وزیر اعظم میاں نواز شریف ‘آرمی چیف جنرل راحیل شریف کے ہمراہ سعودی عرب اور ایران کا ثالثی دورہ مکمل کر چکے ہیں،ان دونوں ممالک کی چپقلش اور محاذ آرائی نے نہ صرف مشرق وسطیٰ بلکہ پورے عالم اسلام اور دنیا بھر کے لئے مسائل کھڑے کر دئیے ہیں۔میاں نواز شریف پہلے سربراہ حکومت ہیں جنہوں نے ایران پر امریکہ اورمغرب کی طرف سے لگائی گئی پابندیوں کے خاتمے کے فوری بعد تہران کا دورہ کیا۔اقتصادی پابندیوں کو ہٹایا جانا ایران کی بہت بڑی فتح ہے اور یقیناًایک تاریخ ساز مرحلہ بھی،اس سے جہاں اسلامی جمہوریہ ایران کی ساکھ میں گونا گوں اضافہ ہوا ہے وہاں منجمد کئے ہوئے ایک کھرب 78 ارب روپے اور 104 ارب روپے کے اثاثے بحال ہونے سے اس کی اقتصادی زبوں حالی کا مداوا بھی شروع ہوجائے گا۔تہران نے پابندیاں اٹھنے سے پہلے ہی ملٹی نیشنل کمپنیوں کو وہاں سرمایہ کاری کی ترغیب دے رکھی ہے ۔مثال کے طور پر اپنی ائیرلائن کو بین الاقوامی معیار پر واپس لانے کیلئے ایک سو سے زیادہ ائیر بس طیارے آرڈر بھی کر دئیے ہیں لیکن نجانے کیوں پاکستان اپنے ہمسایہ اسلامی ملک کے مقابلے میںاس معاملے میں روایتی سست روی کا شکار ہے۔غالباً ہمارے حکمران امریکہ اور سعودیہ کے ڈر سے ایران سے دور رہنے میں ہی عافیت سمجھتے رہے ہیں ۔چند ماہ قبل پاکستان میں مقیم ایک اعلیٰ ایرانی ڈپلومیٹ نے مجھ سے گلہ کیا کہ ساری دنیا تو ہم سے بزنس کرنے کیلئے ریشہ خطمی ہے لیکن حکومت پاکستان اور یہاں کے بیوروکریٹ اس ضمن میں تہران سے سلسلہ جنبانی بڑھانے سے کتراتے ہیں حتیٰ کہ پاکستانی چیمبرز آف کامرس بھی سست روی کا شکار ہیں۔میاں نواز شریف جو قریباً ہر ہفتے ہی غیر ملکی دوروں پر ہوتے ہیں انہیں بھی ہمسایہ ملک کے باقاعدہ دورے کی توفیق نہیں ہوئی۔
بہر حال دیر آید درست آید کے مصداق میاں نواز شریف ایران اور سعودی عرب کے درمیان ثالثی کے لئے ہی تہران گئے ہیں لیکن یہ مشن خاصا کٹھن اور پُر پیچ ہے ۔عرب و عجم کی لڑائی خاصی پیچیدہ ہوچکی ہے اور اس حوالے سے فریقین کو مذاکرات کی میز پر لانا اور سفارتی تعلقات جو حال ہی میں منقطع ہوئے ہیں ‘ انہیں بحال کرانا کوئی آسان کام نہیں ہے۔
سعودی عرب سے پاکستان کے تاریخی برادرانہ تعلقات ہیں۔شاہ فیصل سے لیکر اب تک سعودی بادشاہت نے پاکستان کی ہر مشکل میں دامے درمے سخنے مدد کی ہے لیکن یہ سوال بے جاہے کہ اب جبکہ ریاض کو اسلام آبادکی ضرورت پڑی ہے تو ہماری سیاسی اور فوجی قیادت ماضی کے برعکس منہ میں گھنگنیاں ڈالے کیوں بیٹھی ہے؟۔ اس کی وجہ صاف ظاہر ہے کہ موجودہ بین الاقوامی تناظر میں پاکستان اور اس کے ارد گرد معروضی حالات کافی بدل چکے ہیں۔نائن الیون کے بعد امریکہ نے عراق اور افغانستان میں فوج کشی کرکے دنیائے اسلام کے نقشے کو ہی بدل دیا ہے۔عراق کے آمر مطلق صدام حسین،لیبیا کے صدر معمر قذافی کو جمہوریت کے نام پر نہ صرف اقتدار سے باہر کیا بلکہ اپنے لحاظ سے انہیں نشان عبرت بھی بنا دیا۔اب عراق میں طالع آزما ڈکٹیٹرشپ ٹھونسنے سے معاملات اس حد تک بگڑ چکے ہیں کہ امریکہ اور اس کے حواریوں کو بھی سمجھ نہیں آ رہی کہ کرنا کیا ہے؟۔شام میں بشارالاسد کی چھٹی کراتے کراتے امریکہ اور مغرب کی کوتاہ اندیشانہ پالیسیوںنے‘ جن میں سعودی عرب اور ترکی بھی حصہ دار ہیں ، دنیا کو 'داعش‘ کا تحفہ دیا ہے جو القاعدہ کے بر عکس عراق کے تیل کے کنوؤں پر قبضہ کر کے جہادیوں کو تنخواہیں بھی دے رہی ہے۔دوسری طرف سعودی عرب کے بادشاہ شاہ سلمان بن عبدالعزیز کے برخوردار وزیر دفاع اور نائب ولی عہدشہزادہ محمد بن سلمان نے یمن کے حوثیوں پر چڑھائی کر کے دنیائے اسلام کو آزمائش میں ڈال دیا ہے۔ادھر ایران جو تیل کی دولت سے مالا مال ہونے سے قبل ہی خطے کی سیاست میں عملی دلچسپی بلکہ مداخلت سے بھی باز نہیں آتا ،لبنان میں حزب اللہ کے ذریعے اور شام میں اپنے عسکری مشیروں کی صورت میں بشارالاسد کی مدد کر رہا ہے۔ صدام حسین کے برعکس عراق میں برسراقتدار شیعہ لیڈر شپ کو بھی ایک طرف تہران اور دوسری طرف امریکہ کی حمایت حاصل ہے۔
شاہ فیصل اور شاہ فہد کے ادوار میں سعودی تیل کی ہوشربا قیمتوں کے باعث کھربوں ڈالر اکٹھے ہونے کے باوجود اپنی کمزوریوں سے واقف تھے،اس قیادت کو اس بات کا بھرپور ادراک تھا کہ سعودی عرب علاقے میں فوج کشی تو کجا اپنی سکیورٹی کے لئے بھی امریکہ اور کسی حد تک پاکستان جیسے دوستوں کا مرہون منت ہے۔یقیناً ثالثی ایک نیک قدم ہے اور شاید چینی صدر شی جن پنگ کے حالیہ دورہ تہران اور انڈونیشیا کے وزیر خارجہ کے دورہ تہران و ریاض سے کسی حد تک اس ضمن میں راہ ہموارکرنے کوشش کی گئی ہے لیکن مسئلہ اتنا لاینحل ہے کہ اس مرحلے پر صلح کرانے کی کوششیں مشکل سے بار آور ہونگی۔یقیناً جنرل راحیل شریف کا میاں نواز شریف کے ساتھ دورے پر جانا اس لحاظ سے فائدہ مند ہو گا کہ کم ازکم سعودی قیادت کو بنفس نفیس بتا سکیں گے کہ پاکستان خود کن مشکلات میں گھرا ہوا ہے۔اس کی افواج کا تو ہر سپاہی چومکھی لڑائی لڑنے میں جتا ہوا ہے۔اس وقت وطن عزیز کا سب سے بڑا مسئلہ دہشت گردی ہے اور ضرب عضب نہ صرف خیبر پختونخوا کے قبائلی علاقوں میں جاری ہے بلکہ ملک کے باقی حصوں میں بھی دہشت گرد تنظیموں کی سرکوبی شروع ہو چکی ہے۔
مودی اور نواز شریف کی حالیہ جپھیوں کے باوجود پاکستان اپنی مشرقی سرحدوں پر خطرات سے قطعاً غافل نہیں ہو سکتا۔دوسری طرف افغانستان کی حکومت طالبان کی بڑھتی ہوئی یلغار کے سامنے کمزور ہوتی جا رہی ہے اور یہ لڑائی بھی ''سپیل اوور‘‘ ہوکر ہماری مغربی سرحدوں پر موجود ہے۔پاکستان اس وقت یہ تو نہیں کہہ سکتا کہ وہ اس قضیے میں غیر جانبدار ہے‘ یقیناً اس کا رجحان سعودی عرب کی طرف زیادہ ہے جس کا بین ثبوت یہ ہے کہ سعودی عرب کی قیادت میں بننے والے 34 ملکی عسکری اتحاد میں اس کی پیشگی اجازت کے بغیر اسے شامل کر لیا گیا ہے۔اس اتحاد میں پاکستان کا جھنڈا تو ضرور لہرائے گا لیکن یہ توقع رکھنا کہ اس کی فوجیں بظاہراینٹی شیعہ الائنس میں شامل ہونگی ،عبث ہے۔
میاں نواز شریف نے پاکستان کی سکیورٹی اور اقتصادی مفادات پر مبنی خارجہ پالیسی کو ایک نئی جہت دی ہے اور مقام شکر ہے کہ فوجی اور سویلین قیادت اس ضمن میں ایک ہی صفحے پر نظر آ رہی ہے۔ریاض میں میاں نواز شریف اور جنرل راحیل شریف نے زیادہ وقت دو طرفہ معاملات پر ہی صرف کیا،مشترکہ اعلامیے میں روایتی جملوں کے سوا ثالثی کے حوالے سے کوئی نئی بات نہیں تھی۔ لہٰذا ثالثی کا مشن جس کروٹ بھی بیٹھے گا ایک اچھی کوشش ہو گی اور اس کو مزید آگے بڑھانا پڑے گا لیکن ہمیں پرائے قضیوں میں خود کو جلانے کے بجائے اپنی نبیڑنی چاہیے۔