اس مرتبہ قومی بجٹ بڑی دھوم دھام سے پیش کیا گیا اور ایسا ہو تا بھی کیوں نہ ،اسی روز یعنی 5جون کو ہی میاں نواز شریف کی حکومت کے دو برس بھی مکمل ہو ئے تھے ۔اگرچہ برسوں سے یہ روایت ہے کہ ہر سال صحا فیوں کی ایک کھیپ کو بجٹ کے موقع پر اسلام آ با د میں مدعو کیا جا تا ہے لیکن امسال ان کے ایک ٹکٹ میں جو انھیں سرکار نے ہی مہیا کیا تھا‘ کئی مزے ہو گئے ۔ بجٹ کے اعلان سے ایک روز قبل پارلیمانی سال کے آ غاز پر صدر مملکت ممنون حسین کا پارلیمنٹ کے مشتر کہ اجلاس سے خطاب ہوا۔ اسی روز وزیر اعظم نواز شریف نے راولپنڈی ،اسلام آباد میٹرو بس کا افتتاح فرمایا۔ صدر مملکت کی تقریر جو حکومت ہی لکھ کر دیتی ہے ،نواز شریف حکومت کے گز شتہ ایک سال کے ''کارناموں‘‘ سے مزین تھی۔ممنون حسین نے منصب صدارت پر متمکن ہونے کے حوالے سے مرصع اور مقفیٰ اردو میں اپنا خطاب فرما کر اپنا اظہار ممونیت بھرپور طریقے سے کیا ۔ آئین کے آرٹیکل 58ٹو بی کے ہو تے ہو ئے سابق صدر غلام اسحق خان یا سردارفاروق خان لغا ری پارلیمنٹ کے اجلاس سے نہ صرف خطاب کرتے تھے بلکہ ان کو تحلیل کرکے وزرائے اعظم کو گھر بھی بھیج دیتے تھے گویا اس وقت صدر کی حیثیت ایک مانیٹر جیسی تھی‘ لیکن ممنون حسین کے خطاب کو سن کر بھٹو دور کے صدر چوہدری فضل الہٰی مرحوم کی یا دتازہ ہو گئی۔کہتے ہیں کہ چوہدری صاحب مر حوم اس حد تک بے اختیا ر اور بے بس تھے کہ بعض منچلو ں نے ایوان صدر کی دیواروں پر لکھ دیا کہ ''صدر فضل الٰہی کو رہا کرو‘‘۔ غالباًممنون حسین کی حالت اتنی پتلی نہیں ہے لیکن اختیار ات کے معا ملے میں وہ بھی چوہدری فضل الٰہی کی طرح محروم ہوں ۔ ان کے خطاب میں حکومت کی کارکردگی کے حوالے سے ''ستے‘‘ خیراں کی نو ید سنائی گئی۔
جب میاں نواز شریف نے میٹروبس کا افتتاح کیا تو تعریف اور تو صیف کی جا گ لگ گئی ۔وزیر اعظم میاں نواز شریف کا کہنا تھا کہ میٹرو بس کے افتتاح سے پاکستان میں ایک نئے سنہرے دور کا آغا زہو رہا ہے۔ انھوں نے نو ید سنائی کہ پاکستان جلد ہی ایشین ٹا ئیگر بنے گا ۔ایشین ٹا ئیگر کا نعرہ کو ئی نیا نہیں ہے غا لباً یہ میاں نواز شریف کی وزارت عظمٰی کا پہلا دور تھا‘ جب میں ان کے ساتھ سوئیٹزرلینڈ میں ڈیوس میں ورلڈاکنامک فورم کے اجلاس میں گیا ۔اس وقت سر تاج عزیز وزیر خزانہ تھے ،وہاں موقع سے فائدہ اٹھا تے ہو ئے زیو رچ میں ایک انو یسٹمنٹ کانفرنس کا انعقاد کیا گیا جس میںمیاں نواز شریف نے اعلان کیا کہ پاکستان جلد ہی ایشین ٹا ئیگر بننے جا رہا ہے ۔یہ وہی دور تھا جب جنو ب مشر قی ایشیا میں آسیان تنظیم کے رکن ممالک جن میں ملا ئیشیا ،انڈونیشا اور سنگا پوربھی شامل ہیں‘ کو ایشین ٹا ئیگر کہا جا تا تھا ۔اب اس امر کو دو دہا ئیوں سے زیا دہ عرصہ گز ر چکا ہے ،لیکن ''ہنو زدلی دوراست‘‘۔ اس کے بعد میاں صاحب دوبارہ بھی وزیر اعظم بنے لیکن اس وقت وہ ایشین ٹا ئیگر بننے کے علاوہ بھاری مینڈ یٹ کے نشے سے سرشار تھے ۔ میٹروبس کے افتتاح کے مو قع پرمیاں صاحب نے مو قع سے فا ئدہ اٹھا تے ہو ئے بعض کام کی باتیں بھی کہہ دیں۔ان کاکہنا تھا کہ مارشل لاء میں جنگ اور جمہو ری دور میںترقی ہو تی ہے ۔نیز یہ کہ تمام اداروں کو جمہو ریت کا احترام کرنا چاہیے ۔میاں صاحب خلاف معمول کچھ اچھے موڈ میں تھے۔ انھوں نے پہلے تقریر کرنے والے برادر خورد کو میٹروبس منصوبے کی تکمیل پر تھپکی دی اور انھیں ازراہ تفنن کہا کہ پرانے شعر گنگنانے چھوڑدیں اور نئے دور میں نئے شعر پڑ ھیں ۔میاں صاحب کو سن کر لگتا تھا کہ آ ہستہ آ ہستہ پرانے نواز شریف بحال ہو رہے ہیںاور اتنا بھی فوج کے تھلے نہیںلگے ہو ئے جتنا کہ میڈیا میں تا ثر دیا جا رہا ہے ۔
شادمانی کے اس ماحول کوبعداز دوپہر وزیر خزانہ محترم اسحق ڈار کی پریس کا نفرنس نے کچھ گہناسادیا ۔ڈار صاحب نے رواںمالی سال کا اقتصادی سروے پیش کیاجس کے مطابق حکومت اقتصادی ترقی کے اکثر ہدف پورے کرنے میں ناکام رہی ہے ۔ڈار صاحب کا دعویٰ تھا کہ امسال شرح نمو5.1فیصد تک نہیںبڑ ھ سکی اور4.2 فیصد اضا فہ ہوا ہے ۔ہمایوں اختر خا ن کے قائم کردہ انسٹی ٹیو ٹ فارپالیسی ریفارمز جس کی سربراہی ممتاز ماہر اقتصادیا ت سابق وزیر خزانہ ڈا کٹر حفیظ پاشاکرتے ہیں کے مطابق شر ح نمو میں یہ اضا فہ بھی کچھ اعدادو شمار کو آ گے پیچھے کرکے کیا گیا ہے اور بعض اہم اجناس ،لائیو سٹاک ، جنگلات ،ماہی گیری ، تعمیرات اور گورنمنٹ سروسز میں اصل سے بڑھ کر اضا فہ دکھایا گیا ہے ‘جس بناء پر یہ کہنا غلط نہیںہو گا کہ شرح نمو میں اضا فہ 3.6 فیصد سے زیا دہ نہیں ہے ۔آئی پی آر کے مطابق گز شتہ پانچ دہا ئیوں میںپاکستان کی معیشت 4فیصد سے زیا دہ نہیں بڑ ھی ۔آ ئی پی آ ر کی بات پر اعتماد کرنا ہی پڑے گا کیو نکہ ہمایو ں اختر خان کے برادر خورد ہارون اختر خان جو انتہا ئی منجھے ہو ئے ماہر اقتصادیا ت ہیں اور آ ئی پی آ ر کے بورڈ پر بھی ہیں ،اب میاں نواز شریف کے معاون خصوصی برائے ریو نیو مقر ر ہو گئے ہیں ۔اسی طرح پنجاب میں حفیظ پاشا کی اہلیہ محترمہ عائشہ پاشا جو خود بھی ماہر اقتصادیا ت ہیں ،پنجاب کا بینہ میں حلف اٹھا چکی ہیں۔ بجٹ کے حوالے سے دیکھا جا ئے تو حکومت نے رواں مالی سال میںمعیشت کو مستحکم کرنے کے لیے گرانقد ر خدمات انجام دی ہیں۔ مالیا تی خسارہ کم کیا ہے ،زرمبادلہ کے ذخا ئر 17ارب ڈالر تک پہنچ گئے ہیں،سٹا ک مارکیٹ آسمان سے باتیں کر رہی ہے، روپے کی قدر مستحکم ہو ئی ہے ، مہنگا ئی سنگل ڈیجٹ 4.6فیصد ہے اور سب سے بڑ ھ کر آ ئی ایم ایف سمیت بین الاقوامی مالیا تی ادارے پاکستان کی کا رکر دگی سے خوش ہیں ۔ پہلے آ ئی ایم ایف کی شرائط پو ری نہ کرنے کی بناء پر ایک دو قسطوں کے بعد ہی مملکت خداداد کے لیے آ ئی ایم ایف کا قر ضہ دینے کا پروگرام بند ہو جاتا تھا‘ لیکن محترم اسحق ڈار کی سربراہی میں یہ پروگرام کامیا بی سے جا ری وساری ہے ۔ لیکن مصیبت یہ ہے کہ آئی ایم ایف کی شرائط پو ری کرنا اور اقتصادی ترقی لاز م وملزوم نہیں ہیں ،بلکہ اس کے بر عکس پیداوار بڑ ھانے کے لیے بہت سے اور پاپڑ بیلنے پڑیں گے ۔پاکستان کے قریباًزیا دہ تر وسائل) ڈیٹ سر وسنگ (قرضے ادا کرنے اور دفا عی اخراجات پراٹھ جا تے ہیں اور ''گنجی نہائے گی کیاا ور نچوڑے گی کیا‘‘ کے مترادف ترقی کے لیے کچھ بچتا ہی نہیں اور اس کے لیے بھی قر ضوں پر انحصار کرنا پڑتا ہے۔
ماہرین اقتصادیا ت کا کہنا ہے کہ غربت میں کمی اور ترقی کی راہ پر گامز ن ہونے کے لیے شرح نمو میں کم از کم چھ فیصد اضا فہ ہونا چاہیے ۔اس وقت پاکستان کی آمدنی میں اضا فے کی شرح افغانستان کو چھوڑ کر خطے میں سب سے کم ہے ۔اس گرداب سے نکلے بغیر ترقی ممکن نہیںہے ۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ پاکستان میں جی ڈی پی کے مقا بلے میںٹیکس کی شرح 10.2سے گر کر اب 7.5فیصد رہ گئی ہے حالانکہ کسی بھی ترقی پذیر ملک کے لیے یہ شرح اس سے دگنا ہو نی چا ہیے ۔حکومت ایف بی آر کے اہداف پورے کرنے کے لیے اس حد تک مشتا ق ہے کہ مولانا طارق جمیل جیسے جید سرکاری علماء کو ایف بی آ روالوں کولیکچر دینے پر مامور کر رکھاہے‘ گو یا اب دواکے بجائے دعاسے کام لیاجا رہا ہے ۔حکومت درست طورپر اس بات کا کریڈٹ لے رہی ہے کہ سود کی شرح جو اب سات فیصد پر ہے چالیس برس میں اتنی کم نہ تھی‘لیکن اس کے با وجود ملکی وغیر ملکی سرمایہ کاری میں اضا فہ ہوا ہے ، اور نہ ہی برآمدات میں بلکہ رواں مالی سال کے دوران پرائیویٹ سیکٹر کے لیے بینکوں کے قرضوں میں نمایاں کمی ہو ئی ہے ۔اس کی وجہ یہ ہے کہ حکومت سٹیٹ بینک کے بجا ئے نجی بینکوں سے قر ضے لے رہی ہے اور نجی بینک سکوک اور پاکستان بانڈز کی زائداور گارنٹی شدہ آمدنی سے خوش ہیں۔ اس کے باوجود کہ یورپی یونین نے اسی برس پاکستانی ٹیکسٹا ئل کو جی ایس پی پلس کی سہولت فراہم کی لیکن روپے کی قیمت خطے کی د یگر کرنسیوں کے مقابلے میں زیادہ ہونے کی بناء پر برآمدات بھی جمود کا شکار ہیں اور اس تناظر میں دیکھا جا ئے تو حکومت کو سستی اور مسلسل انرجی کی فراہمی اور دہشت گردی کے بارے میں مربوط پالیسی پر عمل درآمد کرنا ہو گا ۔اس کے بغیر ایشین ٹا ئیگر تو کیا بندۂ مزدور کے اوقات کو بہتر بنانا بھی مشکل ہو گا۔