہیںباقی سب بے ایمان ہیں نیز یہ کہ2013 ء کے انتخابات میں ایک سوچی سمجھی سازش کے ذریعے دھاندلی کر کے ان کی جماعت کا مینڈیٹ چرایا گیا‘ ورنہ انھیں پاکستان کا وزیراعظم ہونا تھا۔ تحریک انصاف کے وائس چیئرمین شاہ محمودقریشی کا کہنا ہے کہ میاں نواز شریف محض ایک بزنس مین ہیں‘ ان کوسیاست کا کیا پتہ؟قریشی صاحب بھی بھولے بادشاہ ہیں۔کیا تین مرتبہ مرکز اور پانچ مرتبہ پنجاب میں حکومت بنانے والے شریف برادران طفل مکتب ہیں اور مخدوم صاحب منجھے ہوئے سیاستدان؟ حالانکہ قریشی صاحب ایک وقت میں میاں نواز شریف کے زیرسایہ ہی پنجاب میں وزیرخزانہ تھے اور اُن کے والد صاحب مخدوم سجاد حسین قریشی، جنرل ضیا الحق کے نامز دکردہ گورنرپنجاب تھے۔ عمران خان کی قیادت میں تحریک انصاف نے مختصر عرصے میں اپنی ایک جگہ بنالی ہے لیکن اگر خان صاحب اسی طرح ٹامک ٹوئیاں مارتے رہے تو سیاست میں وقت کسی کا انتظار نہیں کرتا۔ خان صاحب کی ٹریجڈی یہ ہے کہ ان کی پارٹی میں مشاورت کا عمل اتنا موثر نہیں ہے جتنا کہ ہونا چاہیے۔ یا تو وہ جلدبازی میں یکطرفہ فیصلے کر لیتے ہیں یا پھر ان کے اردگرد ٹیم سیاسی بصیرت سے یکسرعاری لگتی ہے۔اُن کی بدقسمتی کہ ان کا مقابلہ جن سیاستدانوں سے ہے وہ اس میدان کے گھاگ اور تجربہ کار ہیں۔ خان صاحب کو بھی پہلے تولنے اور پھر بولنے کے فارمولے پر عمل کرنا چاہیے‘ صرف اسی صورت ہی ان کی پارٹی اگلے عام انتخابات میں سرخرو ہوسکتی ہے۔ننکانہ صاحب کا ضمنی انتخاب جس میں بریگیڈیئر (ر) اعجاز شاہ کو بری طرح شکست ہوئی اور پھر کراچی میں این اے 246 میں جہاں اُن کے امیدوارعمران اسماعیل صرف 22 ہزار ووٹ حاصل کر پائے ، ان کے لیے لمحہ فکریہ ہونا چاہیے۔ 2013 ء کے انتخابات میں دھاندلی کی سازش کا پتہ لگانے کے لیے جوڈیشل کمیشن کا قیام یقینا پی ٹی آئی کی بہت بڑی کامیابی ہے لیکن اس کے ذریعے بھی خان صاحب کی نواز شریف حکومت کے خاتمے کی امیدیں پوری ہوتی نظر نہیں آرہیں۔
ہمارے عزیز دوست زاہد ملک نے فرمائش کی ہے کہ فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف کو اُن کی بیش بہا قومی خدمات کے عوض فیلڈ مارشل بنا دینا چاہیے۔ آل پاکستان تحفظ حرمین الشریفین کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے موصوف نے یہ شوشہ چھوڑا ہے کہ کیونکہ جنرل راحیل شریف ملک میں جمہوریت کے سرپرست ہیں لہٰذا حکومت کو مدبرانہ انداز میں انہیں فیلڈ مارشل بنانے کا اعلان کر دینا چاہیے۔
ہمارے بھی ہیں مہرباں کیسے کیسے