"ANC" (space) message & send to 7575

سندھ گھڑمس اور جمہوریت کی مرغی

سندھ میں رینجر زکے اختیارات کے حوالے سے کچھ عر صے سے اچھا خا صا گھڑ مس مچا ہوا ہے اوراس خدشے کا اظہا ر کیا جا رہا ہے کہ ایک طرف سندھ کی صوبا ئی حکومت ہے اور دوسری طرف رینجرز، کہیں دو ملا ؤں کے درمیان جمہو ریت کی مر غی حرام نہ ہو جا ئے! اگرچہ رینجرز کو سندھ کی صوبا ئی اسمبلی کی قرارداد کے ذریعے مشروط اختیارات مل گئے ہیں لیکن سندھ کی اپوزیشن جما عتیں جن میں تحریک انصاف،مسلم لیگ فنکشنل، ق لیگ اور کسی حد تک مسلم لیگ ن پیش پیش ہیں ، نے 16 دسمبر کے روز کثرت رائے سے چند منٹوں میں ہی منظور ہونیوالی اس قرارداد پر ''نو کرپشن نو‘‘کے نعرے لگا ئے اور قرارداد کی کاپیاں بھی پھاڑ ڈا لیں ۔ناقدین کا کہنا ہے کہ سندھ حکومت نے یہ سارا سوانگ ایک شخص یعنی آصف علی زرداری کے پابند سلاسل دست راست ڈاکٹر عاصم حسین کی جان بچا نے کے لیے رچایا ہے۔ان کے مطابق رینجرز‘ضیا ء الدین ہسپتا ل کے سربراہ اور سابق مشیر پٹرولیم کے 90روزہ ریمانڈ کے دوران ان کے خلاف دہشت گردی اور کرپشن کے شواہد سامنے نہیں لاسکی۔تاہم کہا جا تا ہے کہ ان کے پا س ڈاکٹر عاصم حسین کی کرپشن کے بہت سارے ثبوت موجو دہیں۔
ڈاکٹر عاصم حسین کے ساتھ میر ی ایک عرصے سے یاد اللہ ہے۔ اس بات کی ضما نت تو مجھ سمیت کو ئی نہیں دے سکتا کہ ڈا کٹر عاصم حسین صاف ، شفاف اور پو تر تھے لیکن میرا دل یہ نہیں ما نتا کہ ڈاکٹر صاحب دہشت گردوں کی پشت پنا ہی کر رہے تھے ۔یقینا پیپلز پارٹی میں رہتے ہو ئے ایم کیوایم کے لیے ان کا ایک سافٹ کا رنر تھا اور وہ آصف علی زرداری اور الطاف حسین کے درمیان رابطہ کاکام بھی انجام دیتے رہے۔یہ پیغام رسانی تو رحمن ملک بھی کرتے رہے لیکن مضحکہ خیز الزام یہ بھی ہے کہ وہ اپنے ہسپتال میں دہشت گردوں کا علا ج معالجہ کرتے تھے۔کیا ہسپتال میں داخل ہو نے سے پہلے اس قسم کا حلفیہ بیان دینا پڑتا ہے کہ مریض دہشت گرد نہیں ہے یا اس کا فلاں سیاسی جما عت سے تعلق یا عدم تعلق ہے۔
جہاں تک کرپشن کے الزامات کا تعلق ہے ، ڈاکٹر عاصم اب نیب کے پاس ہیں ۔یقینا بادی النظر میں ڈاکٹر صاحب کے ساتھ ہو نے والے سلوک کے حوالے سے ذاتی انا کی بو آ تی ہے۔انصاف ایساہونا چاہیے جو ہو بھی اور ہو تا ہوا نظر بھی آئے ۔ ڈاکٹر عاصم کے کیس میں ہنوزایسا نظر نہیں آ رہا ۔ جہاں تک رینجرز کے اختیارات محدود کرنے کا تعلق ہے‘ یہاں یہ جا ئز سوال یقینا پید اہو تا ہے کہ جب رینجرز کی توپوں کارخ ایم کیو ایم کی طرف تھا تو پیپلز پارٹی کی حکومت نے اسمبلی سے منظوری لینے کی زحمت کیوں گوارا نہیں کی؟ اب جبکہ سندھ کی حکمران جما عت پر نزلہ گرا ہے تو اسے اسمبلی یا د آ گئی ہے۔ تا ہم رینجر ز کے اختیا رات کے حوالے سے بحث اس لحاظ سے صحت مند ہے کہ ایک جمہو ری دور میں عسکری قوتوںکے اختیا رات کہاں تک جا سکتے ہیں اور سیا سی حکومت کس جگہ ان پر لکیر کھینچتی ہے۔یقینا جمہو ریت کی سپرٹ کے مطابق رینجرز سمیت کسی بھی قسم کے نیم فوجی وسویلین قانون نا فذ کرنے والے ادارے کو حکومت کے تا بع ہی ہونا چاہیے‘ لیکن دوسری طرف یہ بھی حقیقت ہے کہ اگر رینجرز کو دیئے گئے اختیا رات کے دودھ میں اتنی مینگنیاں ڈال دی جا ئیں کہ وہ عضو معطل بن کر رہ جائے تو جس مقصد کے لیے دو سال قبل کراچی آپریشن شروع کیا گیا تھا اس کا مقصد ہی فوت ہو جائے گا ۔اس آپریشن کے نتیجے میں جہاں کراچی کی روشنیاں بحال ہو ئی ہیں وہاں امن وامان کی صورتحال بھی خاصی بہتر ہو ئی ہے اور اس کا سہرا رینجرزسمیت قانون نافذ کرنے والے اداروں،سندھ اور وفا قی حکومت کو بھی جا تا ہے۔ لیکن جس کاکام اسی کو ساجھے ،رینجر ز کاکام ڈاکو ؤں ، چوروں ،بھتہ خوروں اور دہشت گردوں کی سرکو بی کرنا ہے ‘کرپشن کا معاملہ نیب کے سپرد ہے‘ لیکن کرپشن کو زبردستی دہشت گردی کے ساتھ مڑھ کر ڈاکٹر عاصم حسین کو نکو بنا نا بظاہرانصاف پر مبنی نہیں لگتا ۔وطن عزیز میں سیاستدانوں کی بد عنوانیا ں ،اختیا رات کا ناجا ئز استعمال اور بوالعجبیاں ایک نا سور کی شکل اختیار کر چکی ہیں‘ بالخصوص پیپلز پارٹی کا ٹرانسپیرنسی کے حوالے سے ریکارڈ خا صا ناقابل رشک ہے۔مئی 2006ء میں محترمہ بے نظیر بھٹو اور میاںنواز شریف کے درمیان چارٹر آ ف ڈیمو کریسی میں ایک ایسابین الجماعتی ادارہ بنانے کافیصلہ کیا گیا تھا جو سیاسی تعصبات سے بالا تر ہو کر بلا امتیا ز،صاف شفاف احتساب کرے گااور اس کی باگ ڈور پارلیمنٹ کے ہا تھ میں ہو گی‘ لیکن بوجو ہ یہ بیل منڈ ھے نہیں چڑھ سکی۔بد قسمتی سے سیف الرحمن دور کے بد نام زما نہ احتساب بیو رو کی جگہ پرویز مشرف کے دور میں بننے والے نیب نے لے لی جس کی کرپشن کی بیخ کنی کے حوالے سے اپنی کل ہی سیدھی نظر نہیں آ رہی ۔
جہاں تک پاک فوج کا تعلق ہے تو اس نے جنرل راحیل شریف کی سربراہی میں گز شتہ ڈیڑھ سال کے دوران وطن عزیز سے دہشت گردی کو جڑ سے اکھا ڑنے کے ضمن میں ایسی گرانقدر خدمات انجام دی ہیں جن کی جنرل ضیا ء الحق دور سے لے کر اب تک مثال نہیں ملتی ۔ماضی میں ہر طالع آزما فوجی جرنیل نے کرپشن کے خا تمے اور احتساب کے نام پر ہی اقتدار پر قبضہ کیا اور اپنی پوزیشن مستحکم کرنے کے لیے سیا ستدانوں کو نکو بنایا ۔جنرل ضیا ء الحق نے تو سیاست اور سیا ستدانوں کو اسلام کے منافی قرار دے دیا تھا۔لیکن کرپشن کے خا تمے اور گڈ گورننس کے نام پر جمہو ریت پر شب خون مارنے والے جرنیل پھر انہی نام نہاد کرپٹ اور عوام میں جڑیں نہ رکھنے والے سیا ستدانوں کو ساتھ ملا کر اپنے اقتدار کو دوام بخشتے رہے ہیں۔اب بھی جو سیاسی جما عتیںکرپشن کے خا تمے کا نعرہ لگا رہی ہیں ان کے جذبات حب علی سے زیا دہ بغض معاویہ پر مبنی ہیں۔ حال ہی میںبرائے نام تا جر تنظیموں اورچند سیاسی جما عتوں نے کراچی میں رینجرز کو اختیا رات دینے کے حق میں جلوس بھی نکالے ہیں اور ان جلو سوں میں جنرل راحیل شریف کے حق میں نعرے بازی کی گئی اورشرکا نے ان کی قد آور تصویریں بھی اٹھا رکھی تھیں، اس سے انہوں نے نہ تو اس بہا در جرنیل کی خدمت کی ہے نہ پاک فوج کی اور نہ ہی جمہو ریت کی ۔یہ ایک حقیقت ہے کہ سندھ کے دیہی علاقوں میںپیپلز پارٹی کی حکمرانی ہے اور شہری علاقوں میں ایم کیو ایم کی گرفت مضبوط ہے۔پنجاب اور وفاقی سطح پر میاں نواز شریف اور ان کی جما عت مسلم لیگ(ن) قائم دائم ہے۔ خیبر پختونخوامیں عمران خان کی تحریک انصاف کافی الحال طوطی بولتا ہے۔ان تمام عنا صر کو محض احتساب اور کرپشن کے نام پر سمندر میں نہیں پھینکا جا سکتا ۔حال ہی میں ہونیوالے بلدیاتی انتخابات میں ان جماعتوں نے اپنے مینڈیٹ کی تجدیدبھی کی ہے۔ جنرل ضیا ء الحق کے دور میں پہلے احتساب پھر انتخاب اور مشرف دور میںسچی جمہو ریت کامزہ ہم چکھ چکے ہیں ۔ خدارا اب قوم کے حال پر رحم کیا جائے، تا ہم اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ سیاستدان غریب ماری کی روش پر ڈھٹا ئی سے قائم رہیں، انہیں بھی نو شتہ دیوار پڑھ لینا چاہیے۔
وزیر اعظم نواز شریف کی زیرصدارت اجلاس میں بھی اعلیٰ سول و عسکری قیادت نے رینجرز کے اختیارات میں کمی پر گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے اس عزم کا اعادہ کیا ہے کہ کراچی آپریشن کی کامیابیوں کو ضائع نہیں ہونے دیں گے۔ جذبہ بڑا نیک ہے لیکن اس مقصد کے حصول اور تکمیل کے لیے تمام فریقوں کو یکسوئی اور نیک نیتی سے کام کرنا ہوگا ورنہ کراچی کا خدا حافظ۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں