"ANC" (space) message & send to 7575

زرداری ماڈل.....؟

میاںنواز شریف 2018 ء تک بلکہ اس کے بعد بھی اپوزیشن کو صبر کرنے کی تلقین کر رہے ہیں لیکن' کون جیتا ہے تیری زلف کے سر ہونے تک‘۔خان صاحب اور شیخ رشید احمد تو بہت جلدی میں لگتے ہیں ۔خیال تھا کہ پیر کو برادرم اعتزازاحسن کی اقامت گاہ پر' پاناما لیکس‘ پر مشترکہ لائحہ عمل طے کرنے کیلئے اپوزیشن جماعتو ں کے درمیان نواز شریف سے مستعفی ہونے کے مطالبے اور بالخصوص ٹی او آرز پر اتفاق رائے ہو جائیگا ۔شاید عمران خان کی خواہش تو یہی ہو گی کہ اجلاس سے ہی اٹھ کر تمام اپوزیشن جماعتیں رائے ونڈ کی طرف مارچ شروع کردیں لیکن اس روز نواز شریف سے استعفیٰ مانگنے کے بارے میں اتفاق رائے نہ ہو پایا اور بات اگلے روز پر ڈال دی گئی۔یقیناً یہ میاں نواز شریف کی بہت بڑی ناکامی ہے کہ تمام اپوزیشن جماعتیں اپنے جملہ اختلافات اور تضادات کے باوجود ان کے خلاف صف آرا ہو گئی ہیں۔پارلیمنٹ میں تو میاں نواز شریف کیلئے ستوں خیراں ہیں کیونکہ انہیںوہاں تمام اپوزیشن جماعتوں کے مقابلے میں عددی اکثریت حاصل ہے۔فوج کا بھی ان کو کان سے پکڑ کر باہر نکال کر خود اقتدار پر قبضہ کرنے کا کوئی ارادہ نہیں لگتا۔لیکن میاں صاحب کے گزشتہ تین برس کے دوران ملک میں دودھ کی نہریں بہانے کے تمام تر دعوؤں کے باوجود انہیں ٹھنڈے دل سے اس بات پر غور کرنا چاہیے کہ انہوں نے کس طرح سب اپوزیشن جماعتوں کو ناراض کر دیا ہے۔جہاں تک خان صاحب اور ان کے جیالوں اور شیخ رشید کا تعلق ہے یہ تو روز اول سے ہی ہر جائز اور ناجائز طریقے سے میاں نواز شریف کی چھٹی کرانے کے درپے ہیں لیکن آصف علی زداری توجمہوریت اور اپنے مفاد کی خاطر ہی سہی ،میاں صاحب کو فرینڈلی اپوزیشن فراہم کر رہے تھے۔
وفاقی وزیر اطلاعات پرویز رشید کا کہنا ہے کہ زرداری صاحب نواز شریف کا اقتدار بچانے نہیں بلکہ جمہوریت کی خاطر 2014 ء کے عمران خان اور طاہرالقادری کے دھرنے کے دوران میاں نواز شریف کیساتھ کھڑے تھے لہٰذا وہ کہتے ہیں کہ پیپلزپارٹی نے اس وقت نواز لیگ پر کوئی احسان نہیں کیا۔میاں صاحب کے اس' رات گئی بات گئی‘ کے رویے نے انہیں آج اس مقام پرلا کھڑ اکیاہے جہاں وہ قریباً ایک بند گلی میں محبوس ہو کر رہ گئے ہیں۔مسئلہ محض 'پاناما لیکس‘ کا نہیں بلکہ ان کے اور ان کے حواریوں کے طرز سیاست اور سیاسی رویے کا ہے۔میاں صاحب نے اپنے طرز حکمرانی کی بلیو بک میں سے رواداری اور برابری کی بنیاد پر اپنے ساتھی سیاستدانوں سے تال میل کا سلسلہ بہت پہلے ہی ترک کر دیا تھا اس میں اپوزیشن توشامل ہے ہی، خود ان کے سیاسی حواری اور پارٹی کے ارکان بھی اس رویے سے شاکی نظر آتے ہیں۔پارلیمنٹ سے غیر حاضری،کابینہ کے اجلاس نہ بلانا،سیاستدانوں سے ملاقاتیں نہ کرنا اس بیماری کی علامات ہیں جسے' برن آؤٹ‘ BURN OUTبھی کہا جاتا ہے،جیسا کہ میاں صاحب کو حکومت کرنے سے کوئی دلچسپی ہی نہ ہو لیکن دوسری طرف اقتدار کے مزے بھی لوٹے جائیں۔وہ گزشتہ تین برس کے دوران بیس سے زائد مرتبہ لندن گئے جو کہ ان کا من پسند شہر ہے۔یہ درست ہے کہ بجلی اور گیس کے منصوبے،سڑکوں اور موٹر ویز کا جال بچھانے اور دہشتگردی کے خاتمے کے حوالے سے فوج کے ساتھ بھرپور تعاون ،کراچی کی روشنیاں بحال کرنا ان کے کارہائے نمایاں ہیں لیکن ان سب کے باوجود اب وہ اتنی مشکل میں کیوں ہیں؟۔تاریخ کا جائزہ لیں تو یہ بات عیاں ہو جاتی ہے کہ صرف ترقیاتی منصوبے ہی کامیابی کی کنجی نہیں ہیں۔جب بھارت میں اٹل بہاری واجپائی کی حکومت تھی اس وقت2004 ء کے انتخابات میں بی جے پی نے' انڈیا شائننگ‘ کا نعرہ لگایا تھااوربی جے پی کی حکومت نے اقتصادی شعبے میں بھارت کو کہیں سے کہیں پہنچا دیا تھا لیکن اس کے باوجود وہ انتخابات میں شکست سے دوچار ہوگئی تھی۔انگریز کے دور میں بھی برصغیر میں بڑی ترقی ہوئی ،کئی سڑکیں ،بیراج،انفراسٹرکچر انہی کی دین ہے لیکن آزادی کے متوالے برصغیر کے عوام نے تحریک چلا کر انہیں یہاں سے جانے پر مجبور کر دیا تھا۔
اپوزیشن کے جملہ تضادات کی بنا پر شاید میاں نواز شریف اس مرتبہ بھی بچ جائیں اور عمران خان کا دیگر سیاسی جماعتوں سے اتحاد کا میاں صاحب کو نقصان کے بجائے فائدہ ہی ہو جائے کیونکہ مجموعی طور پر جسد سیاست میں زیادہ تر فریق کسی صورت بھی یہ نہیں چاہتے کہ جمہوری نظام ڈی ریل ہو۔اور اگر عمران خان اپوزیشن کو ساتھ لیکر چلتے ہیں تو انہیں بھی صبر کرنا پڑیگا۔ویسے بھی انہیں نواز شریف کی چھٹی کرانے کی تحریک چلانے کے علاوہ اپنی پارٹی کے امور پر بھی توجہ دینی چاہیے۔پارٹی کے سینئرارکان کے درمیان اگر نوبت تو تکار سے ہاتھا پائی تک پہنچ گئی ہوتو یہ بات پی ٹی آئی کیلئے اگلے انتخابات میں نیک شگون نہیں ہو گی۔
اس وقت عمران خان سے بڑا کوئی 'کراؤڈ پلر‘ سیاستدان نہیں ۔وہ بال تو 'ڈی‘ میں ڈال دیتے ہیںمگر ان سے گول نہیں ہو پاتا۔عمران خان نے اپنے لاہور کے جلسے میں شعلہ نوائی کے باوجود اپنی ترجیحات کھلی رکھی ہیں۔یقیناً عدالتی کمیشن اور ٹی او آرز بننے کے بعد میاں نواز شریف کو سب سے پہلے اپنے اور اپنے خاندان کی صفائی پیش کرنی چاہیے کیونکہ وہ وزیر اعظم ہیں،باقی سب کا بھی احتساب ہونا چاہیے لیکن اس حوالے سے سیاسی،آئینی اور اخلاقی طور پر حکمرانوں اور ان کی جماعت پر زیادہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔حکومت نے یہ عندیہ دیا ہے کہ وہ ٹی او آرز کے حوالے سے اپوزیشن سے مذاکرات کیلئے تیار ہے ،یہ خوش آئند تبدیلی ہے کیونکہ پہلے تو وزیر قانون زاہد حامد نے اعلان کیا تھا کہ حکومت نے جو ٹی اوآرز بنائے ہیں وہ حرف آخر ہیں اور ان میں کوئی ترمیم نہیں ہو سکتی۔دوسری طرف حکومتی زعما کی ذاتیات اور گالی گلوچ کی سیاست کی حکمت عملی پر بھی نظر ثانی کی ضرورت ہے۔گزشتہ روز سے تو مسلم لیگ (ن) کی لیڈر شپ،وزیر اطلاعات پرویز رشید،رکن قومی اسمبلی طلال چودھری کے علاوہ خاتون ارکان اسمبلی مریم اورنگزیب،مائزہ حمید اور انوشہ رحمان بھی اس سنگ باری میں شامل ہو چکی ہیں۔دونوں طرف کی اس گالی گلوچ سے صرف سیاستدان بدنام ہورہے ہیں جمہوریت کا کوئی فائدہ نہیں ہورہا۔بعض اوقات لگتا ہے کہ دونوں فریق ایک دوسرے پر جو الزامات عائد کر رہے ہیں ان میں سے شاید زیادہ تر درست ہوں۔
میاں نواز شریف کا یہ بیان کہ اگر کمیشن نے انہیں ذمہ دار ٹھہرایا تو وہ گھر چلے جائینگے اگرچہ خان صاحب انہیں جیل بھیجنا چاہتے ہیں ،بہتر یہی ہو گا کہ سیاستدانوں کو جیل بھیجنے کی روایت کا از سر نو احیا کرنے کی بات نہ کی جائے لیکن 'پاناما لیکس دنگل‘ کا جو بھی نتیجہ نکلے میاںصاحب کو اس سے کچھ مثبت سبق سیکھنے چاہئیں۔بہتر تو یہ ہو گا کہ اب وہ کچھ تھک سے گئے ہیں انہیں چاہیے کہ اس بات پر سنجیدگی سے غور کریں کہ ان کی میلان طبع اور صحت کے مطابق انہیں زرداری ماڈل کے تحت صدارت کا منصب سنبھال کر کسی قابل اعتماد سینئر پارٹی رکن کو وزیر اعظم نامزد کر دینا چاہیے لیکن شاید ایسا کرنا ان کیلئے ناممکن ہو اس لئے کہ اس ماڈل کیلئے انہیں کچھ لوگوں پر تو بھرپور اعتماد کرنا پڑے گا۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں