80 ء کی دہائی کے اواخر میں محاذ آرائی کی جس سیاست کا آغاز ہوا تھا وہ بالآخر جنرل پرویز مشرف کے اقتدار پر شب خون مارنے پر منتج ہوئی۔ 2006 ء میں جب محترمہ بے نظیر بھٹو اور میاں نوازشریف نے لندن میں میثاق جمہوریت پر دستخط کیے تو یہ امید پیدا ہوئی کہ جلاوطنی کا مزہ چکھنے والے سیاستدانوں نے تاریخ سے سبق سیکھ لیا ہے اور آئندہ وہ نہیں لڑیں گے۔ جب 2008 ء میں آصف علی زرداری کی قیادت میں پیپلزپارٹی نے اقتدار سنبھالا تو یہ امید، حقیقت نظر آنے لگی۔ اگرچہ ابتدائی طور پر پنجاب میں میاں شہباز شریف کی نااہلی کے بعد گورنر راج نافذ کیا گیا لیکن بعدازاں پیپلزپارٹی اور نواز لیگ نے معاملات کو اس حد تک نہیں بگڑنے دیا کہ اپوزیشن کو دیوار کے ساتھ لگادیاجائے یا حزب اختلاف فوجی قیادت کے ساتھ گٹھ جوڑ کر کے حکومت کوہی فارغ کرادے۔زرداری صاحب نے صدارت کا منصب سنبھال کر سازشیوں کے لیے ایوان صدر کا راستہ بند کر دیا اور اس طرح سسٹم چلتا رہا۔ اتفاق رائے سے آئینی ترامیم بھی ہوئیں، آزاد الیکشن کمیشن بھی بنا ، عدلیہ کو ججز کے انتخاب کے معاملے میں خودمختار بنا دیا گیا اور صوبوں کے درمیان وسائل کی تقسیم کا معاملہ جو برسوں سے حل طلب تھا وہ بھی حل کر لیا گیا۔
لیکن دوسری طرف اس دور میں پیپلزپارٹی کی حکومت کو نواز شریف اور اُن کے برادرخوردشہباز شریف کی طرف سے شدیدمخالفت کا بھی سامنا کرنا پڑا بلکہ بعض معاملات میں تو اپوزیشن نے پنجاب میں برسراقتدار مسلم لیگ (ن) کی حکومت کو لانچنگ پیڈ کے طور پربھی استعمال کیا ۔ جب شدید لوڈشیڈنگ شروع ہوئی تووزیراعلیٰ پنجاب نے علامتی طور پر اپنا دفتر مینار پاکستان کے سائے تلے منتقل کر دیا۔میاں صاحب جالب کے شعر گنگنانے کے ساتھ ساتھ ہاتھ والا پنکھا جھلتے ہوئے یہ دعویٰ بھی کرتے تھے کہ جب مسلم لیگ (ن) برسراقتدار آئے گی تو لوڈشیڈنگ 6 ماہ میں ختم ہوجائے گی۔ ادھر میاں نواز شریف وکیل کی وردی پہن کرحسین حقانی کی مبینہ مدد کرنے کے معاملے میں میموگیٹ کیس میںپیپلزپارٹی کی حکومت کے خلاف سپریم کورٹ پہنچ گئے۔پیپلزپارٹی چیف جسٹس افتخار چوہدری کی صورت میں ایک انتہائی سخت گیر عدلیہ اور اسٹیبلشمنٹ کے گٹھ جوڑ کا شکار رہی لیکن پھر بھی سسٹم چلتا رہا۔ اس سب کے باوجودمجموعی طور پر میاں نواز شریف نے بطور اپوزیشن لیڈر اور بعدازاں بطور وزیراعظم محاذ آرائی کی سیاست کے بجائے صلح جوئی کی سیاست کو ترجیح دی۔ سابق صدر زرداری اور ان کے درمیان اچھے تعلقات قائم رہے لیکن عمران خان اور تحریک انصاف کے جیالے کباب میں ہڈی بن گئے۔ اگست 2014ء میں شروع ہونے والے دھرنے نے میاں نواز شریف کی حکومت کو ہلا کر رکھ دیا۔ خان صاحب کے علاوہ کئی میڈیا پرسنز بھی تیسرے امپائر کی انگلی اٹھنے کا انتظار کر رہے تھے لیکن ایس او ایس بھیجنے پر زرداری صاحب میاں نواز شریف کی مدد کو آئے اور پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس بلانے سے خطرہ آہستہ آہستہ ٹل گیا۔
اڑھائی سال گزرنے کے بعد نواز شریف کی حکومت نصف میعاد پر پہنچ چکی ہے۔ اب اسے کسی طرف سے خطرہ محسوس نہیں ہورہا۔ تیل کی قیمتیں گرنے کے بعد اکانومی کی صورتحال بھی اتنی پتلی نہیں ہے اور افراط زر بھی قابو میں ہے۔ عمران خان تمام تر پاپڑ بیلنے کے باوجودمیاں برادران کا کچھ نہیں بگاڑ سکے ۔ بلدیاتی انتخابات اور زیادہ تر ضمنی انتخابات میں بھی حکمران جماعت کو کامیابی حاصل ہوئی ہے۔ اس پس منظر میں ''رات گئی بات گئی‘‘کے مترادف لگتا ہے کہ میاں صاحب کو اب اپوزیشن کو آن بورڈ رکھنے کی ضرورت محسوس نہیں ہورہی۔ زرداری صاحب گذشتہ برس جون میں فوج کے خلاف ایک سخت بیان دینے کے بعد جلاوطنی میں جا چکے ہیں۔ اب ڈاکٹر عاصم حسین کی گرفتاری کے بعد پیپلزپارٹی یہ محسوس کرنے لگی ہے کہ انھیں ٹشو پیپر کی طرح استعمال کر کے پھینک دیاگیا ہے۔ اسی بنا پر لیڈر آف اپوزیشن سید خورشید شاہ نے جنہیں بعض جیالے '' ن‘‘ کے رکن کا لقب دیتے تھے ‘اب قومی اسمبلی میں حکومت کی کلاس لینا شروع کر دی ہے۔ سینیٹ میں پیپلزپارٹی کو معمولی اکثریت حاصل ہے لیکن اپوزیشن اور دیگر جماعتوں کو ملا کر ایوان بالا میں حکومت کی قانون سازی کے راستے میں رکاوٹ ڈالی جاسکتی ہے اور ایسا ہوبھی رہا ہے۔ حال ہی میں پی آئی اے کی حیثیت بدلنے کے بارے میں ایک آرڈیننس سینیٹ نے رد کر دیا۔
پاک چین اقتصادی راہداری کے حوالے سے اپوزیشن اور حکومت کے درمیان خلیج بڑھتی جا رہی ہے۔ حکومت کے حلیف مولانا فضل الرحمن نے گزشتہ ہفتے کچھ سیاسی جماعتوں کی اے پی سی بلائی جس میں وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا پرویز خٹک، آفتاب شیرپائو، اے این پی کے افتخار حسین اور پختونخوا ملی عوامی پارٹی کے محمود خان اچکزئی بھی شریک تھے ۔اس طرح میاں نواز شریف کو''کریڈٹ‘‘ جاتا ہے کہ انھوں نے اپنی پالیسیوں سے اپوزیشن کو جو ایک دوسرے کی شکل دیکھنے کے بھی روادار نہیں تھے ‘کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کر دیا ہے۔ وزیر منصوبہ بندی برادرم احسن اقبال بھی جنہیں ''سی پیک ‘‘ کی وکالت کرنے کا فریضہ سونپا گیا ہے ‘خیبر پختونخوا میں پی ٹی آئی کے وزیر اعلیٰ کو مطمئن نہیں کر پائے۔ اپوزیشن تو کجا ‘47ارب ڈالر پر مشتمل پاک چین اقتصادی راہداری کا منصوبہ جس کا ساٹھ فیصد سے زیادہ حصہ سڑکوں ، مواصلات اور پاور جنریشن پر مشتمل ہے ،وزیرپانی و بجلی خواجہ آصف کو بھی اس کے قریب نہیں پھٹکنے دیا جا رہا۔ مبینہ طور پر انہیں ایک بھی اجلاس میں نہیں بلایا گیا۔ اپوزیشن کا کہنا ہے کہ توانائی کے سارے کاموں کی نگرانی وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف اور ان کے چند پیارے کر رہے ہیں۔ کچھ یہی حال شاہد خاقان عباسی اور خواجہ سعد رفیق کا ہے۔ شنید ہے کہ وفاقی وزیر برائے صوبائی رابطہ ریاض پیرزادہ بھی اس معاملے میں نکوبنے ہوئے ہیں۔ غالباً انھیں میاں نواز شریف کی قربت حاصل نہیں۔ اسی بنا پر مشترکہ مفادات کونسل جیسے فورم کاجس میں تمام صوبوں کے آئینی، قانونی اور دیگر خدشات کو دور کیا جاسکتا ہے ‘ سرے سے اجلاس ہی نہیں بلایا گیا۔ راہداری منصوبہ بہت بڑا ہے اور اس کا پاکستان کی اقتصادی ترقی سے گہرا تعلق ہے ‘ اسے متنازعہ بنانا سراسر گھاٹے کا سودا ہے۔جہاں اپوزیشن کو ذمہ داری سے یہ معاملہ ہینڈل کرنا چاہیے وہاں حکومت پربھی یہ بنیادی فرض عائد ہوتا ہے کہ وہ راہداری کے بارے میں اپوزیشن اور چھوٹے صوبوں کے تمام خدشات اور وسوسوں کو دور کرے، کیونکہ حکمران جماعت سب سے بڑے صوبے پنجاب میں بھی برسراقتدار ہے اوروزیراعظم میاں نواز شریف کا تعلق بھی پنجاب سے ہے ‘اس لیے موجودہ حکومت پر دوہری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ فیڈریشن کی تمام اکائیوں کو ایک لڑی میں پروئے رکھے۔
میاں شہباز شریف نے گزشتہ روز چند سینئر صحافیوں کو اس ضمن میں بریف کیا۔ اُن کا کہنا تھا اگرکہ پنجاب اپنے وسائل سے یا آسان قرضے لے کر ترقیاتی منصوبوںپر خرچ کرتا ہے تو دوسروں کو کیا اعتراض ؟ مثال کے طور پر اُن کا کہنا تھا کہ میٹروبس کا سارا خرچہ پنجاب نے برداشت کیا ہے جبکہ کراچی میٹروبس کی تعمیر کا آدھا خرچہ وفاقی حکومت اٹھائے گی۔ اسی طرح سی پیک کے توانائی کے منصوبوں پر سندھ میں 9 ارب ڈالر اور پنجاب میں محض 3 ارب ڈالر خرچ ہونگے۔وزیراعلیٰ پنجاب نے کہا کہ انہیں اس ضمن میں وفاق سے کوئی شکایت نہیں ہے اور وہ محض ریکارڈ کی درستگی کے لیے اس کا ذکر کر رہے ہیں۔ اُنہوں نے گزشتہ دور حکومت میں این ایف سی ایوارڈ میں پنجاب کی طرف سے رضاکارانہ طور پر فراخ دلی سے حصہ ڈالنے کا بھی ذکر کیا۔ یقینا برادرخوردمحنت، استقامت اور ایمانداری کی منہ بولتی تصویر ہیں۔ اپنی بات دلیل سے سمجھانے کا سلیقہ بھی انہیں خوب آتا ہے۔ چھوٹے صوبوںکو سی پیک اور دیگر معاملات پر آن بورڈ لینے کے لیے اُن سے بہتر اور کوئی وکیل نہیں ہوسکتا۔ ویسے بھی احسن اقبال کی پروفیسرانہ باتیں سیاستدانوں کے ذہنوں میں نہیں اترتیں۔یہ تاثر کہ شریف برادران ہی قوم کے مستقبل کے امین ہیں، اچھا نہیں ہے۔ میاں نواز شریف کو محض اپنی کچن کیبنٹ اور چند پیاروں کے ذریعے حکومت چلانے کے انداز کو بدلنا چاہیے اور اپوزیشن کی لیڈرشپ سے سلسلہ جنبانی کو آگے بڑھانا چاہیے ‘لیکن حکمران جماعت اپنے بارے میں کچھ زیادہ ہی پُراعتماد نظر آتی ہے۔ میاں صاحب کو ہرطرف سے ''ستے خیراں‘‘ کی خبریں ملتی رہیں تو وہ خوش رہتے ہیں۔ ویسے تو وزیر اعظم وزارت خارجہ کا قلمدان بھی اپنے پاس رکھتے ہیں اس لیے انھیں ہر مہینے بیرونی دوروں پر جانا ہوتا ہے۔ انھیں اسلام
آباد میں معاملات کو دیکھنے کی کم ہی فرصت ملتی ہے۔اسی بنا پر بہت کم کابینہ کے اجلاس ہوتے ہیں اور وزیراعظم سمیت وزرا حکمران جماعت کے ارکان ‘قومی اسمبلی اور سینٹ میں تشریف ہی نہیں لاتے۔ چاہے ''سی پیک ‘‘ ہو یا خارجہ امور ہوں ‘ان پر ذات کی چھاپ ضرورت سے کچھ زیادہ ہی گہری ہوگئی ہے۔ نریندر مودی کی لاہور یاترا کے موقع پر ان سے جپھی میاں صاحب کا ذاتی مسئلہ نہیں تھا لیکن اسے قوم کے سامنے ایسے پیش کیا گیا کہ جیسے دو بچھڑے ہوئے دوست برسوں بعد ایک دوسرے سے بغلگیر ہوئے ہوں۔ بھارت اور پاکستان کے وزرائے اعظم کے درمیان جاتی امرا میں ہونے والی میٹنگ سے خارجہ پالیسی کے کارپردازان غائب تھے۔ وہاں جو بھی طے ہوا دونوں وزرائے اعظم کے درمیان طے ہوا۔ اب پٹھانکوٹ کے واقعے کے بعد پاکستان کو لینے کے دینے پڑ رہے ہیں۔ ہمیں نوٹس دے دیا گیا ہے کہ پٹھانکوٹ میں ملوث دہشت گردوں کے مبینہ پشت پناہوں کو کیفرکردار تک پہنچایا جائے بلکہ بعض اطلاعات کے مطابق تو نریندرمودی نے میاں نواز شریف سے یہ مطالبہ بھی کیا ہے کہ ان عناصر کو بھارت کے حوالے کیا جائے۔ اس ماحول میں اگرمذاکرات کا عمل شروع ہونے سے پہلے ہی معطل ہو جاتا ہے تو بھارت اور اس کے حواری ذمہ داری پاکستان پر ڈال دیں گے اور اگر مذاکرات ہوئے ہیں تو ان کا فوکس دہشتگردی ہوگا کشمیر نہیں۔