"ANC" (space) message & send to 7575

پھر حاضری

اخبار کی ایڈیٹری، انگریزی کالم نگاری اور ایک ٹی وی چینل کے معاملات دیکھنے کے علاوہ ہفتے میں چار لائیو پروگرام کرنے کے بعد کالم لکھنے کی فرصت ہی کہاں ملتی ہے لیکن اپنی قومی زبان میں لکھنے اور پڑھے جانے کا کچھ اور ہی مزہ ہے ۔ اسی بنا پر بندہ اپنی جملہ مصروفیات کے باوجود اردو کالم کے ساتھ ''دنیا‘‘ کے صفحات پر حاضر ہے ۔ اس عرصے کے دوران جہاں عمران خان اور ریحام خان کی شادی کی خبر میں نے بریک کی وہیں ان کی گھریلو ناچاقی کی‘ جو طلاق پر منتج ہوئی ، خبردینے کا ''ناگوار فریضہ ‘‘بھی مجھ ناچیز کو ہی ادا کرنا پڑا۔ اس سے کمپنی کی مشہوری تو ہوئی لیکن اس کے ساتھ ساتھ ناقدین کے تُندو تیز حملوں کا سامنا بھی کرنا پڑا۔ بعض اینکرز اور کالم نگاروں کی رائے یہ تھی کہ صحافیوں کو سیاستدانوں کی نجی زندگی میں دخل اندازی نہیں کرنی چاہیے ۔ ایک دوست کا تو یہ بھی کہنا تھا کہ جس شخص نے 6اگست 1990ء کو بے نظیر بھٹو کی حکومت کی غلام اسحاق خان کے ہاتھوں چھٹی ہونے کی خبر دی تھی، اسے عمران خان کی طلاق کی خبر دے کر اپنا معیار نہیں گرانا چاہیے تھا ،تاہم مجموعی طور پر میرے اس ''سکوپ‘‘ کو سراہا ہی گیا۔ لیکن مجھے اس بات پر قدرے حیرانی ہوئی کہ وہ ناقدین اینکرز جو ستمبر میں اپنے پروگراموں میں میری اس خبر کی تردید کرانے کی سر توڑ کوشش کرتے رہے اور بعد ازاں طلاق کی بات منکشف ہونے پر مجھ پر تیر برساتے رہے، اپنے ہی پروگراموں میں ''ماہرِ عمرانیات‘‘ اور''ماہرِ ریحامیات‘‘ بن گئے ۔ دلچسپ بات تو یہ ہے کہ محترمہ ریحام خان کا،جو کہ طلاق یافتہ ہونے کے بعد پھر الیکٹرونک میڈیا پر فروکش ہونے کو ہیں ،کہناہے کہ مجھے ان سے بھی پہلے عمران خان کے ساتھ شادی کرنے کا علم کیسے ہو گیا اور پھر گھریلو ناچاقی اورطلاق کی خبر بھی مجھ تک کیسے پہنچ گئی ۔ظاہر ہے کہ میرے پاس غیب کا علم تو نہیں ہے اور نہ ہی میں پیشگوئیاں کرنے والا کوئی ماہر علم نجوم ہوں اور نہ ہی مجھے الہام ہوتا ہے ۔ سیدھا سادا صحافی ہوں۔ دراصل خبر خود ''سیکولر‘‘ہوتی ہے خواہ اچھی ہو یا بری۔ خبر بس خبر ہوتی ہے ۔ بعض اوقات نا گوار باتیں بھی جن میں خبریت ہو‘ ان کا انکشاف بھی تحقیق کے بعد ہی کرنا پڑتا ہے اور اس کام کے لئے محنتِ شاقہ، جستجو اور جرأت وہمت کی ضرورت ہوتی ہے ۔اپنی پروفیشنل ساکھ داؤ پر لگا کر رسک بھی لینا پڑتا ہے ۔بعض صحافی برادران محض اس لیے کہ سیاستدانوں سے اُن کے ذاتی تعلقات پر آنچ نہ آئے خبر کو سینے میں دفن رکھنے میں ہی عافیت سمجھتے ہیں۔ بہرحال جو ہوا سو ہوا۔ صحافت میں اس قسم کی چھیڑ چھاڑ تو چلتی ہی رہتی ہے ۔میں پاکستان تحریکِ انصاف کے سربراہ عمران خان کا اس لحاظ سے شکر گزار ہوں کہ انہوں نے اپنے بعض پارٹی رہنماؤں کی طرح سوشل میڈیا پر گالم گلوچ پر مبنی بیانات کے برعکس میرے بارے میں کوئی نازیبا کلمات ادا نہیں کئے ۔ کیونکہ انہیں علم تھا کہ میری بات درست ہے ۔محترمہ شیریں مزاری، شاہ سے زیادہ شاہ پرست ہونے کے سبب اپنے ٹویٹس میں مجھے بے نقط سناتی رہیں لیکن میری ان سے پرانی یاداللہ ہے لہذا میں نے ان کی نکتہ چینی کا کبھی برا نہیں منایا، تاہم تنقید کرنے والے دوستوں میں اگر اخلاقی جُرات ہوتی تو معذرت کرتے ۔ لیکن جیسا کہ میں نے کہا ہے کہ مجھے اس بات کا کوئی قلق نہیں ، ویسے بھی کالم نگار اور اینکر حضرات ہر کسی کو جائز و ناجائز ہدف تنقید بناتے ہیں لہٰذا ہمیں بھی نکتہ چینوں کی باتوں پر ناراض نہیں ہونا چاہیے ۔ رہا اب معاملہ اس بات کا کہ میرا''سورس‘‘ کون ہے ‘ صحافی سے خبر کا ذریعہ پوچھنا ایسا ہی ہے جیسے کسی ادھیڑ عمر خاتون سے اس کی عمر پوچھی جائے یا کسی اخبار کے مالک سے اخبار کی اصل سرکولیشن۔
خان صاحب حال ہی میں بھارت یاترا سے واپس آئے ہیں وہاں ان کی ''مودی جی‘‘ سے ملاقات بھی ہوئی۔ ا نہوں نے وہاں ''انڈیا ٹو ڈے‘‘ کے پروگرام میں شرکت کی۔ معروف صحافی کرن تھاپڑ کو انٹرویو دینے کے علاوہ سابق بھارتی کپتان کپل دیو 
کے ساتھ کرکٹ کے معاملات پر ڈائیلاگ میں بھی شرکت کی۔ محترم خان صاحب وہاں خوشگوار موڈ میں نظر آئے ۔ سوٹ میں ملبوس سمارٹ بھی لگ رہے تھے ۔ لیکن سب سے بڑھ کر یہ کہ انہوں نے ایک پاکستانی اپوزیشن لیڈر کے طور پر پاکستانی موقف کی بھرپور ترجمانی کی اور نواز شریف حکومت سے ہزار اختلاف کے باوجود وہاں حکومت کوبے جا تنقید کا نشانہ نہیں بنایا۔ اس سوال کے جواب میں کہ پاکستان میں جمہوریت کا مستقبل کیا ہے ،پی ٹی آئی کے سربراہ نے بہت خوبصورت جواب دیا کہ پاکستان صرف جمہوریت کے ذریعے ہی چل سکتا ہے اور اس معاملے میں تمام سیاسی جماعتوں کے درمیان اتفاقِ رائے پایا جاتاہے ۔ ہمارے زیادہ تر اینکر برادران کے برعکس کرن تھاپڑ نے اپنا ہوم ورک کیا ہوا تھا۔ ایک سوال کے جواب میں خان صاحب نے پاک بھارت تعلقات میں بہتری پر زور دینے کے ساتھ ساتھ حال ہی میں بحال ہونے والے "پیس پراسس" کی حمایت بھی کی۔ کرن تھاپڑ نے شیریں مزاری کے اس روز داغے جانے والے بیان‘ جس میں محترمہ نے فرمایا تھا کہ بھارتی وزیرِ خارجہ سشما سوراج کے دورہِ پاکستان کے موقع پر جاری ہونے والے مشترکہ بیان میں کشمیر اور سمجھوتہ ایکسپریس کا ذکر نہ ہونا "سیل آؤٹ "کے مترادف ہے‘ کے بارے میں سوال کیا تو خان صاحب نے یہ کہہ کر پیچھا چھڑا لیا کہ یہ محترمہ کی ذاتی رائے ہے ۔ یاد رہے کہ ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین نئی دہلی کے دورے کے موقع پر جب کسی ایسے پروگرام میں شریک ہوئے تھے تو انہوں نے دو قومی نظریے کو ہی ڈھکوسلا قرار دے دیا تھا۔ خان صاحب نے وہاں یہ دعویٰ کرنے کے باوجود کہ وہ پیشہ ور سیاست دان نہیں ہیں اور ایسا بننے سے بہتر ہے کہ وہ خود کشی کر لیں، ایک منجھے ہوئے برد بار اور مدبر سیاست دان ہونے کا ثبوت دیا ہے ۔ کا ش وہ پاکستان واپس آ کر بھی حقیقت پسندی سے اپنی سیاست کا جائزہ لیتے اور دھاندلی دھاندلی کی رٹ لگانے اور تیسرے امپائر کا انتظار کرنے کے بجائے ایک ذمہ دار اپوزیشن پارٹی کے طور پر نواز حکومت کو ٹف ٹائم دیتے لیکن انہوں نے وطن واپس پہنچتے ہی ایک بار پھر حکومت کو اپنی تنقید کا ہدف بنا لیا ہے ۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں