کفر ٹوٹا خدا خدا کر کے۔ لگتا ہے کہ بالآخر میاں نواز شریف بھی قائل ہوگئے ہیں کہ قوم کا مستقبل ایک جمہوری، لبرل اور ترقی پسند پاکستان میں ہے۔ حال ہی میں پاک امریکہ بزنس کونسل کے وفد سے خطاب کرتے ہوئے میاں نواز شریف نے وہ بات کہہ دی جس پر ہمارے دائیں بازو کے اکثردانشور ایسی باتیں کرنے والوں کو مطعون کرتے رہے ہیں۔نواز شریف کی جماعت پاکستان مسلم لیگ (ن) بھی جس نے جنرل ضیاء الحق کی غیر جماعتی، اسلامی جمہوریت کی کوکھ سے جنم لیا تھا، اپنا ناتا''اسلامی سوچ ‘‘ رکھنے والی دائیں بازو کی جماعتوں سے جوڑ تی ہے۔ لیکن نواز شریف تھری، نواز شریف ٹو اور نوازشریف ون سے قدرے مختلف ثابت ہورہے ہیں۔ ان کی سوچ میں یہ مثبت تبدیلی غالباًجدہ اور لندن میں قریباً سات سالہ جلاوطنی گزارنے کے بعد ہی آئی ہے۔ میں ان لوگوں سے اتفاق نہیں کرتا جو یہ کہتے ہیں کہ میاں صاحب نے تاریخ سے کوئی سبق نہیں سیکھا۔ البتہ اس بات پر بحث ہوسکتی ہے کہ میاں صاحب نے تاریخ سے صحیح سبق اخذ کیا ہے یا غلط ۔ میرے نزدیک میاں صاحب کی اصل قوت یہ ہے کہ اُن کے ناقدین انھیں ''انڈراسٹیمیٹ‘‘ ــکرتے ہیں۔ اکثر لبرل حضرات بالخصوص انگریزی زدہ طبقہ میاں صاحب کا مذاق اڑاتے ہیں کہ انہیں انگریزی بولنا نہیں آتی اور وہ گوالمنڈی سے تونکل آئے ہیں لیکن گوالمنڈی اُن کے اندر سے نہیں نکل سکی ۔ خوش خوراکی کے حوالے سے سری پائے، نہاری اور ہریسہ ان کی مرغوب غذائیں بتائی جاتی ہیں‘ حالانکہ تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان بھی خاصے خوش خوراک ہیں لیکن یہ 63 سالہ نوجوان لیڈر یوتھ کی آنکھ کا تارا ہے اور اس کے کھابوں کا کہیں ذکر نہیں ہوتا۔
پرانا نوازشریف بھاری مینڈیٹ کے زعم میں مبتلا رہتا تھا۔ آزاد میڈیا سے الرجک اور مذہبی و فرقہ وارانہ جماعتوں کے ساتھ سٹرٹیجک الائنس کو بُرا نہیں سمجھتا تھا۔ جمہوری اداروں میں اس شریف کی زیادہ دلچسپی نہیں تھی۔ فوج کے سربراہ ہوں، اعلیٰ عدلیہ ہو یا پاکستان کے صدور ہوں‘ان کی کسی سے نہیں نبھی چونکہ اس وقت وہ تمام اداروں کو شریعت کے نام پر فتح کرنے کے شوق میں مبتلا رہتے تھے۔ موجودہ دور کے میاں نواز شریف کا فی حد تک ''جیو اور جینے دو‘‘اور بقائے باہمی کی پالیسی پر یقین رکھتے ہیں۔ یہ درست ہے کہ اب بھی انہیں پارلیمنٹ کا چکر لگانے کی فرصت نہیں ملتی ،تاہم تمام ترقباحتوں کے باوجود قریباً سبھی سیاستدانوں کے ساتھ ان کا اچھا تال میل ہے۔ مجھے وہ وقت بھی یاد ہے جب میاں صاحب بطور وزیراعلیٰ پنجاب لاہور ائیر پورٹ پر وزیراعظم بے نظیر بھٹو کا خیرمقدم کرنے کو تیار نہیں تھے۔ اسی طرح ہر فوجی سربراہ سے پنگا لینا ان کا وتیرہ تھا۔ جب وہ 1997 ء میں وزیراعظم بنے توان کے اقتدار کا راستہ ہموار کرنے میں تین شخصیات کا فیصلہ کن کردار تھا ۔ ایک صدر فاروق لغاری جنہوںنے فوج کے سربراہ جنرل جہانگیر کرامت کی آشیرباد سے وزیراعظم بے نظیر بھٹو کی حکومت کو قبل از وقت چلتا کیا اور اس وقت کے چیف جسٹس سجاد علی شاہ نے اس کارروائی پر مہر تصدیق ثبت کی‘ لیکن میاں نواز شریف نے پہلا کام ہی یہ کیا کہ فاروق لغاری کے معتمد خاص شاہد حامد جنہیں ان کی خدمات کے عوض گورنر بنایا گیا تھا، کو ساتھ لے کر چوٹی زیریں گئے اور صدر لغاری سے آرٹیکل 58 ٹوبی کے اختیارات واپس لینے کے پروانے پر دستخط کروا لیے۔ لغاری صاحب نے شاہد حامد اور نواز شریف کودیکھ کریہی کہا ہوگا ؎
دیکھا جو کھا کے تیرکمیں گاہ کی طرف
اپنے ہی دوستوں سے ملاقات ہوگئی
اس کے بعدان تینوں شخصیات سے جو ایک لحاظ سے اُن کی محسن تھیں‘ آہستہ آہستہ میاں صاحب نے چھٹکارا حاصل کر لیا۔ اس ملک میں اُن لوگوں کی کمی نہیں جو نوابزادہ نصراللہ خاں مرحوم کی طرح جب سیاسی حکومت آئے تو مارشل لا کے لیے راہیں ہموار کرتے ہیں اور جب فوجی حکومت ہو تو جمہوریت کے لیے جدوجہد کا آغاز کر دیتے ہیں۔ تاہم ان لوگوں کے دعوؤں کے برعکس میاں نواز شریف اور جنرل راحیل شریف کے درمیان بہترین انڈرسٹینڈنگ ہے۔ لڑانے والے مایوس ہیں کہ یہ دونوں شریف ہرحال میں ایک دوسرے سے صلاح و مشورہ کرتے نظر آتے ہیں۔ یہ درست ہے کہ ضرب عضب کے حوالے سے دہشت گردی کا قلع قمع کرنے کی پالیسیوںپر سیاسی اور فوجی قیادت کے درمیان اختلاف رائے پیدا ہوتا رہتا ہے لیکن اسے بھی باہمی مشاورت سے ایک حد سے آگے نہیں بڑھنے دیا جاتا۔
اب میری یہ پکی خبر ہے کہ چیف آف آرمی سٹاف جنرل راحیل شریف کی عہدے کی میعاد میںجو نومبر 2016ء میں ختم ہورہی ہے ‘ توسیع دینے کے معاملے پر سنجیدگی سے غور ہورہا ہے اور گمان غالب ہے کہ اگر جنرل صاحب مان گئے تو وہ نومبر 2016 ء کے بعد بھی فوج کے سربراہ رہیں گے۔ میاں نواز شریف کو جنرل صاحب ذاتی طور پر اس لیے بھی پسند ہیں کہ جب 2013 ء میں فوج کے نئے سربراہ چُننے کا مرحلہ آیا تو جنرل راحیل شریف واحد جرنیل تھے جنہوں نے نہ تو اپنے لیے لابنگ کی اور نہ ہی آرمی چیف بننے کے لیے کوئی سفارش کروائی۔ میاں صاحب جنرل صاحب کی پروفیشنل صلاحیتوں کے بھی معترف ہیں۔ نواز شریف اور جنرل راحیل شریف میں گہرے تال میل کی تازہ مثال ان دونوں شخصیات کا ثالثی مشن پر ایران اور سعودی عرب روانہ ہونا ہے۔ خارجہ امور ، سکیورٹی معاملات اور دہشت گردی پر سویلین اور فوجی قیادت کے مابین ایسے گہرے تال میل کی مثال پاکستان کی تاریخ میں شاذ ہی ملتی ہے۔
بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کی گزشتہ ماہ اچانک لاہور یاترا اور میاںنواز شریف سے ملاقات کے بعد پٹھانکوٹ پر دہشت گردوں کے حملے کے حوالے سے بھارتی میڈیا اور کسی حد تک مغربی پریس اور کچھ ہمارے اپنے دانشور بھی یہ گمراہ کن پراپیگنڈاکرتے نظر آتے ہیں کہ یہ سب کچھ آئی ایس آئی نے بھارت اور پاکستان کے درمیان مذاکرات کے عمل کو شروع ہونے سے پہلے ہی سبوتاژ کرنے کے لیے کیا ہے۔لیکن گزشتہ بدھ کو وزیراعظم کی صدارت میں ہونے والے اعلیٰ سطح کے اجلاس ‘جس میں سینئر فوجی قیادت نے بھی شرکت کی ،میں کچھ دوٹوک فیصلے کیے گئے جس کے بعدیہ پراپیگنڈا مہم زیرو ہوگئی۔ جس انداز سے جیش محمد کے سربراہ مولانا مسعود اظہر اور اُن کے حواریوں کو گرفتار کیا گیا اور اُن کے دفاتر سیل کیے جارہے ہیں ‘یہ سب کچھ فوجی قیادت کے ساتھ اتفاق پیدا کر کے ہی ہو رہا ہے۔ جیش محمد بزعم خود فوج کی حامی اور اپنے آپ کو اینٹی انڈیا پالیسی کی نقیب سمجھتی تھی اور اس حوالے سے دہشت گردی میں بھی ملوث تھی۔مولانا مسعود اظہر جب بھارت میں قید تھے تو ان کے بھائی مولانا عبدالرؤف نے انھیں چھڑانے کے لیے ائیرانڈیا کا جہاز ہائی جیک کیا اور اسے لاہور لے کر آیا تو اُسی شام میں گورنرہاؤس لاہورمیں چیف ایگزیکٹو جنرل پرویز مشرف کے ساتھ کچھ دیگر ساتھیوں کے ہمراہ ڈنر کر رہا تھا۔ جنرل صاحب کو جب بتایا گیا کہ اغواشدہ طیارہ لاہورآگیا ہے تو ایک اچھے کمانڈو کی طرح ان کے چہرے پرتفکر کے بجائے طمانیت چمک رہی تھی۔ جہازاور مسافروں کے بدلے مولانا مسعود اظہر نے رہا ہونے کے بعد جس انداز سے پاکستانی سرزمین کو لانچنگ پیڈ کے طور پر استعمال کیا اس کا یہی تقاضا تھا کہ ان کی بہت پہلے گرفت کی جاتی ۔اب توپنجاب کے وزیر قانون رانا ثناء اللہ جن کا جہادی تنظیموں کے بارے میں سافٹ کارنر ڈھکا چھپا نہیں ہے ‘ وہ بھی جیش محمد کے خلاف پیش پیش ہیں۔
میاں صاحب جس لبرل پاکستان کی طرف اشارہ کر رہے ہیں ‘ قائد اعظمؒ اورعلامہ اقبالؒ کے افکار کے مطابق اس کی تشکیل کے لیے بڑے پاپڑ بیلنے پڑیں گے ۔ جنرل ضیاالحق اور ان کے بعد گزشتہ چار دہائیوں میں جہادیوں کی پنیری تیار ہوئی ہے۔یہ خواتین و حضرات جو میڈیا سمیت ہر شعبے میں موجود ہیں کو روشن خیالی کے نام سے ہی چڑ ہے۔ اس حوالے سے میاں صاحب کو اپنی ''منجی تھلے بھی ڈانگ‘‘ پھیرنی چاہیے ‘ چونکہ اُن کی پارٹی میں بھی ایسے عناصر کی کمی نہیں ہے جو اپنا ناتا باقیات ضیاء الحق سے جوڑتے ہیں۔
وزیراعظم کے مشیر برائے نیشنل ہسٹری اینڈ لٹریری ہرٹیج عرفان صدیقی صاحب جن کا تعلق قلم قبیلے سے ہے، گزشتہ روز بڑے دھوم دھام کے ساتھ لاہور تشریف لائے۔انھوں نے علامتی طور پر اپنے کام کا آغاز مزار اقبالؒپر حاضری سے کیا ۔ انھوں نے وہاں پھول چڑھائے اور فاتحہ خوانی کی۔ دہشت گردی کے خاتمے کے لیے جس نئے بیانیے کی ضرورت ہے‘ توقع ہے کہ عرفان صدیقی اس پربھی فوکس کریں گے۔