تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کی سادگی پر رشک آ تا ہے۔اگر چہ انہیں نجی شعبے کے گھاگ اور کامیاب سر خیل جہانگیر ترین اور اسد عمر کی مشاورت حا صل ہے اس کے با وجو د خا ن صاحب محض اپوزیشن برائے اپوزیشن کرنے کے لیے تجا ہل عار فا نہ سے کام لے رہے ہیں۔ ان کا تازہ دیا کھیان ہے کہ نجکا ری بند کی جا ئے ،پٹرول ،بجلی اور گیس سستے کئے جائیں،سٹیل مل کو ٹھیک حا لت میں لا یا جا ئے اور لو ٹا ہو اسرمایہ بیرونی ممالک سے واپس لا یا جا ئے ،وگرنہ وہ سڑکو ں پر نکل آئیں گے۔ خان صاحب کو اس دل آویز فرما ئش پر میڈ یا میں بھی بڑے ہمنو ا مل جائیں گے لیکن زمینی حقا ئق کا جا ئز ہ لیا جا ئے تو تحریک انصاف کا الٹی میٹم بھی اس رو یئے سے قطعاً مختلف نہیں ہے جو پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں پنجاب کے وزیر اعلیٰ شہباز شریف نے خصوصی اور پی ایم ایل( ن )نے عمومی طور پر اپنا رکھا تھا ۔ان دنوں خادم اعلیٰ مینا رپاکستان کے سائے تلے دستی پنکھا جھلتے ہو ئے فرماتے تھے کہ ان کی حکومت آ ئی تو 3ما ہ میں لوڈشیڈنگ ختم ہو جا ئے گی۔ مسلم لیگ(ن) نے اس وقت پی آ ئی اے کی نجکاری کی بھی سر توڑ مخالفت کی تھی ۔یہی رویہ اور باتیں آج ان کے گلے کا طوق بنی ہو ئی ہیں ۔حقیقت یہ ہے کہ حکومت اگر چا ہے بھی تو خان صاحب کے مطالبات پر صاد کرنا عملی طور پرناممکن ہے۔ویسے بھی وسا ئل کی کمی اور مسا ئل کی بہتا ت کے پیش نظر اس فرما ئشی پروگرام پر عمل کرنے کے لیے خطیر رقم درکارہو گی۔
پی آ ئی اے کو ہی لیجیے، بد قسمتی کی با ت یہ ہے کہ قومی ائیر لا ئن اس حد تک خسا رے میں ہے اور حکومت اسے' بینک رول‘ کر کر کے غا لباً اتنی تنگ آچکی ہے کہ اگر ہڑ تال کی بناپر مسافروں کو ہونیوالی تکالیف کو ایک طرف رکھ دیا جا ئے تواس کے بند رہنے میں ہی حکومت کا فائد ہ ہے۔بقول ایک حکومتی ترجمان کے اگر پی آئی اے ایسے ہی چلتی رہی تو اربوں روپے کا خسارہ ہوتا رہے گا اور اگر بند رہے تو کروڑوں روپے کا نقصان ہو گا۔میاں نو از شریف پی آئی اے ملا زمین کی ہڑتال سے پہلے نجی طور پر یہی کہتے رہے ہیں کہ اگر پی آ ئی اے بند ہو جائے گی تو طو فا ن نہیں آجائے گا ۔ اب ان کا کہنا ہے کہ حکومت سہیل بلوچ کی بنائی جوائنٹ ایکشن کمیٹی کے ہاتھوں بلیک میل نہیں ہو گی ۔پی آ ئی اے کے ہڑتا لی ملازمین نے ائیر لا ئن کو بند کر کے وہی کچھ کیا ہے جو نواز شریف حکومت میں شامل بہت سے لو گوں کی خواہش تھی ۔ حکومت اب نئی ائیر لائن کھڑی کرنے کی زورو شور سے تیا ری کر رہی ہے اور آئند ہ چند روز میں اس مقصد کے لیے نجی شعبے سے چیف ایگزیکٹو بھی سامنے آ جا ئے گا ۔ میاںصاحب نے ایک اجلاس میںخیال پیش کیا تھا کہ اگر وزیر پٹرولیم شاہد خاقان عباسی کی'' ایئر بلیو‘‘ سات طیا روں کے ساتھ ایک ارب روپے سالانہ منافع کما سکتی ہے تو حکومت نجی سرمایہ کا ری سے کیو ں نئی انٹرنیشنل ایئر لائن نہیں بنا سکتی ۔اس ماڈل کے تحت جہا ز خریدنے کے بجائے '' ویٹ لیز‘‘ پر لیے جا ئیں گے۔ اسی طرح ایئر لائن کے باقی شعبے بھی آ ؤٹ سورس کر دیئے جا ئیں گے۔ پی آئی اے کے پاس اس وقت 38جہاز ہیں جن میں صرف 33پرواز کے قابل ہیں، اس لحا ظ سے فی جہاز عملے کی تعداد 600سے زیا دہ ہے جبکہ عالمی سطح پر اوسط عملہ 200افراد سے زیا دہ نہیں ۔ پی آ ئی اے کی'' نیگیٹو ایکو یٹی‘‘ 180ارب روپے ہے اور اب تک یہ ایئر لا ئن قریباً 255ارب روپے کا خسا رہ کر چکی ہے ۔بین الاقوامی مارکیٹ میں تیل کی قیمتیں 150ڈالر فی بیرل سے کم ہو کر قریباً 23ڈالر فی بیرل تک آ چکی ہیں ۔لیکن پی آئی اے اس سنہری موقع سے بھی فا ئد ہ نہیں اٹھا سکی حا لا نکہ فیول ہی ایئر لا ئن کا سب سے بھا ری خرچہ ہو تا ہے اور ملازمین کی تنخواہیں اس کے عمومی اخراجات کا صرف 17سے 22 فیصد کے درمیان ہیں جو بین الاقوامی اوسط سے کچھ زیادہ نہیں ہے۔ ملازمین کے مطالبات بجا، لیکن پاکستان کے ٹیکس دہندگان کب تک
اس گو رکھ دھند کو چلا نے کے لیے جیبیں خا لی کرتے رہیں گے۔ کچھ یہی حال بلکہ اس سے بھی بد تر سٹیل مل کا ہے، جب پرویز مشرف کے دور میں اس کی نجکا ری کی جا رہی تھی تو مسلم لیگ(ن) کے موجودہ سینیٹرلیفٹیننٹ جنرل(ر) عبدالقیوم اس وقت سٹیل مل کے سربرا ہ تھے۔تب انھوں نے میڈیا کے ذریعے اس کی نجکا ری کے خلا ف بھرپور مہم چلائی۔ تب کی عدلیہ کے سربراہ افتخا ر چو ہدری کی منفی سوچ سے فا ئد ہ اٹھا تے ہو ئے اوراخبارات میں کالم اور سٹیل مل کے ہی خرچے پر پمفلٹ بازی کے ذریعے نجکا ری کے عمل کو سبو تا ژ کر دیا ۔ اس وقت سٹیل مل کے پاس 108 ارب روپے کا سر پلس تھا اب وہ نو ماہ سے بند پڑی ہے ۔ دنیا میں کساد بازاری اور چین کی سٹیل پراڈکٹس کی بنا پر فرانس اور برطانیہ میں بڑی بڑی سٹیل ملیں بند ہو رہی ہیں لیکن خان صاحب کا اصرار ہے کہ اس مردہ سفید ہاتھی کو پھر زندہ کیا جائے۔ آ ج اسی قسم کی سیا ست گری پی آ ئی اے کومستقل طور پر بند کرنے کے درپے ہے۔یقیناً حکومت کو پی آ ئی اے اور سٹیل مل کے ملازمین کو گولڈن شیک ہینڈ دینا چا ہیے لیکن اس کے لیے وسائل مہیا کرنا جو ئے شیر لا نے کے مترادف ہو گا ۔جہاں تک پٹرول اور ڈیزل کی قیمتیں کم کرنے کے بارے میں خا ن صاحب کے مطالبے کا تعلق ہے بظا ہر یہ جا ئز لگتا ہے ۔ڈیزل اور پٹرول کی بین الاقوامی قیمتوں میں کمی کا فائدہ صارفین کو بھی ملنا چا ہیے ۔لیکن وزیر خزا نہ اسحق ڈار کی شیخیوں کے باوصف عملی طور پر دیوالیہ حکومت کے لیے ایسا کرنا ممکن نہیں ہے کیو نکہ پٹرول کی قیمت کم ہو نے کے ساتھ ساتھ اس پر ڈیو ٹی میں اضافہ کیا جا رہا ہے تا کہ خزانے کو ڈز نہ لگے اور تیل پر ٹیکس کی رقم جو تیل کی قیمتیں کریش ہونے سے پہلے مل رہی تھی، ملتی رہے ۔اس وقت صورتحال یہ ہے کہ پٹرولیم مصنو عات پر ٹیکس قریبا ً پچاس فیصد ہے۔ وزیرا عظم، ان کے معتمدخصوصی وزیر خزا نہ اوروزیر منصوبہ بندی یہ دعوے کرتے نہیں تھکتے کہ پاکستان کی اکانومی ٹیک آف کر چکی ہے، اس ضمن میں یہ دلیل پیش کی جا تی ہے کہ ماضی میں آ ئی ایم ایف سے طے شدہ قر ضے کی رقم ایک دو قسطوں کے بعد اس لیے بند کر دی جا تی تھی کہ حکومتیں بین الاقوامی مالیاتی ادارے کی شرائط پو ری نہیں کر پاتی تھیں لیکن نواز شریف حکومت کے بر سرا قتدار آنے کے بعد پاکستان ایک اچھا بچہ بن چکا ہے اور آ ئی ایم ایف اس پر اتنا مہربان ہے کہ حال ہی میں دبئی میں پاکستان اکانومی کو پھر کلین چٹ دیتے ہوئے 50 کروڑ ڈالرکی قسط دے دی گئی۔ بین الاقوامی مالیاتی اداروں کی حد تک تو ستے خیراں ہیں۔ زرمبادلہ کے ذخا ئر بھی 20ارب ڈالر سے تجا وز کر چکے ہیں ۔لیکن غربت ،بے روزگاری میں کمی نہیں ہو رہی، شر خ نمو پانچ فیصد کے لگ بھگ بھی ہو جا ئے تو حکومت اسے اپنی کامیا بی قرار دے گی؛ حالانکہ جب تک یہ شر ح 6.5فیصد تک نہ ہو بندہ ٔ مز دور کے اوقات تلخ ہی رہیں گے۔تازہ اعداد و شمار کے مطابق بھارت کی شرح نمو 7.3 فیصد ہے۔بھلا اس طرح ہم عسکری لحاظ سے بھی بھارت کے ساتھ مقابلہ کر سکتے ہیں؟ اس پس منظر میں جب اسحق ڈار اپوزیشن سے اپیل کرتے ہیں کہ اقتصادیا ت پر سیا ست نہ کی جا ئے تو ان کی بات بڑی وزنی لگتی ہے لیکن زکوٰۃ گھر سے دینا شروع کر نی چاہیے۔ سوال پید ا ہو تا ہے کہ اپوزیشن کوآ ن بو رڈ لینے کے لیے کیا ،کیا گیا؟۔
پیپلز پارٹی اور برسراقتدارمسلم لیگ (ن) کے درمیان بقا ئے با ہمی کا رشتہ چلا آ رہا تھا لیکن کراچی میں آصف علی زرداری کے دست راست ڈاکٹرعاصم حسین کی گرفتاری کے بعد پیدا ہو نے والی صورتحال میں پیپلز پارٹی بھی میدان میں نکل کھڑی ہو ئی ہے۔ وزیر داخلہ چو ہدری نثا ر علی خان نے جلتی پر تیل کاکام کیا۔اس لحاظ سے حکومت کی اپنی حماقتیں اپوزیشن کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کرنے میں ممدومعاون ثابت ہو رہی ہیں۔ جہاں تک عمران خان کا تعلق ہے وہ روز اول سے ہی حکومت کے خلا ف ادھار کھا ئے بیٹھے ہیں، اس صورتحال میں میاں صاحب مٹی کے مادھوبنے ہوئے ہیں، وہ اسی بات پرہی مطمئن ہیں کہ بظا ہر وہ اور فوجی قیا دت ایک ہی پیج پر ہیں۔ نہ تو وہ اپنی کابینہ کے اجلاس باقاعدگی سے بلاتے ہیں اور نہ ہی اپنی طاقت کے منبع پارلیمنٹ میں سرے سے جانے کی ہی زحمت گوارا کرتے ہیں ۔ہونا تو یہ چاہیے کہ وہ پارلیمنٹ میں باقاعدگی سے جائیں اور اپوزیشن سے سلسلہ جنبانی بڑھائیں ،صرف ڈائیلاگ کے ذریعے ہی قومی معاملات پر اتفاق رائے پیدا ہو سکتا ہے۔اپوزیشن میں اگر یہ تاثر جاگزین کر جائے کہ رات گئی بات گئی کے مترادف میاں صاحب انہیں حسب ضرورت استعمال کر کے ناکارہ کر دیتے ہیں تو اس طرز عمل سے فضا مزید مکدر ہوتی چلی جائے گی جو جمہوریت کی بقا کے لئے زہر قاتل ثابت ہو سکتی ہے۔