کافی عر صے سے پاکستان اور بھارت کے درمیان تعلقا ت رجعت قہقری کا شکا ر ہیں۔ حکومت پاکستان تو مودی سرکا ر پر بڑی جلدی ریشہ خطمی ہو جاتی ہے اور ہر قیمت پر سلسلہ جنبا نی آگے بڑ ھا نے کے لیے کو شاں نظر آ تی ہے لیکن تعلقات کی بحالی کے لیے مذاکرات کا عمل شروع ہی نہیں ہوپاتا بلکہ ایک قدم آ گے دو قدم پیچھے کی کیفیت سے دو چار ہے کیو نکہ حکومت پاکستان کو بھارت کی نت نئی فرمائشوں اور مطالبات کا سامنا رہتا ہے۔بلو چستان میں سابق کور کمانڈر لیفٹیننٹ جنرل ناصر خان جنجو عہ جن کی کا وشوں سے 2013ء کے عام انتخا بات میں قومیت پر ستوں کو قومی دھارے میںلا نے کے لیے نہ صرف الیکشن لڑ ایا گیا بلکہ انھیںاقتدار میں بھی شر یک کیا گیا ،اب وہ قومی سلامتی کے مشیر کے طور پر ہمہ وقت فعال ہیں۔ لگتا ہے ان کو یہی فر ض سونپ دیا گیا ہے کہ وہ بھا رتی عقابوں کو ٹھنڈا کرتے رہیں اور ان کامزاج درست رکھیں ۔
با خبر حلقوں کے مطا بق جنرل(ر) ناصر خان جنجو عہ اور ان کے بھارتی ہم منصب اجیت دوول کے درمیان روزانہ فون پر بات چیت ہو تی ہے۔ تازہ اطلا عات کے مطابق جنرل جنجو عہ کی اس اطلاع پر کہ دس خو د کش بمبا ر بھا رت میں دا خل ہو چکے ہیں ،نئی دہلی میں سکیو رٹی کو ہا ئی الر ٹ کر دیا گیا۔پولیس اہلکا ر وں کی چھٹیا ں منسوخ کر دی گئیں ،حسا س د فا عی مقاما ت ،تنصیبات ،عبادت گا ہوں اوراہم یا د گاروں پر سکیو رٹی سخت کر دی گئی ہے ۔ یہ غا لباً پاکستان اور بھارت کے تعلقا ت کی کشید ہ تا ریخ میں پہلا مو قع ہے جب اسلام آ با د نے نئی دہلی سے خفیہ اطلا عات شیئرکی ہوں،یہ ٹریفک یک طر فہ لگتی ہے کیو نکہ بھا رت نے اب تک پاکستان سے کسی قابل ذکرانفا رمیشن کا تبا دلہ نہیںکیا ۔ظا ہر ہے کہ نا صر خان جنجو عہ کا تعلق افواج پاکستان سے ہے لہٰذا ان کی حب الو طنی شک وشبہ سے بالا تر ہے، تا ہم پاکستان کا کوئی ما ئی کا لعل سیا ست دان ایسا کر نے کا سوچے گا بھی تو ہمارے بعض اینکر حضرات ہی اس پر جا سوسی کا لیبل چسپاں کر دیں گے۔ جب محتر مہ بے نظیر بھٹو پہلی بار وزیر اعظم بنیں تو ان کے دور میں جنوبی ایشیا کی علاقائی تعاون کی تنظیم کے سربراہ اجلاس میں شرکت کے لیے ان کے بھا رتی ہم منصب را جیو گاندھی اسلام آ با د آ ئے تھے۔اس وقت الیکٹرانک میڈ یا تو نہیں تھا لیکن اخبارات میں مخالف سیاستدانوں نے جن میں میاں نواز شر یف بھی شامل تھے ‘اس بات پر طوفان کھڑا کر دیاکہ دونوں وزرا ئے اعظم کے درمیان مسکر اہٹوںکا تبا دلہ کیو نکر ہوا۔ پھر ہمیں وہ وقت بھی یا د ہے جب اس وقت کے وزیر داخلہ چو ہدری اعتزاز احسن پر یہ بھونڈا الزام عائد کیا گیا کہ انھوں نے خالصتان کی تحریک میں سر گرم سکھوں کی فہر ست بھارت کے حوالے کر کے انھیں مروا دیا تھا،میں نے اس وقت کے فو جی سر برا ہ جنر ل وحید کا کڑ اور چند کورکمانڈر وں کی موجودگی میںآ ئی ایس آ ئی کے اس وقت کے سربراہ سے اس بارے میں استفسار کیا تو انھوں نے تردید کر تے ہو ئے کہا کہ ایسی کسی لسٹ کا وجود ہی نہیں تھا۔
پھر وہ وقت بھی آ یا جب نومبر 2008ء میں ممبئی کے واقعہ کے بعد جس میں ' نان سٹیٹ ایکٹرز‘ کے ملو ث ہو نے کا بین ثبوت فرا ہم ہو گیا تھا ۔ زرداری حکومت نے آ ئی ایس آ ئی کو سویلین کنٹرول میں لانے کی بات کی اس پر ایسی ہاہا کا ر مچی کہ پیپلز پارٹی کو سجدہ سہو کر نا پڑ گیا ۔میاں نواز شریف نے غا لبا ً اسی پس منظر میں جس کاکام اسی کو ساجھے کے متر ادف ایک ریٹا ئر ڈ لیفٹیننٹ جنرل کو قومی سلامتی کا مشیر بنا دیا ۔ یہ تجر بہ کامیا ب رہا ہے۔ اب پٹھان کو ٹ کے واقعہ کے بعد تو الٹی گنگا بہہ رہی ہے۔ ہم نے ممبئی کے واقعے کے بر عکس فوراً ہی تسلیم کر لیا کہ پٹھا ن کو ٹ کے واقعے میں ملوث دہشت گر دوں کا پاکستان سے تعلق رکھنے والے 'غیر ریا ستی عنا صر‘ سے تھا جنہیں ہما ری حکو مت یا اسٹیبلشمنٹ کی اشیر با د حا صل نہیں تھی لیکن بھا رتی وزیر دفا ع منوہر پا ریکر نے پا رلیمنٹ میں ایک سوال کے جو اب میں یہ کہہ کر ہمارے منہ پر طمانچہ رسید کیا کہ حکومتی یا اسٹیبلشمنٹ کی سر پر ستی کے بغیر غیر ریا ستی عنا صر کھل کھیل نہیں سکتے ۔کسی ایک رکن پا رلیمنٹ کے اس ضمنی سوال کے جواب میں کہ پٹھان کو ٹ کا وسیع و عریض فوجی اڈا پاکستان کے بارڈر کے بہت قر یب ہے لہٰذا اس کو کسی محفو ظ جگہ پر منتقل کر دیا جا ئے ۔وزیر موصوف نے صاف گوئی سے کام لیتے ہو ئے کہا کہ ایسا کرنے سے تو اس اڈے کا مقصد ہی فوت ہو جا ئے گا ۔گو یا کہ اس اڈے کا مقصد بوقت ضرورت پاکستان کی ٹھکائی کرنا ہے اور کشمیر پر قبضہ مستحکم رکھنا ہے ۔اس کا مطلب ہوا کہ بھا رتی زعما جتنا بھی منہ سے رام رام کر یں ان کی بغل میں چھری پاکستان پروار کرنے کے لیے ہی استعمال ہو گی۔ اس کے باوجود ہم بھا رت سے مذاکرات کا سلسلہ بحال کر نے کے غم میں دبلے ہو رہے ہیں ۔ اب شنید ہے کہ وزیر اعظم نواز شریف جب رواںما ہ کے آخر میں نیو کلیئر سمٹ میں شرکت کے لئے اپنے ایک اور 'کا میاب دورے‘ پر واشنگٹن یا ترا کر یں گے تو وہاں ان کی بھا رتی وزیر اعظم نر یند ر مو دی سے بھی ملا قات ہو گی۔گزشتہ برس 10جو لا ئی کو بھی سا ئیڈ لائن پر اس قسم کی ملا قات روس کے شہر ''اوفا‘‘میں بھی ہو ئی تھی ۔بعد ازاں نر یندر مو دی بقول شخصے بن بلا ئے مہمان بن کر نواز شر یف کی نواسی کی شا دی پر جا تی عمرہ وارد ہو گئے ۔پٹھا ن کو ٹ کے واقعے کے بعد مو دی کا را ئے ونڈ والا یہ ''وار‘‘ بھی خا لی گیا اور مذا کرات بحال نہیں ہو سکے۔ پاکستان نے پٹھان کوٹ کے واقعے کے بعد ایک تحقیقا تی سکیورٹی ٹیم بھیجنے کا اعلا ن کیا لیکن ابھی یہ بیل بھی منڈھے نہیں چڑ ھ سکی ۔پاکستان کی ایک سکیو رٹی ٹیم ہما چل پر دیش کے دارالحکومت دھرم شالاگئی ہے جس کی کلیئرنس سے پا کستانی کر کٹ ٹیم کی ٹی ٹونٹی ورلڈ کپ میں شر کت مشروط ہے۔
یہ بات اظہرمن الشمس ہے کہ بھا رت سے خوشگوار تعلقات وقت کی ضرورت ہیں ،تا ہم اس حقیقت کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ تا لی ایک ہاتھ سے نہیں بجتی ۔لہٰذا پاکستان کو بھی ایک ہا تھ سے تالی بجانے کی کوشش کو تر ک کر دینا چاہیے۔ ڈپلومیسی کے مد وجزر اور باریک بینیاں اپنی جگہ پر لیکن یہ ' تھلے‘ لگنے کا تا ثر بھی کسی خو ددار قوم کے شایان شان نہیں ہے۔ جہاں تک کر کٹ کا تعلق ہے ہم ٹی ٹونٹی ورلڈ کپ میں بھارت سے ٹھکا ئی کرانے کے لیے اتنے سر گرم کیوں ہیں جبکہ بھارتی حکومت اورٹیم مینجمنٹ پائے حقارت سے پاکستان آنے سے کئی بار انکا ر کر چکی ہے۔ دراصل بھارت کے نیچے لگنا بورڈ کے مو جو د ہ بزرگ چیئر مین شہر یار خان کی ‘جن کا تعلق بھو پال سے ہے اور ان کے صاحبزادے علی خان کی شادی بھی وہیں ہوئی ہے‘ ضرورت تو ہو سکتی ہے پاکستان کی نہیں۔ موصوف کھلاڑیوں کو خراب کارکر دگی پر ریٹا ئر ہو نے کا دیاکھیان تو دیتے رہتے ہیں لیکن خو د اب انتہا ئی عمر رسیدہ ہو نے کے علا وہ اپنی نا قص کا رکر دگی اور نا اہلی کے با وجو د محض ما ل اینٹھنے کے لیے چیئر مین شپ چھوڑنے کو تیار نہیں ہیں۔ یہ درست ہے کہ پاکستان اس وقت چومکھی لڑا ئی لڑ رہا ہے۔اسے افغانستان سے آ نے والے دہشت گردوں ،ملک میں مذہب کے نام پر نفسا نفسی پھیلانے والوں اور بھا رت کی ریشہ دوانیوں کا سامنا ہے ۔یقینا اس صورت حال کا یہی تقاضا ہے کہ مشرقی محا ذ کوسنبھالا جائے اور وہاں حالات کو بگڑنے نہ دیا جا ئے ۔جہاں تک بھارت کی نیت کا تعلق ہے اس کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ پاکستان کو امریکہ سے صرف آٹھ ایف 16 طیا رے ملنے پر اس نے امریکی سفیر کو دفتر خارجہ بلا کر احتجاج کیا ہے جو ایک انتہا ئی غیر معمولی قدم تھا اس لیے ہمیں اندرونی طورپر خو د کو اقتصا دی، سیاسی اور نظریاتی طور پر مضبوط کرکے بنیا ن مر صوص بن جانا چاہیے تا کہ بیر ونی اور اندرونی سازشوں کا مقا بلہ کیا جا سکے۔