"ANC" (space) message & send to 7575

اورنج ٹرین …شہباز شریف بمقابلہ سول سوسائٹی

اورنج لائن ٹرین منصوبہ مکمل طور پر آسان اقساط پر چینی قرضے سے چینی کمپنیوں کے ذریعے ہی پایہ تکمیل تک پہنچے گا۔ 27 کلو میٹر طویل اورنج لائن ٹرین پنجاب اسمبلی کی اپوزیشن اورنام نہاد سول سوسائٹی کے گلے میں اٹکی ہوئی ہے،سول سوسائٹی کے چند جیالوں نے اس حوالے سے عدالت عالیہ کا دروازہ بھی کھٹکھٹایا ہے۔دوسری طرف خادم اعلیٰ میاں شہباز شریف جو اپنی ہٹ کے پکے ہیں یہ مصمم ارادہ کر چکے ہیں کہ میٹرو بس کی طرح یہ پراجیکٹ بھی اپنے مقررہ وقت میں مکمل ہو گا۔اس حوالے سے وزیر اعلیٰ اور ان کے ماہرین میڈیا کو کئی مرتبہ بریفنگ بھی دے چکے ہیں ۔اتوار کی شام جب ویسٹ انڈیز اور انگلینڈ کے درمیان ٹی ٹونٹی کا فائنل ہو رہا تھا عین اس وقت وزیر اعلیٰ اور ان کی ٹیم صحافیوں اور اینکروں کے گروپ کی پلاؤ سے تواضع کرنے کے ساتھ ساتھ اس اہم پراجیکٹ کی افادیت ،ٹرانسپرنسی اور فنانسنگ کے بارے میں بریفنگ دے رہے تھے۔یوں انہوں نے کرکٹ کے شوقین بعض میڈیا پرسنز کے رنگ میں بھنگ ڈال دی ۔لگتا ہے کہ شہباز شریف کو نہ کرکٹ سے دلچسپی ہے نہ موسیقی سے اور نہ ہی فلمیں دیکھنے سے،بس کام کام اور کام ہی ان کا طرہ امتیاز ہے اوراسی بنا پر انہوں نے اورنج ٹرین منصوبہ کی جزئیات میڈیا کو سمجھانے کیلئے یہ دن چنا ۔وزیر اعلیٰ نے خود پاور پوائنٹ پریذینٹیشن کے ذریعے بتایا کہ ہر جدید شہر کو ماس ٹرانزٹ کی ضرورت ہوتی ہے‘ بالخصوص لاہور جیسے شہر کو جس کی آبادی بہت تیزی سے بڑھ رہی ہے اوریہاں غریب آدمی کو رکشوں،ویگنوں اور بسوں پر دھکے کھانے پڑتے ہیں۔میاں صاحب نے بتایا کہ چین نے حکومت پاکستان کے اصرار پر اوپن ٹینڈر کے ذریعے اورنج لائن ٹرین کا ٹھیکہ جوائنٹ ونچرچائنہ ریلوے اور نورنکو } {CR-NORINKO کو دیاجس کی بڈ سب سے کم تھی۔پراجیکٹ کی حتمی لاگت 1478 ملین ڈالر ہے جو بڈ کی قیمت سے بھی661 ملین ڈالر کم ہے۔یہ سب کچھ میاں شہباز شریف کی ذاتی کوششوں کا ثمر ہے۔وزیر اعلیٰ اورپراجیکٹ کے انچارج سینئربیوروکریٹ سبطین فضل حلیم نے میڈیا کو یہ بھی بتایا کہ اورنج لائن کی فی کلو میٹر لاگت 55.50 ملین ڈالر ہے اور اگر اس میں اتفاقی اخراجات کو بھی ڈال دیا جائے تو یہ یہ لاگت 59.9 ملین ڈالر فی کلو میٹر بنتی ہے جو کہ ممبئی،پونا،جے پوراور کوپن ہیگن سے بھی کم ہے۔جکارتہ میں اس قسم کے ٹرین منصوبے کی قیمت 117 ملین ڈالر فی کلو میٹر ہے۔وزیر اعلیٰ نے دعویٰ کیا کہ اب تازہ ترین سٹڈیز کے مطابق بین الاقوامی سطح پر میٹرو ٹرین منصوبے کی لاگت پچاس اور سو ملین ڈالر فی کلو میٹر کے درمیان آ رہی ہے۔
شہباز شریف نے اس سوال کا جواب بھی دے دیا کہ ہیلتھ،ایجوکیشن اور سوشل سیکٹر کی قربانی نہیں دی جارہی کیونکہ اورنج ٹرین منصوبے کا تمام خرچہ چین کا ایگزام بینک برداشت کر رہا ہے،تاہم رعایتی شرائط پر۔ اس قرضے کی تفصیلات پر سبطین فضل حلیم نے جواب دینے سے اس بنا پر معذرت کر لی کہ معاہدے کے مطابق وہ ان شرائط کو افشا نہیں کر سکتے۔انہوں نے اس بات کی تردید کی کہ چینی بینک نے یہ قرضہ فی الحال روکا ہوا ہے۔میڈیا کے بعض ارکان نے جو اپنے پروگراموں میں الگ راگ الاپتے ہیں ،غالباً پر تکلف کھانے اور ماحول سے مدہوش ہو کر وزیر اعلیٰ اور ان کے اس پراجیکٹ پر تعریف اور توصیف کے ڈونگڑے برسائے۔تاہم چند اخبار نویسوں نے چبھتے ہوئے سوالات بھی کئے جس کے جواب میں میاں شہباز شریف کو اس بات کو تسلیم کرنا پڑا کہ ہسپتالوں میں علاج ،ہیلتھ کور اور تعلیم کے شعبے میں مزید توجہ دینے اور بجٹ کا زیادہ حصہ ان پر صرف کرنے کی ضرورت ہے۔وزیر اعلیٰ نے اس بات کی بھی وضاحت کی کہ جن لوگوں کے گھر بار اس پراجیکٹ کی زد میں آ رہے ہیں ان کی تلافی کیلئے 20 ارب روپے جبکہ وہ لوگ جو غیر قانونی طور پر سرکاری جگہ پر قابض ہیں ان کے لئے بھی 1.96 ارب روپے مختص کئے گئے ہیں جس کی زیادہ تر ادائیگی بھی ہو چکی ہے ؛نیز تاریخی عمارتوں اور مقامات کو اورنج لائن ٹرین منصوبے سے کوئی خطرہ نہیں۔ اس حوالے سے انہوں نے بنگلور، جے پور، چنائی، حیدرآباد، دہلی، نیویارک، ایتھنز، پیرس،برلن اور ویانا کی مثالیں دیں جہاں اس قسم کی ٹرینیں تاریخی مقامات کے قریب سے گزرتی ہیں۔میاں صاحب نے انکشاف کیا کہ کوالالمپور کی جامع مسجد میں ٹرین سٹیشن واقع ہے۔انہوں نے کہاکہ لاہور میں کامران کی بارہ دری کے قریب سے ریلوے لائن گزرتی ہے اوراسے کوئی نقصان نہیں پہنچتا، ریلوے ٹرین کی تھرتھراہٹ اورنج ٹرین سے کئی گنا زیادہ ہوتی ہے۔
میں نے میاں صاحب سے کہا کہ آپ کے دلائل اپنی جگہ لیکن سول سوسائٹی آپ کو کبھی معاف نہیں کرے گی کیونکہ ان کا تو یہ کاروبار ہے۔مجھے یاد ہے کہ کالا باغ ڈیم کی مخالفت بھی خیبرپختونخوا سے زیادہ کراچی کے سندھ کلب میں شامیں گزارنے والی سول سوسائٹی اور میڈیا کے چند مالکان نے کی تھی۔ان کے مطابق اگر کالا باغ ڈیم بن گیا تو ساحلی علاقوں میں مینگرووز کا خطرہ پیدا ہو جائیگا اور بعض پرندوں کی جان خطرے میں پڑ جائیگی۔آج حالت یہ ہے کہ کالا باغ ڈیم سیاسی عدم اتفاق کے باعث نہیں بن سکا اورپورے ملک بالخصوص صوبہ سندھ کے کئی علاقوں میں پانی کی شدید قلت اور خشک سالی کا مسئلہ تشویشناک صورتحال اختیار کرتا جا رہا ہے۔
لاہور کی یہ سول سوسائٹی پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کو طبقاتی طور پر اپنے سے کم تر سمجھتی ہے۔ایک مرتبہ محترمہ بے نظیر بھٹو بطور وزیر اعظم لاہور آئیں تو انہوں نے مجھ سے گلہ کیا کہ آپ کی LUEہمارا جینا دوبھرکرنا چاہتی ہے کیونکہ ہمارا تعلق دیہی علاقوں سے ہے اور ہم غریبوں کی بات کرتے ہیں۔ میرے استفسار پرکہ یہLUE کیا چیز ہے؟ تو انہوں نے کہا کہ یہ دراصل 'لاہور اربن ایلیٹ‘ ہے جو GUCCI کے جوتے اور ARMANI کے سوٹ پہنتی ہے اور شام کو اعلیٰ قسم کی ڈیلیکس وہسکی پینے اور اور سگار پھونکنے کے ساتھ ساتھ ہمارے جیسے سیاستدانوں کو کوستی ہے۔اب میاں شہباز شریف کو بھی اسی ایلیٹ کے کارندوں کی مخالفت کا سامنا ہے،یہ لوگ میاں نواز شریف کی دیسی کھانوں کیلئے رغبت کا مذاق اڑاتے ہیں ۔ میاں شہباز شریف بھی ان کی سوشل سرگرمیوں میں شرکت سے قاصر رہتے ہیں ۔شریف برادران جتنے بھی اچھے سوٹ اور ٹائیاں پہن لیں اوررہنے کیلئے سول سوسائٹی سے بھی بڑے محل تعمیر کر لیں سول سوسائٹی انہیںخود سے کم ترہی سمجھتی ہے۔ عمومی طور پریہ لوگ جمہوریت اور جمہوری روایات پر کم ہی یقین رکھتے ہیں۔مشرف اور ایوب خان جیسے فوجی آمر اس لحاظ سے ان کے آئیڈیل ہیں کہ ان کے ادوار میں امیر، امیر تر اور غریب، غریب تر ہوا۔ اس طرح یہ سول سوسائٹی اور بھی امیر ہو گئی۔اس قسم کی سول سوسائٹی کے کارندے لاہور میں ہر سال نام نہاد لٹریری فیسٹیول کراتے ہیں ۔اس مرتبہ پنجاب حکومت نے انہیںفیسٹیول کے انعقاد کے معاملے میں لیت و لعل کی ،بعض لوگوں کا خیال تھا کہ حکومت نے اس بنا پر فیسٹیول کی اجازت دینے میں تاخیر کی ہے کہ ظاہر ہے میاں شہباز شریف سوچتے ہونگے کہ میں ان لوگوں کو جو اورنج ٹرین کی ہر محاذ پر مخالفت کر رہے ہیں مفت کھانا کیوں کھلاؤں،ان کے خیال میں مرسیڈیز اور لینڈ کروزرز میں پھرنے والی یہ اشرافیہ محض فیشن کیلئے اس طرح کی موشگافیاں کرتی ہے۔ بعد میںلٹریری فیسٹیول کے مدارالمہام برادران کو دو روز کی اجازت دے دی گئی ۔سگنل فری منصوبہ ہو یا نہر کی سڑکیں چوڑی کرنے کیلئے درخت کاٹنے کا مسئلہ یا میٹرو بس اور اورنج لائن ٹرین کی تعمیر یہ برادری حکومت کی مخالفت میں پیش پیش رہتی ہے۔اس پر مستزاد یہ ہے کہ سول سوسائٹی سے تعلق رکھنے والے بعض وکلابغیر فیس ایسے معاملات عدالت عالیہ یا عدالت عظمیٰ میں لے جانے کیلئے تیار رہتے ہیں ۔
وزیر اعلیٰ نے انکشاف کیا کہ اس پراجیکٹ میں رکاوٹ قوم کو اس لحاظ سے مہنگی پڑ رہی ہے کہ جتنے دن یہ پراجیکٹ لیٹ ہو گا قوم کو پانچ کروڑ روزانہ کی ڈز پڑے گی۔میاں صاحب کا سوال تھا کہ وہ امیر لوگ جو ٹیکس بچاتے یا سرے سے ہی نہیں دیتے وہ عام ٹیکس دہندگان کا حق کیوں مار رہے ہیں؟۔وزیر اعلیٰ کا عزم مصمم دیکھ کر یہ اندازہ ہوا کہ اورنج لائن ٹرین میڈیا کے بعض حلقوں ،سول سوسائٹی کی مخالفت کے باوجود ہر حال میں بنے گی اور یقیناً اس کی تعمیر سے اہلیان لاہور کو فائدہ ہی ہو گا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں