"ANC" (space) message & send to 7575

وہ انتظار تھا جس کا، یہ وہ سحر تو نہیں

بطور اخبار نویس اور ٹیلی وژن کے سیاسی تجز یہ کار مجھے اکثر نجی محفلوں میں مختلف سوالات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ سب سے زیادہ پوچھا جانے والا سوال یہی ہوتا ہے کہ وطن عزیز کا کیا ہو گا؟ سوال کرنے والا کوئی متمول ہو، کئی کنال پر محیط کوٹھی میں رہتا ہو اور بچے برطانیہ یا امر یکہ میں زیر تعلیم ہوں یا ملٹی نیشنل کمپنی میں کسی بڑے عہدے پر فائز ہوں‘ عموماً جب اسے تھوڑا سا کریدا جائے تو اصل سوال یہی ہوتا ہے کہ یہ حکومت کب جا رہی ہے‘ بلکہ اس پر مستزاد یہ کہ سیاستدانوں سے کب چھٹکارا حاصل ہو گا۔ اس طبقے کی ملکی نظام کے بارے میں ایک مخصوص اور نپی تلی رائے ہے۔ ان کے نزدیک فوجی حکمرانی کے ادوار پاکستان کے سنہری ایام تھے‘ جن میں کاروبار بھی چمک رہا تھا اور سرمایہ کاری بھی ہو رہی تھی۔ ان خواتین و حضرات کے نزدیک اس بات کی کوئی اہمیت نہیں کہ پاکستان جمہوریت کے نام پر بنا تھا اور جمہوری پارلیمانی سسٹم کے تحت ہی ترقی کر سکتا ہے‘ لیکن سیاستدانوں کا کہنا ہے کہ پاکستان کے اکثر مسائل کا کھرا فوجی ادوار سے ہی ملتا ہے۔ وطن عزیز ایوب خان کی 'ڈی کیڈ ڈویلپمنٹ ریفارمز‘ اور یحییٰ خا ن کی بوالعجبیوں کے نتیجے میں ہی دو لخت ہوا۔ ضیاالحق نے وطن عزیز کو افغان جہاد میں جھونک کر اور اپنے اقتدار کو دوام بخشنے کی خاطر اسلام کا نام استعمال کر کے ملک کے سیا سی و سما جی ڈھانچے کو تباہ کر کے رکھ دیا۔ کلاشنکوف کلچر، جہاد کے نام پر دہشت گرد تنظیمو ں کی ریل پیل، فر قہ واریت اور مذہبی عدم رواداری موصوف کی ہی 'سوغاتیں‘ ہیں۔ کارگل کے ہیرو پرویز مشرف سونے پر سہا گہ ثابت ہوئے، ان کی بغل میں کتا اور ہا تھ میں وسکی کا گلاس ہوتا تھا لیکن عملی طور پر ان کی اور ضیاالحق کی پالیسیوں میں کو ئی فر ق نہیں تھا۔ سوائے اس کے کہ مو صوف اسلام کے بجا ئے ''ان لائٹنڈ ماڈریشن‘‘ کی مالا جپتے تھے۔
پاکستان کے مستقبل کے بارے میں ما یو سی اور یا سیت کا اظہا ر کر نے والوں کی اکثر یت کا تعلق اشرا فیہ سے ہے حالانکہ انہیں اصولی طورپر سب سے کم شکا یت ہو نی چاہیے، انھیں تو پاکستان نے سب کچھ دیا ہے۔ اگر پاکستان نہ بنتا تو ان کے وارے نیارے کہاں سے ہوتے اور ان میں سے اکثر حضرات ٹاٹا، امبانی اور متھل جیسے بھارتی ٹائیکونز کی ملازمت کر رہے ہوتے۔ اصل شکایت تو غریب آ دمی کو ہونی چاہیے، بقول فیض احمد فیض: ع
وہ انتظار تھا جس کا، یہ وہ سحر تو نہیں
درحقیقت پاکستان کو ایک ترقی یا فتہ، مہذب اور جمہوری ملک کہلانے کے لیے بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے اور اس ضمن میں ہمارے سیاستدانوں نے خاصے مایوس کن کردار کا مظا ہر ہ کیا ہے۔ برصغیر کی صورتحال ہی دیکھ لیں، بنگلہ دیش جو کبھی مشرقی پاکستان تھا، تر قی کی منازل طے کر رہا ہے۔ محتر م اسحق ڈار رطب اللسان رہتے ہیں کہ پاکستان کے زرمبا دلہ کے ذ خا ئر 20 ارب ڈا لر تک پہنچ گئے ہیں جبکہ حالیہ اعداد و شمار کے مطابق بنگلہ دیش کے زرمبادلہ کے ذخا ئر 28 ارب ڈالر ہیں 
اور وہ ان ذخائر کے حوالے سے دنیا میں 48ویں نمبر پر ہے جبکہ پاکستان 56ویں نمبر پر۔ اسی طر ح ایک زمانے میں ہم بنگلہ دیش کی ٹیم کی حوصلہ افزا ئی کرنے کیلئے ٹی ٹونٹی ورلڈ کپ میں ان سے خو د ہی ہار گئے تھے اور اب حال یہ ہے کہ ہما ری کر کٹ ٹیم کی سر توڑ کو ششوں کے با وجو د وہ ہما ری پٹا ئی کرتے ہیں۔ ہم سب سے بڑے ہمسا یہ ملک بھارت سے برابر ی کے شوق میں مبتلا رہتے ہیں لیکن اگر زمینی حقا ئق کو سامنے رکھا جا ئے تو نیوکلیئر میزائل ریس کے سوا بھارت ہر شعبے میں ہم سے آگے ہے۔ یہی حال کچھ سر ی لنکا کا ہے۔ آخر اس کی کیا وجہ ہے کہ ہم ایک ایٹمی قوت اور دنیا میں فوجی طاقت کے لحاظ سے 11ویں نمبر پر ہونے کے باوجود اقتصا دی اور سما جی طور پر رجعت قہقر ی کا شکا ر رہتے ہیں۔ وجہ صاف ظا ہر ہے دنیا اور خطے میں ہما رے ارد گرد کے ممالک گز شتہ ایک دہا ئی سے تیز ی سے بدل رہے ہیں لیکن ہما ری چال و ہی بے ڈھنگی ہے۔ بھارت سے ہمارے تعلقا ت ایک قدم آگے اور دو قدم پیچھے کے مترادف ہیں۔ یقینا اس میں بھا رت کی غلبہ حا صل کر نے کی کوششوں کا بھی عمل دخل ہو گا‘ لیکن عملی طور پر ہم اقتصادی اور تجارتی تعلقات کے ذریعے اور سیا سی اختلافات کو ایک طرف رکھ کر پالیسیوں کو آگے بڑھانے سے یکسر قاصر ہیں۔ چین‘ جس سے دوستی کی ہم ہر وقت مالا جپتے ہیں، ہمیں دہا ئی دیتا ہے کہ کشمیر لینے کے لیے پہلے خو د کو اقتصا دی طور پر مضبو ط کرو۔ بھا رت سے اقتصا دی تعاون اور تجارت کرو، ایک دن ہانگ کا نگ کی طرح کشمیر آ پ کو مل جا ئے گا۔
بڑے بڑے سیا سی اور تا ریخی اختلا فات کو ڈپلومیسی کے ذریعے حل کرنے کا آ رٹ ہمیں اپنے برادر اسلامی ملک ایران سے سیکھنا چاہیے۔ ایران عراق جنگ کے دوران ایرانی انقلاب کے بانی آیت اللہ خمینی زندہ تھے۔ اس جنگ میں ایران کے نوجو انوں کی ایک بہت بڑی تعداد کو جھونک دیا گیا جب نتیجہ کچھ نہ نکلا تو آ یت اللہ خمینی نے یہ کہہ کر جنگ ختم کر دی کہ وہ قومی مفا دکی خا طر زہر کا پیالہ پی رہے ہیں۔ کسی پاکستانی سیا ستد ان کا یہ دل گردہ نہیں ہے کہ وہ قومی مفا د کی خا طر زہر کا پیالہ پی لے۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ قومی مفا د کو پس پشت ڈا لا جا ئے بلکہ یہ ہے کہ با وقا ر طر یقے سے گھسی پٹی پالیسیو ں کو بد لا جائے۔ ایران کی سفا رتی کا میا بی کی تا زہ تر ین مثال امر یکہ کے سا تھ ایٹمی معاہد ہ ہے۔ ایران نے اپنے نیوکلیئر پر وگرا م پر اپنے وسیع تر اقتصا دی مفاد کی خا طر امر یکہ اور مغر ب سے معاملات طے کر نا قبول کر لیا‘ لیکن ہمارے ہاں ایسا ممکن ہی نہیں کیو نکہ مقتدر قوتیں، میڈیا اور سالہا سال سے بنی ہو ئی مخصوص قسم کی رائے عامہ کا ایک موثر حصہ یہ نہیں ہونے دے گا۔ اس کے با وجو د یہ کہنا کہ آ وے کا آ وا ہی بگڑا ہو اہے،درست نہیں ہو گا گز شتہ چند بر سوں میں امید کی کرن ضرور پیداہوئی ہے۔پاکستان کی تا ریخ میں پہلی مر تبہ ایک سیاسی حکومت نے اپنی مد ت پو ری کی۔ 2013ء میں انتخابات ہوئے اور جہا دی قوتوں کے ساتھ سالہا سا ل کا الحا ق مو جو دہ سیا سی و فو جی قیادت کے دور میں ہی ضرب عضب کے نتیجے میںختم ہو تا نظر آ رہا ہے۔ اب قنو طیت پسندی اور دہشت گردی کے خلا ف پو ری قوم سینہ سپر ہے۔ موجودہ حکومت خواتین کے حقوق کے حوالے سے اب بہت فعال نظر آ تی ہے جس پر مذ ہبی رہنما ؤں کا ایک ٹو لہ سخت پر یشان نظر آ تا ہے، انہیں ان کے حال پرچھو ڑ دینا چا ہیے۔ وطن عز یز کو ایک جد ید جمہو ری اسلامی ریاست بنانے کیلئے جس میں تمام سٹیک ہولڈرز مستفید ہو سکیں ابھی بہت کچھ کرنا با قی ہے۔ سب سے زیا دہ ذمہ داری وزیر اعظم میاں نواز شریف پر عائد ہو تی ہے کہ وہ ایک قومی ایجنڈے پر سب کو آن بو رڈ لینے کی کو شش کر یں لیکن میاں صاحب کو تو غیر ملکی دوروں سے ہی فرصت نہیں، جو لوگ فو جی قیا دت کو سیاست میں گھسیٹنے کی دن رات تگ و دو کرتے رہتے ہیں انھیں بھی پاکستان کے حال پر رحم کرنا چاہیے کیو نکہ ان تلوں میں تیل نہیں ہے۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں