"ANC" (space) message & send to 7575

پیپلز پارٹی کے لیے موقع لیکن …

سابق صدر مملکت آصف علی زرداری جو پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین ہیں ،نے اپنی پارٹی کی ری لانچنگ کے لیے لیا ری کے ککری گراؤنڈ کا انتخاب کیا ہے۔ یقینا یہ حلقہ تاریخی طور پر پیپلز پارٹی کا گڑھ ہے اور یہیںسے محترمہ بے نظیر بھٹو اور آ صف علی زرداری الیکشن میں بھی حصہ لے چکے ہیں اور18دسمبر1987ء کو اسی ککری گراؤنڈ میںہی بے نظیر بھٹو اور آ صف زرداری کی شادی کی عوامی تقریب ہو ئی تھی جس میں،میں بھی سٹیج پر موجود تھا ۔ اگرچہ پیپلز پارٹی بنیا دی طور پر ایک عوامی جماعت ہے لیکن اس کی قیا دت ہمیشہ جا گیرداروں کے پا س رہی ہے۔پاکستان کی کوئی اور سیاسی جماعت غریبوں ،مزدوروں اور ہا ریوں کا اس طرح دم نہیں بھرتی جیسے یہ پارٹی بھرتی ہے ۔اس لحاظ سے پیپلزپارٹی اب بھی عوام میں جڑیں رکھنے والی ملک کی واحد جماعت ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو کا دیا ہوا روٹی،کپڑااور مکان کا نعرہ ایک وقت میں سارے ملک میں انقلاب کی سی صورتحال پیدا کرنے کا سبب بناتھا۔ بھٹوصاحب نے غریب اور محروم طبقوں کو خو دداری کاجو سبق دیا اور اپنے حقوق کا احسا س دلایا ،اس کے بعد پاکستان بدل گیااور اس کے نتیجے میں ملک میںنئی سیاسی حقیقتوں نے جنم لیا۔ اس نئے پاکستان میں ''پرو اوراینٹی بھٹو‘‘ فورسز آمنے سامنے آ گئیں۔
1967ء میں جب مین بلیوارڈ گلبرگ میں ڈاکٹر مبشر حسن کے گھر پر پیپلز پارٹی کی بنیا د رکھی گئی، تو میں بھی وہاں تقریب میں مو جو دتھا ۔اس وقت پارٹی کا جذبہ اور ولولہ قابل دید تھا ۔ بعد میں بطور صحا فی میری پیپلز پارٹی کے بانی چیئرمین سے کئی ملا قاتیں ہو ئیں اورجب وہ وزیراعظم تھے تو شاید ہی کوئی غیر ملکی دورہ ہو جس میں ،میںان کے ہمراہ نہ گیا ہوں ۔ دلچسپی کی بات یہ ہے کہ اس کے باوجو د کہ نوائے وقت نے 1970ء تک ذوالفقار علی بھٹو کا بھرپور ساتھ دیا لیکن 1970ء کے انتخا بات میں نوائے وقت نے اینٹی بھٹو فورسز سے ناتا جو ڑ لیا ۔اس کے با وجو د بھٹوصاحب سے میری قربت، بطور اپوزیشن لیڈر اور وزیر اعظم قائم رہی۔ یہی ذاتی تعلق محترمہ بے نظیر بھٹو سے بھی قائم رہا اور آج آ صف علی زرداری سے بھی ذاتی تعلق قائم ہے، لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ آج کی پیپلز پارٹی کی حیثیت 'ہر چند کہیں کہ ہے ،نہیں ہے‘ کی تصویر بن چکی ہے۔
