غیرت کے نام پر قتل کے موضو ع پر فلم ''A Girl In The River: The Price Of Forgiveness'‘‘ پر شر مین عبید چنا ئے کو اکیڈ می ایوارڈ ملنا یقینا پاکستان کے لیے اعزاز ہے،اور اسے تازہ ہوا کا جھونکا بھی کہا جا سکتا ہے۔ وزیر اعظم میاں نو از شریف جو ایک زمانے میں اپنی جما عت مسلم لیگ(ن) کو نظریا تی طور پر جماعت اسلامی اوردیگر مذ ہبی جما عتوں کے بہت قریب لے گئے تھے ، اب بانیان پاکستان علامہ اقبالؒ اور قا ئد اعظم محمد علی جناحؒ کے افکا ر پر عمل کر نے کی کو شش کر رہے ہیں ۔شاید اس میں ان کی ہو نہا ر بیٹی مر یم نواز کی کا وشوں کا بھی دخل ہو ۔ایوارڈ ملتا نہ ملتا میاں صاحب نے وزیر اعظم ہا ؤس میں شر مین عبید چنا ئے کے اعزاز میں تقر یب کا انعقاد کر کے علامتی طور پر اچھا قدم اٹھا یا ۔دوسری طرف پنجاب میں تحفظ نسواں بل پر مولا نا فضل الرحمن جو کہ حکمران جماعت کے اتحا دی ہیں اور امیر جماعت اسلامی سرا ج الحق سمیت دیگر مذ ہبی جما عتوں کے قائدین نے ایک ہاہا کارمچا دی ہے۔ لگتا ہے کہ انہوں نے بل کا دوسرا حصہ غور سے نہیں پڑھا جس میں غلط اطلاع دینے والی خاتون کے لئے 3 ماہ قید اور ایک لاکھ روپے جرمانے تک کی سزائیں مقرر کر کے ایک روک بھی لگا دی گئی ہے ۔تاہم تمام تراحتجاج کے باوجود گورنر پنجاب نے بالآخر اس بل پر دستخط کر دیئے ہیں ۔یہ بات سمجھ سے بالا تر ہے کہ ان نا قدین کو خو اتین سے آخر اتنی چڑ کیوںہے ؟ان کی ڈکشنری میں تو خواتین کو صرف گھر کی چاردیواری تک محدود رکھنا چاہیے اور قومی و عملی زندگی میں برابر کا رول ادا کرنے کے حوالے سے ان کی تاویلیں شاید درست نہیں ہیں۔تحریک پاکستان کے دوران سول نافرمانی کی تحریک میں بھی خواتین نے مردوں کے شانہ بشانہ کام کیا یہاں تک کہ سول سیکرٹریٹ لاہور میں پاکستانی جھنڈا لہرانے والی بھی ایک خاتون محترمہ شمیم تھیں جو محترمہ زاہدہ مشتاق کی بڑی بہن تھیں۔اس کے علاوہ محترمہ بے نظیر بھٹو جب وزیر اعظم بنیں تو ان کیخلاف بھی طرح طرح کی باتیں کی گئیں اور'' فتوے‘‘لگائے گئے یہ علیحدہ بات ہے کہ بعد میں اقتدار کی چمک اور چکا چوند دیکھ کر کئی علما کرام ان کے ساتھ مل گئے اور مسند اقتدار کو خوب انجوائے کیا۔محترمہ نے اپنے والد ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کے بعد جمہوریت کی بحالی کیلئے ضیا آمریت کے خلاف تاریخ ساز جدوجہد کی اور اپنے دور اقتدار میں ملک کے غریب عوام کے لئے ان تھک محنت کی ،دور افتادہ علاقوں میں بجلی پہنچائی اور سکول کھولے، وہ کہتی تھیں کہ انسانیت کی خدمت میرا مشن ہے اس میں وہ کسی حد تک کامیاب بھی ہوئیں اور اقوام متحدہ نے انہیں انسانی حقوق پر ایوارڈ سے بھی نوازا۔
مو لا نا فضل الر حمن کی انو کھی منطق ہے جس کے مطابق خو اتین پر تشد د کرنے اور ان کی بے حر متی کر نے کی مخالفت کر نے والے مرد ''زن مرید ‘‘ہیں اور چو نکہ پنجاب اسمبلی نے یہ بل پاس کیا ہے اس لئے تمام کے تمام ارکان اسمبلی اس زمر ے میں آتے ہیں ۔ مو لا نا کے مطابق خواتین کو ''مردمرید ‘‘ ہو نا چاہیے اور مرد وں کا تشد د انھیں صبر اور فخر سے برداشت کرنا چاہیے۔ جما عت اسلامی کا‘جو دیگر مذہبی جما عتوں کے مقابلے میں نسبتاً روشن خیال تصو رکی جا تی تھی‘مو قف بھی اس معاملے میں مختلف نہیں ہے۔ جماعت اسلامی اور اس کے بانی مولانا ابو الاعلیٰ مودودی نے آمر ایوب خان کیخلاف صدارتی انتخابات میں محترمہ فاطمہ جناح کا ساتھ دیا تھا۔ معاملہ تعلیم حا صل کر نے کی پاداش میں طالبان سے گو لی کھا کر بچ جا نیوالی ملالہ یو سف زئی کا معاملہ ہو یا شر مین عبید چنا ئے کا یا خو اتین کے تحفظ کے لیے قانون لانے کاان حضرات کو تو گو یا معاشرے میں خو اتین کے برابر ی کی بنیا د پر زند ہ رہنے کے تصور سے ہی چڑ ہے۔
مقام شکر ہے کہ حقوق نسواں تحفظ بل کے حامیوں پر محض ''زن مرید ‘‘ہو نے کا'' فتویٰ‘‘ صادر کیا گیا ہے اور انھیں کا فر قرار نہیں دیا گیا ۔اس لحا ظ سے یہ حضرات خو ش قسمت ہیں کیونکہ انہی علمائے کرام کے بزرگو ں نے بانی پاکستان قا ئد اعظم پر کفر کا فتویٰ بھی لگادیا تھااور مولانا مفتی محمو د مر حوم سے یہ فقرہ بھی منسوب کیا جا تا ہے کہ خدا کا شکر ہے کہ ہم پاکستان بنا نے والوں میں شامل نہیں تھے۔ میری رائے میں جو ہوا سوہوا جن لوگوں نے قیام پاکستان کی مخالفت کی اور بعد میںپاکستان میںشامل ہو ئے اوراپنی سیاست اور امامت کی دکان بھی چمکا ئی وہ بھی برابر کے شہری ہیں اور انھیں اپنی رائے کے اظہا ر کا پو را حق ملنا چاہیے لیکن اس اقلیت کو اکثر یت پر اپنی رائے اور ایجنڈا ٹھو نسنے کا حق کس نے دیا ہے؟۔مولانا فضل الر حمن کو شوہروں کے حق میں تحریک چلا نے کے بجائے وطن عزیز میں غربت ،جہا لت ،فرقہ واریت اور مذہب کی مخصو ص تاویل کرنے کے نام پر تشدد اور دہشت گردی کے خا تمے کے لیے تحریک چلا نی چاہیے۔پاکستان میں بد قسمتی سے منزل انھیں ملی جو شریک سفر نہ تھے۔ آزاد ی کے فوراًبعد ہی ایک مخصوص اقلیت نے اکثر یت پر اپنی رائے ٹھو نسنے کاوتیر ہ اختیا ر کر لیا اور جمہو ریت کے بجائے فو جی آمریتوں کو تر جیح دی۔ حتیٰ کہ جنرل ضیا ء الحق جیسے آمر نے ان علما کی کثیر تعداد کو ساتھ ملا کر گیا رہ برس تک دھڑلے سے حکومت کی۔اسلام کے نام پر اس انداز سے آئین میں ترامیم کی گئیں جو آج بھی ہمارے گلے کا طوق بنی ہو ئی ہیں، یہ اسی قسم کی رجعت پسندانہ پالیسیوں کا تسلسل تھا کہ پاکستان دہشت گردی اور قنوطیت پسند ی کی آماجگا ہ بن گیا۔ مذہبی جما عتیں تو کجامسلم لیگ(ن) اور تحریک انصاف جیسی سیا سی جما عتیں بھی اس بیا نیہ کے آگے سجدہ سہو کر گئیں۔یقیناقوانین کو ہماری مذہبی اور معاشرتی اقدار کے مطابق ہو نا چاہیے لیکن خواتین یاکسی پر بھی تشدد روارکھنا کہاں کا انصاف ہے اور کو نسا مذہب اس کی اجازت دیتا ہے؟تاہم ہما رے بعض علما دھڑلے سے دعویٰ کر تے ہیں کہ اسلام میں خواتین کو برابر کے حقوق حا صل ہیں لیکن ان کا عمل اس کے یکسر بر عکس ہے۔ سو نے پر سہا گہ مولانا شیرانی کی سربراہی میں اسلامی نظریاتی کو نسل ایسے فیصلے صادر کرتی ہے جو آج کل کے دور میں قطعاًلگا نہیں کھاتے۔ اگر چہ ایران کی طرز پرپاکستان میںپاپائیت نہیں بلکہ اسلامی نظریاتی کو نسل کی حیثیت محض مشاورتی ہے۔ مولاناشیرانی کا یہ کہنا ،کہ کم عمری کی شادی،ریپ کیسزمیں ڈی این اے ٹیسٹ اور گھر یلو تشدد کے خلا ف قوا نین غیر اسلامی ہیں ،محض ایک مذاق لگتا ہے۔ اقوام عالم میں پاکستان کو جگہ بنانے کے لیے اپنے قوانین اور معاشرے کو جدید اقدار کے مطابق استوار کرنا پڑے گا ۔جدید سے یہ مراد نہیں کہ ملک میںفحا شی و عریانی اور بے راہ روی کو تقویت دی جا ئے بلکہ اس کا مقصد پاکستان میں بسنے والے تمام مردوزن کو بانیان پاکستان کی خواہشات کے مطابق آئین اور قانون کے مطابق برابر حقوق حا صل ہو نے چاہئیں۔موجودہ حکومت کواس حوالے سے علما ئے کرام کو قا ئل کر نے کی کو شش کر نی چاہیے لیکن دھونس کے ذریعے اپنا ایجنڈا پو ری قوم پر مسلط کرنے کی اجا زت نہیں دینی چاہیے۔
جہاں تک سلمان تاثیر کے قاتل ممتاز قادری کو پھانسی دینے کا تعلق ہے اس معاملے میں احتجاج برمحل نہیں۔ممتاز قادری نے قتل کیا ، عدالتوں میں مقدمہ چلااورسپریم کورٹ نے ماتحت عدالت کی سزا کو برقرار رکھا اورصدر مملکت نے بھی رحم کی اپیل مسترد کر دی ۔ناموس رسالت کی توہین کوئی شخص برداشت نہیں کر سکتا ،لیکن توہین کو ثابت کرنے اور سزا دینے کیلئے ملکی ادارے موجود ہیں ،کسی فرد واحد کو قانون ہاتھ میں نہیں لینا چاہیے کیونکہ جمہوری معاشرے میں قانون کی حکمرانی ہی افضل ہے۔یہ کہنا کہ قادری کومحض امریکہ،لبرل اور سیکولر طبقات کی خوشنودی کیلئے تختہ دار پر لٹکایا گیا ہے، درست نہیں۔ویسے بھی سیکولر یا لبرل ہوناکوئی جرم نہیں۔علما حضرات کی طرح ہر شخص کو اپنے نظریات کے اظہارکا حق حاصل ہے۔