وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف بقول ترجمان'' طبی معائنے‘‘ کیلئے لندن چلے گئے ہیں۔لگتا ہے ‘ ان کا مرض طبی نہیں سیاسی ہے اور ان کے علاج کیلئے حکیم آصف علی زرداری لندن کے بڑے ہوٹل میں مطب سجائے بیٹھے ہیں۔ماضی کے برعکس اس مرتبہ عمران خان سولو فلائٹ نہیں کر رہے اور وہ پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ن دونوں کو چور چور قرار دینے کے بجائے اب صرف میاں نواز شریف کیخلاف تحریک کی بھرپور تیاری کر رہے ہیں۔اگر اخباری اطلاعات پر یقین کر لیا جائے تو میاں صاحب آصف زرداری پر زور دینگے کہ میری حکومت کے خاتمے کی صورت میں اس بیگانی شادی میں پیپلز پارٹی کو کیا ملے گا؟اگر کوئی تیسری قوت آتی ہے تو نقصان پیپلزپارٹی کو ہوگا اور اگر عام انتخابات ہوتے ہیں تو فائدہ تحریک انصاف کو ملے گا‘لیکن جیالے بالخصوص خورشید شاہ اور اعتزاز احسن مسلم لیگ ن کیخلاف شعلہ نوائی میں اتنے آگے جا چکے ہیں کہ زرداری صاحب کیلئے اس مرحلے پر ان کو نکیل ڈالنا اتنا آسان نہ ہو گا۔کیا میاں نواز شریف اب اس پوزیشن میں ہیں کہ وہ زرداری صاحب کو وطن واپسی کیلئے محفوظ راستہ دے سکتے اور ڈاکٹر عاصم حسین کی رینجرز اور نیب سے گلو خلاصی کراسکتے ہیں؟ سابق وزیر داخلہ رحمان ملک جنہیں آصف زرداری کا ماؤتھ پیس سمجھا جاتا ہے ‘یہ عندیہ دے چکے ہیں کہ نواز شریف کے استعفے کا مطالبہ جائز نہیں،اولاد کے کرتوتوں کی سزا والد کو کیسے دی جا سکتی ہے؟ لیکن رحمان ملک تو خود پاناما لیکس میں نامزد ہیں۔اس تناظر میں میاں نواز شریف کو لندن میں اپنی تازہ بیماری کے علاج سے افاقہ اتنا آسان نہیں ہو گا! کیونکہ اطلاعات کے مطابق زرداری صاحب نے ملنے سے انکار کر دیا ہے۔
ادھرتحریک انصاف کے سر براہ عمران خان ‘ نواز شریف پر دباؤ بڑھانے کیلئے خم ٹھونک کر میدان میں اتر آئے ہیں۔اتوار کو انہوں نے بطور اپوزیشن لیڈر قوم سے خطاب کر کے نئی روایت کو جنم دیا اور ان کے خطاب سے تین روز پہلے خان صاحب کی پارٹی کے رہنماؤں نے سرکا ری پروپیگنڈامشین ‘پی آ ئی ڈی کے آ ڈیٹوریم میں پریس کا نفر نس کر کے ایک نئی روایت قا ئم کر دی تھی۔ حکومت نے جمہو ری روایا ت کا پا س کرتے ہوئے ان کو خند ہ پیشا نی سے پی آ ئی ڈی میں پریس کانفرنس کرنے کی اجا زت تو دی لیکن پی ٹی وی نے اس کا مکمل بلیک آ ؤٹ کیا ۔ شا ید اسی پر نا ر اض ہو کر خان صا حب نے پی ٹی وی پر قوم سے خطاب کر نے کا مطا لبہ داغا ہو ۔ پی ٹی وی اور ریڈ یو پاکستان قومی نشر یا تی ادارے ہیں اور اس لحا ظ سے انھیں تمام سیا سی جما عتوں کو مصنفا نہ کو ریج دینی چا ہیے ۔ قومی ٹیلی ویثر ن پر 2013ء میں نگران حکومت کے دور میں تمام سیاسی جماعتوں کو برا بر کی کوریج دی گئی ‘حالانکہ اس سے قبل اپوزیشن کی جماعتوںکو یہ گلہ رہتا تھاکہ پی ٹی وی ہمیشہ حکومت وقت کا مر غ با د نما رہا ہے ۔البتہ 1997ء کے عام انتخا بات میں پی ٹی وی نے الیکشن آ ور کا اہتمام کیا تھا جس کے تحت تمام بڑی سیا سی جما عتوں کو اپنا نقطہ نظر پیش کرنے کیلئے 70منٹ کا مفت وقت دیا گیا تھا۔ اس مو قع پر مجھے میاں نواز شر یف کا انٹرویو کرنے کا شرف حا صل ہو ا تھا جو دو گھنٹے سے زا ئد پر مشتمل تھا۔ اس مو قع پر مشا ہدحسین سید جو اس وقت میاں صاحب کے میڈ یا ایڈ وائز ر تھے کے علا وہ پرویز رشید بھی مو جو د تھے۔ انٹر ویو ختم ہو نے پر میاں نواز شریف نے جو اس وقت تک اپنے حو اریوں سے تعریف وتو صیف کر وانے کے عادی ہو چکے تھے ‘ داد طلب نگا ہو ں سے ان دونوں حضرات کی طرف دیکھا ۔اس مو قع پر مشاہد حسین سید نے کہا کہ میاں صاحب'' آ ج تو آ پ نے کڑا کے نکا ل دیئے ہیں ‘‘ جس پر میاں صاحب نے طمانیت کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اس انٹرویو کو ذرا ایڈٹ کر لیا جا ئے‘ جس پر شا ہ صاحب نے بر جستہ جو اب دیا '' اس میں ایڈٹ کر نے والی بات ہی کیا ہے حضور!‘‘ لیکن پر ویز رشید نے تو اس موقع پر تا ریخی فقر ہ کہا '' میاں صاحب آج کی گفتگو سن کر آپ کی خوشامد کر نے کو دل کر رہا ہے‘‘ ۔اس گفتگو سے میں نے یہ انداز ہ لگا یا کہ الیکشن کے بعد وزیر اعظم میاں نوازشریف کی ٹیم میں ان دونوں حضرات کا کلیدی رول ہو گا ۔ قبل از یں خوشامدی کلچر صرف حکمران جماعتوں تک محدود تھا لیکن اب بد قسمتی سے پی ٹی آئی سمیت قر یبا ً سب ہی سیا سی جما عتوں میں لیڈروں کی تعریف وتوصیف کے ڈو نگرے بر سانے کا کلچر سر ایت کر چکا ہے۔
تاہم پر ویز رشید کو یہ کریڈٹ ضرور جا تا ہے کہ 1999ء میں پرویز مشرف کے 'کُو‘ کے بعدجہاں میاں نوازشر یف کے اکثر نو رتن تتربترہو گئے وہاں پر ویز رشید نے ما ر بھی کھا ئی ،جلا وطنی بھی کا ٹی لیکن ان کے پائے استقامت میں ذرا سی بھی لغزش نہیں آ ئی۔جہاں تک خان صاحب کے پی ٹی وی پر قوم سے خطاب کر نے کے مطالبے کا تعلق تھا یہ خاصا لا یعنی تھا۔گز شتہ روز لندن میں مقیم بی بی سی اُردو کے مدا رالمہام ثقلین امام نے فیس بک پر اس را ئے کا اظہا ر کیا کہ وہ کونسا قا عدہ اور قانون ہے جس کے تحت صرف صدر اور وزیر اعظم کو قومی نشریاتی اداروں پر آ کر اپنے خا ندان کے آف شور کمپنیوں کے معاملا ت پر قوم سے خطاب کر نے کا حق حا صل ہے؟جبکہ ملک کی تیسری بڑی سیا سی جماعت کے سر برا ہ عمران خان کو اس حق سے محروم رکھا جائے ۔ثقلین امام کے خیال میں خان صاحب کو پی ٹی وی پر خطاب کی اجا زت ملنی چا ہیے تھی کیونکہ قومی ادارے کسی ایک جما عت کی ملکیت نہیں ہیں،ثقلین امام نے میرے اس استفسار پر کہ بی بی سی کے کیا قواعد وضوابط ہیں ،انکشا ف کیا کہ بادشاہ یا ملکہ کے سوا کسی کو بی بی سی پر قوم سے خطاب کرنے کی روایت موجود نہیں ہے ‘لیکن تسلیم کیا کہ حا لت جنگ یا غیر معمو لی حالا ت میں وزرائے اعظم بھی خطاب کر تے رہے ہیں ۔1934ء میں گر ینڈڈپر یشن کے مو قع پر رمزے مکڈ ونلڈنے خطاب کیا اور1939 ء میںچیمبرلین نے جر منی پر اعلان جنگ کے حوالے سے خطاب کیا، 1945ء میں چر چل نے دوسری جنگ عظیم کے خا تمے کا اعلان ریڈیو خطاب کے ذریعے کیا ۔ 1969ء میں ما ر گر یٹ تھیچراور2003ء میں ٹو نی بلیئرنے بھی خطاب کیا ۔اس لحا ظ سے اس بات پر تو بحث ہو سکتی ہے کہ پی ٹی وی کو تما م رہنما ؤں کو کوریج دینی چاہیے تا ہم قوم سے خطا ب کا معا ملہ سربراہان مملکت و
حکومت تک ہی محدود رہ سکتا ہے۔بہر حال خا ن صاحب کی اس لحا ظ سے بھر پو ر تشفی ہو گئی کہ انھوں نے تمام چینلز پر قوم سے خطاب کر ڈا لااور اس طرح انھیں پی ٹی وی سے کئی گنا زیا دہ کو ریج مل گئی۔لگتا ہے کہ پی ٹی آ ئی کے سر برا ہ نے پاناما لیکس کے ایشو کو آ گے لے جا کر میاں نو از شر یف کا مکو ٹھپنے کا مصمم ارادہ کر لیا ہے ۔ یہ درست ہے کہ پاناما لیکس میں نا مزد لو گو ں میںمیاں صاحب کے صاحبزادوں اور صاحبزادی کا نام شامل ہے ‘لیکن ان کا اپنا نام شامل نہیں ہے۔ تا ہم ان پر سیاسی اور اخلا قی دبا ؤ بڑ ھتا جارہا ہے ۔ پا رلیمنٹ کے مشتر کہ اجلاس میں سپیکر ایا ز صادق کی محض اس رو لنگ سے کہ مشتر کہ اجلا س میں اس معاملے پر بحث نہیں ہو سکتی ،طو فان نہیں تھمے گا ۔ دنیا بھر میں اس معا ملے پر ہا ہا کا ر مچی ہو ئی ہے، خو د بر طا نوی وزیر اعظم ڈیوڈکیمر ون اپنے ٹیکس ریٹرنزافشا کر نے کے باوجو د مشکل میں پھنسے ہوئے ہیں۔ آئس لینڈ کے وزیر اعظم سگمنڈ رگن لاگسن مستعفی ہو چکے ہیں ۔ یوکرا ئن کے وزیراعظم ارسنی یاتسنک کی بھی چھٹی ہو گئی ہے ۔پاناما لیکس بحران کی وجہ سے ہی مالٹا میں بھی وزیر اعظم جوزف سکاٹ کی حکومت ڈگمگا رہی ہے ‘ لہٰذا گو نگلو ؤں سے مٹی جھا ڑنے سے کام نہیں چلے گا ۔ ظا ہر ہے کہ میاں صا حب ،عمران خان ، شیخ رشید اورمیڈ یا پنڈتوں کے کہنے پر اپنے عہدے سے مستعفی کیونکر ہو نگے ‘ لیکن اس معاملے کی چھان بین اور ایسے معاملا ت میںآئندہ کے لا ئحہ عمل کو طے کر نے کے لیے بااعتبار اور با اختیا ر عدالتی کمیشن فو ری طور پر بنا دینا چا ہیے ۔ اس سے کم پر قوم کی تشفی نہیں ہوگی ، ویسے بھی کچھ لو گوں کو یہ شکایت ہے کہ قوم بے حس ہو چکی ہے اور کسی بھی معا ملے پر سڑ کو ں پر آنے کو تیا ر نہیں ہو تی۔لیکن جس انداز اور تعداد میں عوام آئس لینڈ کے دارالحکومت میں نکلے اس کے نتیجے میںوہاں کے وزیراعظم کو مستعفی ہونا پڑا۔اگر اسی طر ح عوام پرامن طور پر یہاںبا ہر نکل آئے تو میاںنواز شر یف کے پاس مستعفی ہو نے کے سوا کوئی آپشن نہیں ہو گا اور اقتداراپنے کسی دست راست جو برادرخورد شہباز شریف ہی ہو سکتے ہیں ‘کے حوالے کرنا پڑے گا۔
سی این این کے تجز یہ کا رفر ید زکر یا نے اپنے پر وگرام میںیہ انکشا ف کیا ہے کہ آ ئس لینڈ کی صرف 6 فیصد آ با دی اس ایشو پر سڑ کو ں پر آ ئی تو وزیر اعظم کو گھر کا منہ دیکھنا پڑ گیا ۔اسی تناسب سے اگرچین میں عوام با ہر نکلیں تو ان کی تعداد نو کروڑ کے لگ بھگ ہو گی اور وطن عزیز کے تناسب پر غور کریں تو ایک کر وڑکے قریب لو گ سڑکو ں پر آ ئیں گے‘ لیکن پاکستان میں تو ابھی تک چڑیا بھی نہیں پھڑکی کیو نکہ غربت ،پسما ندگی اور نیم خو اندگی کے باعث پاناما لیکس ان لو گو ں کے فہم سے ہی با ہر ہے اور انہیں یہ بھی پتہ ہے کہ قریباً تمام سیاستدان ما ل بنا نے پر ہی لگے ہو ئے ہیں نیز یہ کہ کم ازکم وطن عزیز میں سیاست اور اخلاقیات کا دور کا بھی واسطہ نہیں ہے ۔