مئی 2013ء کے انتخابات کئی لحا ظ سے سنگ میل ثا بت ہو ئے۔انہی انتخابات کے نتیجے میں پیپلز پارٹی محض دیہی سندھ تک محدود ہو کر رہ گئی۔آ ج پارٹی کے بزرگ وزیر اعلیٰ قائم علی شاہ کی قیا دت میں پیپلز پارٹی سندھ میں بر سر اقتدار ہے لیکن پنجا ب میں اس کا ایک بھی قومی اسمبلی کا رکن نہیںہے اور صوبائی اسمبلی میں بھی پیپلز پارٹی کا برائے نام وجود قائم ہے۔ خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں بھی پارٹی کی پوزیشن کو ئی زیا دہ بہتر نہیں۔ اب نہ صرف پنجاب بلکہ پاکستان بھر میں ووٹوں کے لحا ظ سے پاکستان تحریک انصاف دوسری بڑی جما عت بن کر ابھری ہے، یہ الگ بات ہے کہ اتنی بڑی کامیا بی کے باوجو دخا ن صاحب دھاندلی دھاندلی کا ورد کرتے رہتے ہیں کیو نکہ ان کے مطابق پارٹی کا مینڈیٹ دھاندلی کے ذریعے چرایا گیا ہے۔ دوسری طرف زرداری صاحب کا کہنا ہے کہ ''کپتان کو ایک الیکشن کا افسوس ہے لیکن پیپلز پارٹی کا مینڈیٹ تو ہر بار چوری ہو تا ہے‘‘۔یقینا زرداری صاحب کو یہ کریڈٹ جا تاہے کہ نہ صرف ان کی حکومت نے پانچ سال پو رے کئے بلکہ اپنے مجمو عی رویے اور18ویں اور 20 ویںترمیم کے ذریعے جمہو ریت اور جمہو ری اداروں کو مستحکم بھی کیا ۔اس طرح پاکستان میں پہلی مرتبہ الیکشن کے ذریعے پُرامن انتقال اقتدار ہوا،لیکن انہی انتخابات کے ذریعے پارٹی کا دھڑن تختہ ہو گیا ۔ پنجاب سے تعلق رکھنے والے دووزرائے اعظم یوسف رضا گیلانی اور راجہ پرویز اشرف کو عوام نے مسترد کر دیا اوروفاقی وزراء اپنی ضمانتیں بھی ضبط کروا بیٹھے ۔
اس صورتحال کا تقاضا تویہ تھا کہ زرداری صاحب پنجاب میں پارٹی کی تنظیم نو کرتے۔ انھوں نے اس عزم کا اظہار اس وقت بھی کیا تھا جب ستمبر2013 ء میں ا پنی صدارت کا آ خری روز انھوں نے بلاول ہا ؤس لاہور میں صحا فیوں کے سا تھ گزارا اور ڈنر اور آتش بازی کی تقریب میں اعلان کیا کہ وہ اب اپنا خا صا وقت لا ہورمیں گزاریں گے ۔اسی روز انھوں نے پارٹی لیڈروںسے بھی مشاورت کی بلکہ ایک تقریب میں پارٹی کے رہنماؤں نے پارٹی پالیسیوں اور پنجاب کے صدر منظور وٹو پر کھل کر تنقید کی ۔اس سے یہ احسا س جا گزیں ہو اکہ اب وٹو صاحب کے دن گنے گئے ہیں اور زرداری صاحب جلد ہی پنجاب میں تنظیم نو کر دیں گے۔لیکن قریباً دوبرس کا عرصہ گزرنے کے باوجود پارٹی کے چیئرپرسن ایک یا دو بار ہی لاہور کے مختصر دورے پر آ ئے ہیں۔ وٹو صاحب بھی قائم ہیں اور پارٹی کا حال بے حال ہے۔اس کی ایک عملی تصویر حال ہی میں ہو نے والے کنٹو نمنٹ بورڈ ز کے انتخا بات میںبھی دیکھی گئی جن میں پیپلز پارٹی کاکہیں وجو دنظر نہیں آ یا ۔شنید ہے کہ کنٹونمنٹ بورڈز کے انتخابات میں حصہ لینے کیلئے امیدوار دستیاب نہیں تھے۔ طوعاً و کرہاً امیدواروں کو اُجرت پر الیکشن لڑایا گیا۔ اتوار کو پارٹی کی ری لانچنگ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے زرداری صاحب نے عندیہ دیا ہے کہ وہ بلا ول اور آ صفہ کے آ نے تک پارٹی کا پرچم تھامے رکھیں گے۔زرداری صاحب کا کہنا ہے کہ برخور دار بلا ول کو بھی لیاری سے انس ہے لیکن پارٹی کے چیئرمین 18اکتوبر2014ء کے ککری گراؤنڈ میں شاندار جلسے سے خطاب کرنے کے بعد منظر عام سے ہی غا ئب ہیں ۔ باخبر لوگوں کا کہناہے کہ اگر وہ دوبارہ سیاسی منظر پر نمودار ہو ئے تو انتخابات سے کچھ عرصہ پہلے ہی یہ ممکن ہو گا۔ جہاں تک آ صفہ بھٹو کا تعلق ہے ان کی سیاست میں دلچسپی تو واضح ہے لیکن اب لگتا ہے کہ بلاول کی عدم دستیابی کی صورت میں وہ عملی سیاست میں آ جائیں گی۔ دیکھنا اب یہ ہے کہ وہ یا ان کے والد ان کے لیے کیا راہ متعین کرتے ہیں ۔یقینا پارٹی کو نئے خون کی ضرورت ہے لیکن کم از کم پنجاب کی حد تک نئی لیڈر شپ ابھر کر سامنے نہیں آ رہی ۔پارٹی کے اندرونی حلقوں میں بعض مشیر زرداری صاحب کو یہ مشورہ دیتے ہیں کہ آئندہ انتخابات میں جنوبی پنجاب میں پارٹی کا فی سیٹیں کھینچ سکتی ہے لیکن موجودہ تناظر میں اس کاامکان بہت کم ہے ،صرف اگر محنت کی جائے توپارٹی کو ثمر حاصل ہو گا ۔
مو جو دہ حکومت کی قریباًنصف ٹرم مکمل ہو نے کو ہے لیکن پورے ملک بالخصوص پنجاب میں پیپلزپارٹی کی حالت پتلی ہے۔ اس لحا ظ سے زرداری صاحب کا پارٹی میں نئی روح پھونکنے کا اعلان بروقت ہے،لیکن عمل درآمد کے لیے بہت پاپڑ بیلنے پڑیں گے۔ عمران خان اور ان کے مشیروں کی نالائقیوں کے پیش نظر پیپلز پارٹی کے لیے ابھی میدان کھلا ہے۔خان صاحب کی جماعت نے بڑے بھرپو ر انداز سے کنٹونمنٹ بورڈ کے انتخابات میں حصہ لیا لیکن نتائج ان کیلئے خاصے مایوس کن رہے ۔اسی بناپر خواجہ سعد رفیق دھڑلے سے کہہ رہے ہیں کہ این اے125جو کہ کنٹو نمنٹ اور والٹن کے 20وارڈز پر مشتمل ہے، میں شکست نے خان صاحب کے دھاندلی کے الزامات کی قلعی کھول کر رکھ دی ہے۔وزیر اطلاعات پرویز رشیدکاکہنا ہے کہ کنٹو نمنٹ بورڈز کے انتخا بات کے نتا ئج نے ثا بت کر دیا ہے کہ 2013ء کے انتخابات دھاندلی زدہ نہیں تھے۔
خان صاحب کے مطالبے پر بننے والے جو ڈیشل کمیشن نے اب سیاسی جماعتوں کو آ ج تک تفصیل سے دھاندلی کی شہا دتیں جمع کرانے کا کہا ہے اور اس حوالے سے ایک سوالنامہ بھی جا ری کیا ہے ۔اس سوالنامے میں بنیا دی سوال یہ ہے کہ کیا 2013ء کے انتخابات ایمانداری اور غیر جانبداری سے کرائے گئے تھے لیکن اگر ایسا نہیں تھا تو پھر ٹھو س ثبوت لف کیے جا ئیں‘ نیز یہ کہ اگر مینڈیٹ کو ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت چرایا گیا ہے توان لو گوں کی نشا ند ہی کی جا ئے جنہو ں نے ایسا کیا تھا۔ پی ٹی آ ئی کے محض یہ مطالبہ کرنے سے کہ ووٹوں کے تھیلے کھول دیئے جا ئیں تو بلی تھیلے سے باہرآ جائے گی، بات نہیں بنے گی!

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں