"ANC" (space) message & send to 7575

زرداری کا بیان…سسکیاں لیتی پیپلز پارٹی

اس بات پر مسلسل چہ میگوئیاں ہو رہی ہیں کہ نیو یارک میں بیٹھے بیٹھے آصف علی زرداری کو آرمی چیف جنرل راحیل شریف کی مدت ملازمت کے حوالے سے بیان دینے کی کیا سوجھی۔ اُن سے منسوب بیان کی ٹائمنگ اور اس کا متن دونوں ہی حیران کن ہیں۔ میڈیا اور سیاستدان تو موشگافیاں کر ہی رہے تھے کہ یہ بیان کیونکر دیا گیا اور کہاں سے آیا ، خود پیپلز پارٹی کے اندر زرداری صاحب کے ان رشحات فکر سے کافی کنفیوژن نے جنم لیا ہے۔ میں نے جب ٹی وی سکرین پریہ بیان دیکھا تو خیال گزرا کہ یہ کوئی پرانی بات ہے ۔ قومی اسمبلی میں قائدحزب اختلاف سید خورشید شاہ اورسینیٹ میں اپوزیشن لیڈر اعتزاز احسن ،پارٹی کی نائب صدر محترمہ شیری رحمن اور سیکرٹری اطلاعات قمر زمان کائرہ سمیت تمام لیڈر لاعلم تھے کہ یہ بیان کیونکر جاری ہوا ، کہاں سے جاری ہوا اور کس نے لکھا؟ معروف اینکر و صحافی حامد میر کے اس ٹویٹ نے کہ انھیں آصف علی زرداری نے فون پر بتایا ہے کہ انھوں نے ایسا کوئی بیان جاری نہیں کیا، موجودہ کیفیت کی ہیجان انگیزی میں مزیداضافہ کر دیا۔ بعدازاں حامد میر نے ایک اور ٹویٹ کے ذریعے یہ انکشاف کر کے کہ زرداری صاحب نے آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کی سفارش نہیں کی، کنفیوژن میں مزید اضافہ کر دیا ۔ جب یہ بیان منظر عام پر آیا ‘اس وقت امریکہ میں رات کا وقت تھااور پیپلز پارٹی کے عمائدین کا کہنا تھا کہ وہ زرداری صاحب سے بات کر کے بتائیں گے کہ اس بیان کی حقیقت کیا ہے۔البتہ بعد میں یہ بات تو پکی ہو گئی کہ بیان زرداری صاحب کا ہی ہے‘ لیکن یہ کس نے تیار کیا اور کس طرح پاکستان پہنچا‘ اس پر قیاس آرائیاں جاری ہیں۔ کچھ لوگوں کا دعویٰ ہے کہ یہ زرداری صاحب کی ہمشیرہ محترمہ فریال تالپور کا لکھا ہوا ہے جبکہ کچھ کا خیال ہے کہ یہ زرداری صاحب کے لانڈھی جیل کے ساتھی، موجودہ سینیٹر ڈاکٹر قیوم سومرو کی کارستانی ہے۔ بعض نے اسے رحمن ملک کی کارروائی قرار دیا۔
میری اطلاع کے مطابق جب بیان ڈکٹیٹ کرایا گیا تو اس میں یہ کہا گیا تھا کہ آرمی چیف کے توسیع نہ لینے کے اعلان سے عوام میں مایوسی پھیلی ہوئی ہے ‘لیکن جس انداز سے شائع ہوااس سے ایسا لگتا ہے کہ جیسے زرداری صاحب آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کی سفارش کر رہے ہیں اوردعویٰ کیا گیا کہ یہ محض پروف کی غلطی ہے۔ حقیقت کچھ بھی ہو بیان تو پیپلزپارٹی کے شریک چیئرمین کا ہی ہے۔ آصف زرداری انتہائی محتاط شخصیت ہیں ‘وہ ایسے ہی بیان نہیں دے دیتے بلکہ اس کے پیچھے ان کی کوئی نہ کوئی حکمت عملی ضرور ہوتی ہے۔ ویسے بھی سیاستدان کسی ٹی وی انٹرویو ، پریس کانفرنس یا جلسے میں ادھر اُدھر کی بات کرکے اس کی تردید کر سکتے ہیں لیکن بیان، اس کی نوک پلک درست کر کے کسی خاص مقصد کے لیے دیا جاتا ہے ۔اگراس کا مقصد فوجی قیادت کے ساتھ بگڑے ہوئے تعلقات کو بحال کرنا تھا تویقیناً اس سے پھیلنے والی کنفیوژن نے اس کا مقصد ہی فوت کر دیا ہے۔ آصف زرداری نے گزشتہ برس جون میں کہا تھا کہ جرنیل تو صرف تین برس کے لیے آتے ہیں جبکہ سیاستدان کو سیاسی میدان میں ہی موجودرہنا ہوتا ہے ۔ انھوں نے کسی بلے کی بات بھی کی تھی جس کے بعد وہ جلا وطنی میں چلے گئے ۔ اگست میں ان کے دست راست ڈاکٹر عاصم حسین کی گرفتار ی سے جن پر اب 462 ارب روپے کی کرپشن کی فردجرم عائد کر دی گئی ہے، یہ واضح ہو گیا کہ پیپلزپارٹی اور اسٹیبلشمنٹ میں '' کلین بریک‘‘ آگئی ہے۔آصف زرداری حکمران نواز لیگ کے رویے سے بھی دلبرداشتہ ہیں کیونکہ جس وقت تحریک انصاف کا دھرنا چل رہا تھا تو انھوں نے عمران خان اور طاہر القادری کے بھرپور وار سے پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس بلا کر نواز شریف کو بچایا۔ اس وقت پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں پیپلز پارٹی نے حکمران جماعت کا بھرپور ساتھ دیا۔ اس و قت پیپلزپارٹی اگر دھرنے والوں سے مل جاتی تو میاں نواز شریف کی حکومت کا دھڑن تختہ ہوجاتا۔ اس تناظر میں پیپلز پارٹی کو'' فرینڈلی اپوزیشن‘‘ اور ''مک مکا اتحاد‘‘ کے طعنے بھی سننے پڑے۔لیکن''رات گئی بات گئی ‘‘کے مترادف میاں صاحب نے مشکل وقت میں پیپلزپارٹی کو سہارا نہیں دیا اور وہ ایسا کرتے بھی کیونکر؟ وہ تو خود اپنی جان بچارہے ہیں۔ میاں صاحب ماضی میں بطوروزیراعظم کسی بھی فوجی سربراہ سے نبھا نہ کر سکے لیکن دھرنے کے بعد جنرل راحیل شریف کے ساتھ انھوں نے خوشگوار تعلقات اوربہتر ورکنگ ریلیشن شپ قائم کرنے کی بھرپور سعی کی اور اس میں خاصی حد تک کامیاب بھی ہوئے ہیں۔
ایسے لگتا ہے کہ آصف زرداری کو جلاوطنی میں کچھ لوگ ایسا تاثر دے رہے ہیں کہ میاں نواز شریف کے فوج سے تعلقات انتہائی کشیدہ ہو رہے ہیں اور پنجاب میں ان کے خلاف آپریشن شروع ہونے والا ہے ‘لہٰذا اس مرحلے پر فوج سے اپنے معاملات سیدھے کر کے وطن واپس آکر اپنا کردار ادا کرنا چاہیے ۔ اگر واقعی زرداری صاحب کو یہ فیڈ کیا گیا ہے تو انھیں مِس گائیڈ کیا گیا ہے۔ فوجی قیادت کسی بھی سویلین حکومت سے خوش نہیں ہوتی۔ اس کا توزرداری صاحب کو ذاتی طور پر علم ہے کہ جب وہ صدر مملکت تھے تواس وقت کے آرمی چیف جنرل اشفاق پرویزکیانی اور آئی ایس آئی کے ڈی جی لیفٹیننٹ جنرل شجاع پاشا نے ان کی حکومت کی ناک میں دم کر رکھا تھا اور اس کے علاوہ جسٹس افتخار چودھری کی سربراہی میں سپریم کورٹ نے دوآتشے کا کام کیا۔ اس تمام تر صورتحال کے باوجود آصف زرداری نے جنرل کیانی کی مدت ملازمت میں 3 سال کی توسیع کی ۔ اس وقت وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے مجھے خود بتایاتھا کہ جنرل کیانی کو توسیع دی نہیں گئی بلکہ انھوں نے لے لی ہے ‘گویاکہ ایسے حالات پیدا کیے گئے کہ پیپلز پارٹی کی حکومت کے سامنے جنرل کیانی کو توسیع دینے کے سوا کوئی راستہ ہی نہیں تھا۔
بقول زرداری صاحب تاریخ کے اس نازک موڑ پرجنرل راحیل شریف کا توسیع نہ لینے کا فیصلہ قبل از وقت ہے اور اس سے عوام مایوس ہو سکتے ہیں لیکن فوج کے موجودہ سربراہ اپنے کام سے کام رکھتے ہیں اور ڈنڈے کے زور پر حکومت سے توسیع لینے کے خواہشمند نہیں ہیں۔ جہاں تک ان باتوں کا تعلق ہے کہ نواز شریف کی حکومت کا چل چلاؤ ہے اور نیب کے ذریعے مسلم لیگ )ن(کے رہنماؤں کے گرد گھیرا تنگ ہو رہا ہے،تو یہ حقیقت ہے کہ ہمارے موجودہ حکمران اپنے پر کسی قدغن یا کسی چیک اینڈ بیلنس سے سخت چڑ تے ہیں۔ وزیراعظم نواز شریف حال ہی میں بہاولپور میں نیب پرخوب برسے ‘بعدازاں یہی بات ان کے برادرخورد میاں شہباز شریف نے بھی کی۔ اس کے بعد ماسوائے وزیرداخلہ چوہدری نثار علی خان کے جو جی ایچ کیو کے قریب سمجھے جاتے ہیں، وفاقی کابینہ کے قریباً تمام اہم ارکان نے نیب کے خوب لتے لیے۔ حتیٰ کہ خود نیب کے چیئرمین کو کہنا پڑا کہ نیب کے قانون میں کچھ سقم ضرور ہیں جنہیں دور کرنا ضروری ہے لیکن اس تمام تر ہاہا کار کے باوجود مسلم لیگ )ن( کے کسی وفاقی یا صوبائی وزیر کو اب تک نہیں دھرا گیا۔ سب سے زیادہ نام صوبائی وزیرتعلیم رانا مشہود کا لیا جاتا ہے کہ ایک ویڈیو کے حوالے سے نیب ان کے پیچھے پڑی ہوئی ہے ‘لیکن رانا مشہود تو ببانگ دہل کہہ رہے ہیں کہ انھوں نے کچھ نہیں کیا اور نہ ہی وہ نیب کو مطلوب ہیں۔ غالباً اسی بنا پر سید خورشید شاہ نے ''یوم حمید نظامی‘‘ کی تقریب میں خطاب کرتے ہوئے طنزیہ انداز میں کہاکہ پنجاب میں توسب دودھ کے دھلے ہوئے ہیں اور چور تو باقی صوبوں میں بستے ہیں ‘لہٰذا نیب اور رینجرز پنجاب میں کیونکر کارروائی کریں گی۔
حقیقت تو یہ ہے کہ جو لوگ زرداری صاحب کو یہ مشورہ دے رہے ہیں کہ بیانات کے ذریعے پاور پالیٹکس کریں، وہ پارٹی کے خیر خواہ نہیں ہیں۔ اس وقت پیپلزپارٹی کو اندرون ملک بالخصوص پنجاب میں جہاں اس صفایا ہو چکا ہے، اپنی جگہ بنانے کے لیے ازسرنو تنظیم سازی اور کام کرنے کی ضرورت ہے ۔ پارٹی کی موجودہ قیادت یا تو فرسودہ ہو چکی ہے یا ہاتھ پیر چھوڑ گئی ہے۔ بلاول بھٹو کبھی کبھی پنجاب کے طوفانی دورے پر آتے ہیں لیکن لگتا ہے کہ وہ ا بھی بااختیار نہیں ہیں۔ پارٹی کی حالت زار کا اندازہ اس سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ ایک طرف جب یہ وضاحت کی جا رہی تھی کہ آصف زرداری نے آرمی چیف کی ایکسٹینشن کا مطالبہ نہیں کیا تو دوسری طرف پیپلزپارٹی پنجاب کے صدر منظور وٹو کے صاحبزادے خرم جہانگیر وٹو پنجاب اسمبلی میں یہ قرارداد جمع کرا رہے تھے کہ سپہ سالار کی مدت میں توسیع کی جائے۔ کیا یہ کھلا تضاد نہیں؟اور اس موقف کی تائید خود میاں منظور وٹو نے بھی ایک ٹی وی انٹرویو میں کر دی ۔اب دیکھنا یہ ہے کہ اگر وٹو جونیئر کے خلاف کوئی ڈسپلنری کارروائی نہیں ہوتی تو گویا یہی پارٹی پالیسی ہے کہ جنرل راحیل شریف کو توسیع ملنی چاہیے ۔ اصل مسئلہ تو یہ ہے کہ ان جھمیلوں میں پڑنے کے بجائے پارٹی کے شریک چیئرمین پارٹی ٹھیک کرنے کے لیے بنیادی فیصلے کر ڈالیں اور اس ضمن میں بلاول کو با اختیار بنا دینا چاہیے۔ کیونکہ اس جماعت کا جس کی بنیاد 1967ء میں ذوالفقار علی بھٹو نے لاہور میں ہی ڈالی تھی ‘ سسک سسک کر ختم ہوجانا قومی سیاست اور جمہوریت کے لئے المیہ ہوگا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں