وزیر داخلہ چو ہدری نثا ر علی خان جنہیں پنجاب ہاؤس اسلام آبا د کی پھو لدار سکرین کے سامنے لچھے دار اور طویل پر یس کانفرنسیںکر نے کی عادت سی ہو گئی ہے‘ ویسے بڑی جلدی چڑ جا تے ہیں ،لگتا ہے کہ تنقید برداشت کر نے کا ان میں زیا دہ حو صلہ نہیں ہے۔ سابق صدر پرویز مشرف کو ''بغر ض علاج‘‘ بیر ون ملک جانے کی اجا زت دینے کے اعلان کے ساتھ ہی انھوں نے یہ بھی فر ما یا کہ کچھ لو گو ں نے حکومت پر تنقید کا ٹھیکہ لے رکھا ہے حالانکہ یہا ں حکومت سے زیادہ چوہدری نثار علی خان پرہی برا ہ راست تنقید کا جواز بنتا ہے کیونکہ17نومبر 2013ء( اتوار) کی دوپہرکو جب را ولپنڈی میں فرقہ وارانہ فساد ہو رہے تھے تو چو ہدری نثا ر علی خان نے اچا نک اپنی پٹاری سے مشرف کے خلا ف آرٹیکل 6کے تحت مقدمہ چلانے کا سانپ نکال لیا اور بڑا سینہ تان کر کہا کہ''مشرف قومی مجرم ہیں،ہم معافی نہیں دے سکتے‘‘ ۔یہاں یہ سوال پیداہو تا ہے کہ پنجا بی کے محا ورے کے مطابق''ما ڑی سی تے لڑی کیو ں سی ‘‘ یادوسرے الفا ظ میں اگر حکومت میں اتنا دل گر دہ نہیں تھا تو فو ج کے ایک سابق سر برا ہ‘ جس نے آ ئین کو بو ٹو ں تلے رو ند تے ہو ئے نہ صرف اقتدار پر قبضہ کیا بلکہ بعد ازاں آزاد عدلیہ پر بھی شب خون ما را ‘سے پنگا لینے کی ضر ورت کیا تھی۔
جنرل پر ویز مشرف نے جا تے ہو ئے یہ دعویٰ کیا ہے کہ وہ وطن واپس آ ئیں گے یعنی انہیں یقین ہے کہ وہ مقتدر حلقے جنہوں نے مشر ف صاحب کو آرٹیکل 6کی خلا ف ورزی، محتر مہ بے نظیر بھٹو کی شہا دت ،اکبر بگٹی قتل اور عبدالر شید غا ز ی کے کیسوں سے محفوظ رکھا اور جیل کی ہوا بھی نہیں لگنے دی بلکہ انھیں خرا بی صحت کے بہانے دبئی جا نے کی اجا زت دلو ائی، وہ انھیں وطن واپس آ نے پر بھی ''محفو ظ‘‘ رکھیں گے ۔لیکن جنرل پر ویز مشرف کو پاکستان آ کر عدالتوں میں پیشیاں بھگتنے کے چکر میں پڑنے کی کیا ضرورت ہے ۔وہ آ رام سے اپنا علاج کر ا ئیں گے اور دبئی ‘لند ن اورنیو یا رک کی ''بغر ض علاج ‘‘سیر کر یں گے ۔
جنر ل پر ویز مشرف اس زعم میں مبتلا رہے کہ قوم ان کے سنہر ی دور کی واپسی کی منتظر ومضطر ب ہے۔ان کی یہ خام خیالی بہت پہلے دور ہوگئی تھی۔مشرف کی آ ل پاکستان مسلم لیگ کی حیثیت ایک تا نگہ پا رٹی سے زیا دہ نہیں بن سکی۔ ان کے وہ تمام ساتھی جن میں چوہدری برادران ،ہمایوں اختر خان ،خو رشیدمحمود قصوری ، زاہد حا مد، ماروی میمن، امیر مقام اور دانیال عزیز جیسے لوگ شامل تھے، تتر بتر ہو چکے ہیں۔جہا ں تک فو ج میںان کے اثر و نفوذ کا تعلق ہے ، فو جی جر نیل چا ہے وہ آرمی چیف ہی کیوں نہ ہو‘ ریٹائرمنٹ کے بعد یکسر آ ؤٹ ہو جا تا ہے ۔اس وقت بھی وطن عزیز میں کئی سا بق فو جی جرنیل اور کمانڈر انچیف قر یبا ً گمنامی کی ز ند گی گز ار رہے ہیں، جنر ل اسلم بیگ نے ریٹائرمنٹ کے بعد فر ینڈ ز نامی تنظیم بنا کربطور ایک تھنکر اور انٹلیکچو ئل خو د کو نما یا ں کر نے کی بھر پو ر کو شش کی لیکن ما لی وسا ئل ہو نے کے باوجو د وہ ایک چلا ہوا کا رتو س ہی ثابت ہو ئے ۔لیکن اس کا مطلب یہ بھی نہیں ہے کہ فو ج اپنے ریٹا ئر سر بر اہوں کی سویلین حکومت کے ہاتھوں بے تو قیری ہو نے دے گی ۔ مشرف دور میں ایک سابق آرمی چیف کے بیٹے کو نا جا ئز طور پر دھر لیا گیا ۔ وہ سابق آرمی چیف اپنے بیٹے کو ریسکیو کر نے کے لیے خود تھا نے پہنچ گئے ۔ جب جنرل پر ویز مشرف جو غا لباً اس وقت چیف ایگز یکٹو بھی تھے‘ تک یہ خبر پہنچی توانہوں نے سابق سر برا ہ کو فو ن کیا کہ حضور! آ پ پاک فو ج کے سر برا ہ رہے ہیں، فوراً گھر جا ئیں کیو نکہ آپ کے تھانے جانے سے افو اج پاکستان کی بے توقیری ہوئی ہے ، بیٹا گھر پہنچ جا ئے گا ۔ جہا ں تک جنرل راحیل شریف کا تعلق ہے ان کے بڑے بھا ئی میجر شبیر شر یف شہیداور پرویز مشرف اکٹھے فو ج میں رہے ہیں۔ اس لحا ظ سے وہ نہ صرف بطور سابق سربر اہ بلکہ ذ اتی طور پر بھی ان کا بے حد احترام کر تے ہیں ۔لیکن بات بالکل واضح ہے کہ فوجی قیا دت ہر حا ل میںاپنے سا بق سر برا ہ کے وقار کی حفا ظت کر تی ہے ۔
جنر ل پر ویز مشر ف پر آ رٹیکل 6کے تحت آ ئین کو توڑنے کامقدمہ چلا نے کا فیصلہ اگر وزیر اعظم نواز شریف، وزیر داخلہ چوہدری نثا ر علی خان ،وزیر دفاع خو اجہ آ صف اور وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال کا تھا تو یہ ان حضرات کی کج فہمی تھی کہ وہ اس بیل کو منڈ ھے بھی چڑ ھا سکیں گے ۔میری اطلا ع کے مطابق وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شر یف روزاول سے ہی پرویز مشرف کے خلا ف اس مہم جو ئی کے مخا لف تھے ،حکمران جماعت میں وہ واحد شخص ہیں جو برملا اس خیال کے حامی تھے کہ یہ بیل منڈھے نہیں چڑھ سکے گی ۔رانا ثنا ء اللہ کسے الو بنا رہے ہیں ،فرماتے ہیں کہ اگر پرویز مشرف واپس نہ آئے تو ان کو انٹرپول کے ذریعے واپس لایا جائیگا۔کیا پدی اور کیا پدی کا شوربہ! جب پرویز مشرف پر مقدمہ چلانے کے شوقین میاں نواز شریف اور ان کی حکومت میں شامل تمام جغادری جھاگ کی طرح بیٹھ چکے ہیں تو رانا ثنا ء اللہ اکیلے کیا کر لیں گے۔مشرف کا معاملہ طاہرالقادری کے ہیڈ کوارٹرز پر شب خون مارنے سے قدرے مختلف ہے۔
آ ج بلا ول بھٹو زرداری اورخو رشید شاہ سمیت پیپلز پارٹی کے اکثر رہنما بلبلا رہے ہیں کہ پرویز مشرف کو کیو نکر جانے دیا گیا ۔ یہ حضرا ت اس حقیقت کو کیوں بھو ل جا تے ہیں کہ این آ ر او کی صورت میں اس وقت آ مر مطلق کے ساتھ مک مکا کس کس نے کیا تھا ۔دلچسپ با ت یہ ہے کہ پیپلز پارٹی کے شر یک چیئرمین آ صف علی زرداری نے پرویز مشرف کے بیرون ملک جانے پر تا حال کو ئی تبصر ہ نہیں کیا اور ایساکر یں بھی کیو نکر؟ ان کے دور میں ایوان صدر سے روانگی کے موقع پر پرویز مشرف کو گارڈ آف آنر دیا گیا اور انہوں نے اپنے دور اقتدار میں پرویز مشرف پر مقدمات قائم کرنے کی بھی کوشش نہیں کی ۔آصف زرداری کی یہی دور اندیشی اور معاملہ فہمی ان کے کام آئی اور جنرل اشفاق پرویز کیانی اور ان کے آئی ایس آئی کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل شجاع پاشا کی انہیں اور ان کے حواریوں کو پھنسانے کی متعدد کوششوں کے باوجود وہ اپنے پانچ برس پورے کرنے کے بعد پر امن انتقال اقتدار کر کے ایوان صدرسے رخصت ہوئے۔
میاں نواز شریف فرماتے تو یہ ہیں کہ انہوں نے مشرف کو معاف کر دیا تھا،یہ ان کا ذاتی مسئلہ نہیں ہے لیکن عملی طور پر مشرف کے ہاتھوں انہوں نے جو تکلیفیں اٹھائیں ، صعوبتیں برداشت کیں ،اسے انہوں نے معاف نہیں کیا بلکہ وہ اس معاملے میں بے بس ثابت ہوئے اور مشرف صاف بچ نکلنے میں کامیاب ہو گئے۔یہ کہنا کہ سپریم کورٹ نے پرویز مشرف کو باہر جانے کی اجازت دی ہے محض عذر لنگ ہے۔یہ حکومت کی ذمہ داری تھی کہ وہ آرٹیکل چھ کے تحت کارروائی کرتی۔ظاہر ہے کہ کسی سویلین حکومت بالخصوص میاں نواز شریف کی حکومت میں اب اتنا دم خم نہیں رہا۔پرویز مشرف جنرل راحیل شریف اور مقتدر قوتوں کی خواہش پر ہی باہر گئے ہیں ۔گویا کہ یہ بھی ایک'' ڈیل‘‘ کا نتیجہ ہے۔این آر او کے ذریعے محترمہ بے نظیر بھٹو کی وطن واپسی ہوئی جس کے بعد میاں نوازشریف بھی واپس آئے ،اس سے پہلے پرویز مشرف کی آشیرباد سے ہی میاں شہباز شریف کو''بغرض علاج‘‘ سعودی عرب سے امریکہ جانے کی اجازت ملی اور بعد میں بیٹے کے علاج کے سلسلے میں میاں نواز شریف بھی لندن پہنچ گئے تھے ۔یہ بھی عجیب ستم ظریفی ہے کہ مشرف کے ذاتی دوست بریگیڈئیر نیاز کے توسط سے ڈیل کے ذریعے میاں نواز شریف جب لندن پہنچے تو انہوں نے ائیر پورٹ پر ہی سیاست میں حصہ نہ لینے کی انڈر سٹینڈنگ کو توڑ دیا اورمیڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے مشرف کے خلاف سخت جملے کہے۔اسی طرح اب وہی کمانڈو جو کل تک تو ہسپتال کے یونیفارم میں درد سے کراہ رہا تھا اور دبئی جانے کیلئے بے تاب ہو کر ائیر ایمبولینس کا بندوبست کروا رہا تھا، ایمریٹس کی فلائٹ پر اچانک اتنا صحت یاب ہو گیا کہ پینٹ شرٹ میں ملبوس ہو کر سگار پھونکتا رہا اوراپنے حامیوں کے ساتھ گپ شپ بھی کر رہا تھا۔
پرویز مشرف کے خلاف آرٹیکل چھ کے تحت مقدمہ چلانے کے'' ڈرامے‘‘ کے اس ڈراپ سین کے بعد یقیناً یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آئین میں دفعہ چھ کے تحت کسی طالع آزما کے خلاف کارروائی کرنا قریباً نا ممکن ہے تو پھر آرٹیکل چھ کا کیا فائدہ؟ محض آئین میں موجود اس قسم کی دفعات کے ذریعے جمہوریت کی حفاظت نہیں کی جاسکتی ،اس سلسلے میں حکومتوں کو گورننس بہتر بنانے کے ساتھ دل گردہ اور پِتّا بھی مضبوط کرنا ہوگا۔