"ANC" (space) message & send to 7575

اسلامی عسکری اتحادمیںشمولیت ایک معمہ

سعودی عرب کی قیادت میں بننے والے 34 اسلامی ملکوں کے عسکری اتحاد میں پاکستان کی شمولیت بھی ایک معمہ ہے۔ جب سعودی عرب کے نائب ولی عہد اور وزیردفاع شہزادہ محمد بن سلمان نے اس الائنس میں پاکستان کے شامل ہونے کا اعلان کیا تو ہمارے سیکرٹری خارجہ اعزاز چودھری نے ایک اخباری بیان میں لاعلمی کا اظہارکرتے ہوئے فرمایا کہ اسلام آباد اس سلسلے میں معلومات حاصل کر رہا ہے اور اس اتحاد کے محرکات کا جائزہ لے کر شمولیت کا فیصلہ کرے گا، تاہم اگلے روزقوم حیران و ششدر رہ گئی جب حکومت کی طرف سے یہ نوید سنادی گئی کہ پاکستان تو اس الائنس میں شامل ہے، اب اعزاز چوہدری کی جواب طلبی ہورہی ہے کہ انھوں نے ایسا ''غیرذمہ دارانہ‘‘بیان کیونکر دیا؟پاکستان کی تاریخ ایسے واقعات سے بھری پڑی ہے جن کے مطابق حکمرانوں نے عوام کو اندھیرے میں رکھ کر اپنے وقتی مفادات کی آبیاری کے لیے قومی مفادات کوپس پشت ڈال دیا۔ ایک وہ دور بھی تھا جب ہماری حکومت نے پاکستان کوکمیونزم کے خلاف اتحاد سیٹو (SEATO) اور سینٹو (CENTO) میں جھونک دیا۔ اس طرح ہم راتوں رات کمیونزم کے خلاف جنگ میں براہ راست امریکہ کے اتحادی بن گئے۔اگرچہ یہ ہماری جنگ نہیں تھی لیکن اس کے عوض ہم نے خوب ڈالر اینٹھے اور بھارت کو مزہ چکھانے کے لیے امریکی اسلحے کے انبار لگالیے ۔ سرد جنگ میں پاکستان کو ملوث کر کے ہم نے سوائے سوویت یونین کی دشمنی کے اور کیا کما لیا؟ 1960ء میں پشاور کے قریب بڈھ بیر بیس سے امریکی جاسوس طیارے روس کی جاسوسی کرتے تھے۔ ایسا ہی ایک یو ٹو طیارہ جب پشاور سے اڑا تو اس کو روس نے گرالیا اور اس کے پائلٹ فرانسز گیری پاورزکو پکڑ لیا اور اس طرح آمرایوب خان کے ہاتھوں پاکستان کے مفادات کو امریکہ کے آگے فروخت کرنے کا بھانڈا بیچ چوراہے پھوٹ گیا۔ 
جنرل ضیاء الحق کے دور میں 1979ء میں افغانستان میں سوویت فوجوں کی یلغار کے بعد ہم کھلم کھلا کمیونزم کی یلغار کو روکنے کے چیمپئن بن گئے۔ آئی ایس آئی کے سربراہ جنرل حمید گل مرحوم اکثر یہ ''پھڑ ‘‘مارا کرتے تھے کہ برلن وال ہم نے توڑی ۔ جنرل پرویز مشرف کے دور میں نائن الیون کے اگلے روز ہی اس وقت کے آئی ایس آئی کے سربراہ جنرل محمود نے امریکی حکام کی تمام شرائط کے آگے گھٹنے ٹیک دئیے ۔ جب اُن سے کہا گیا کہ حضور! مشرف صاحب سے کلیئرنس تو لے لیں توانہوں نے فرمایا کہ اس کی کیا ضرورت ہے۔ مجھے اچھی طرح علم ہے کہ میرے باس کاموڈ کیا ہے۔''گھوسٹ جنگوں‘‘ میں پاکستان کو جھونکنا ہمارے ماضی کے حکمرانوں کا وتیرہ رہا ہے جس کا خمیازہ قوم آج تک بھگت رہی ہے۔ لیکن ان کوتاہ اندیشانہ پالیسیوں کی بنا پر جب بھی ہماری سالمیت پر کوئی آنچ آئی تو''ہمارا دوست‘‘امریکہ توہمیں نہ بچا سکا تاہم ہمارے دشمنوں نے ہمیں جی بھر کر نقصان پہنچایا۔ اس حوالے سے مشرقی پاکستان کی خانہ جنگی میں بھارت اور سابق سوویت یونین کی ملی بھگت ہماری تاریخ کا سیاہ ترین باب ہے جس کے نتیجے میں وطن عزیز دولخت ہو گیا۔
سعودی عرب کی زیرقیادت اتحاد میں شمولیت بھی کچھ اسی قسم کا معاملہ لگتا ہے۔ محسوس ہوتا ہے کہ ہم نے تاریخ سے کوئی سبق نہیں سیکھا۔ یمن کی خانہ جنگی میں پاکستان کو نہ جھونکنا ایک مستحسن اور درست فیصلہ تھا‘ اس بنا پر ہم نے سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کی ناراضی بھی مول لی۔ قومی حلقوں نے اس کو سراہا کیونکہ یہی پاکستان کے مفاد میں تھا کہ ہم یکسوئی کے ساتھ دہشت گردی کے خلاف پاکستان کی جنگ لڑیں نہ کہ ہماری فوج یمن کی خانہ جنگی میں ملوث ہوجائے ۔ نئے الائنس میں شمولیت کے سلسلہ میں کنفیوژن سے بعض بنیادی سوال ابھرتے ہیں۔ یہ بات تو واضح ہے کہ ہمارا دفتر خارجہ لوپ میں نہیں تھا۔ اگر اس اتحاد میں شامل ہونے کا فیصلہ ہوا تھا تو غالباً سویلین اور خاکی شریفوں کے درمیان ہی ہوا ہوگا۔ اس سے اس امر کی بھی تصدیق ہوتی ہے کہ ہماری خارجہ پالیسی کے کارپردازان معاملات سے ہی نابلد ہیں۔ فیصلے کہیں اور ہوتے ہیں اور انھیں حسب ضرورت محض مطلع کر دیا جاتا ہے۔
سابق وزیر خارجہ محترمہ حنا ربانی کھر نے اپنے ایک حالیہ انٹرویو میں الزام عائد کیا ہے کہ فوج پاکستانی سیاست میں کلیدی رول ادا کرتی ہے اور وزیراعظم کو کام کرنے کی جتنی آزادی ہونی چاہیے، اتنی نہیں ہے ۔کیا یہ محض اتفاق ہے کہ وزارت خارجہ کا قلمدان وزیراعظم میاں نواز شریف نے اپنے پاس رکھا ہوا ہے‘ لہٰذاخارجہ پالیسی پر کلیدی ذمہ داری انہی کی بنتی ہے‘ لیکن عام تاثر یہ ہے کہ نیشنل سکیورٹی کے نام پر افغانستان، امریکہ، بھارت اور سعودی عرب کے حوالے سے فیصلے جی ایچ کیو میںہی ہوتے ہیں یا کم از کم اس حوالے سے ویٹو پاور عسکری قیادت کے پاس ہے۔ کیا یہ سب کچھ سویلین حکومت کی کمزوری ہے یا مقتدر قوتوں کا قومی مفادات کی آڑ میں سکیورٹی پالیسی پر اپنی اجارہ داری قائم کرنے پر اصرار ؟ یقینا میاں نواز شریف کا طرز حکمرانی نیم دروں نیم بروں سا ہے۔ انہیں بجلی اور گیس کے پروجیکٹس کا افتتاح کرنے، موٹرویز، ہائی ویز، میٹرو بسیں بنانے اور لاتعداد غیر ملکی دورے کرنے کے بعد ایسے معاملات پر قوم اور اپنے فارن آفس کو اعتماد میں لینے کی فرصت ہی کہاں ملتی ہے۔ شام کی خانہ جنگی اور داعش کے حوالے سے بننے والے اس اتحاد میں پاکستان کی شمولیت کی کوئی تُک نظر نہیں آتی ۔ایسا اتحاد جس میں برادر ہمسایہ ملک ایران اور عراق کو بھی باہر رکھا گیا ہے ‘نیک شگون نہیں ہے۔ ہمیں عرب و عجم کی اس لڑائی میں فریق نہیں بننا چاہئے۔
میاں صاحب کو چاہیے کہ وہ مشیران خارجہ سرتاج عزیز اور طارق فاطمی کو لڑا کر اپنا الو سیدھا کرنے کے بجائے کل وقتی وزیر خارجہ مقررکریں۔ اس میں بھی کوئی حرج نہیں ہے کہ یہ قلمدان بزرگوار سرتاج عزیز کو ہی سونپ دیا جائے۔ لیکن اس سے پہلے تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کے اس مطالبہ پر کہ یہ معاملہ پارلیمنٹ میں لایاجائے ، بلا تاخیر وہاں لانا چاہیے۔ ماضی میں عوام سے بالا قومی سلامتی کے بارے میں غلط فیصلوں سے وطن عزیز کے مفادات کو سخت نقصان پہنچا ہے، اب اگر ہم جمہوریت کا دم بھرتے ہیں توپارلیمنٹ سے بالا ایسا کچھ نہیں ہونا چاہیے ۔ اگر طالبان سے مذاکرات، نیشنل ایکشن پلان اور یمن میں فوج بھیجنے کے معاملہ میں قومی اسمبلی میں بحث ہوسکتی ہے تو یہ کلیدی مسئلہ پارلیمنٹ میں لانے میں کیا ہچکچاہٹ ہے؟

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں