"ANC" (space) message & send to 7575

اللہ خیر کرے!

میاں صاحب نے پھر یہ تڑی لگا دی ہے کہ ''میں ڈکٹیشن نہیں لو ں گا‘‘۔اللہ خیر کرے 1993ء میں بھی بطور وزیر اعظم انہوں نے قوم سے خطاب کرتے ہوئے ڈکٹیشن نہ لینے کے عزم کا اظہار کیا تھا اور یہ اعلان ان کے اقتدار کے خاتمے پر منتج ہوا اور آرٹیکل 58 ٹو بی سے لیس صدر غلام اسحاق خان نے انہیں برطرف کر کے گھر کا راستہ دکھایا تھا۔ بظاہر اب ایسی صورتحال نہیں ہے، میاں صاحب 'دیس نکالے‘ کے بعد دو مرتبہ وزیر اعظم بنے اور جلا وطنی کا مزہ بھی چکھ چکے ہیں امید یہ کرنی چاہیے کہ انہوں نے حالات کے تھپیڑے کھا کر کچھ تو بردباری سیکھی ہو گی لیکن انگریزی کی یہ کہاوت 'حالات کتنے بھی بدلیں ویسے کے ویسے ہی رہتے ہیں‘ ،یہاں میاں صاحب پر خاصی منطبق ہوتی ہے۔یہ درست ہے کہ اب ممنون حسین ایوان صدر میں متمکن ہیں ،وہ وزیر اعظم کو ڈسمس کرنے کے آرٹیکل 58 ٹو بی سے تہی دست ہونے کی وجہ سے میاں صاحب سے اظہار ممنونیت کی مالا جپتے رہتے ہیں۔بعض اخباری اطلاعات کے مطابق وہ ان دنوں عارضہ قلب میں مبتلا ہونے کی وجہ سے علیل ہیں،لگتا ہے کہ وہ ایوان صدر میں فارغ بیٹھ کر مکھیاں مارنے کے علاوہ اپنی روایتی خوش خوراکی سے محظوظ ہوتے ہوئے ہی صحت خراب کر بیٹھے ہیں، اللہ انہیں صحت دے!
لیکن دوسری طرف 1993ء اور2016ء میں سب سے بڑا فرق یہ ہے کہ جنرل وحید کاکڑ کی جگہ جنرل راحیل شریف آرمی چیف ہیں۔ 1993ء میں جنرل آصف نواز جنجوعہ کے اچانک انتقال کی وجہ سے جنرل وحید کاکڑ نئے نئے آرمی چیف بنے تھے ، اب معاملہ قدرے مختلف ہے کیونکہ جنرل راحیل شریف قریباًچھ ماہ بعد ریٹائر ہو رہے ہیں لیکن اس کا مطلب یہ بھی نہیں ہے کہ پاک فوج بے دست و پا ہے۔پاک فوج کی کمان سنبھالے ہوئے اس کا سربراہ ہمہ وقت با اختیار اور فعال ہوتا ہے۔جنرل راحیل شریف کے دور میں ہی دہشتگردی پر پہلی بار آہنی ہاتھ ڈالا گیا اور دہشتگردی کے واقعات میں خاصی حد تک کمی ہوئی نیز کراچی کی روشنیاں بھی بحال ہو گئیں۔دوسری طرف بجلی کے پراجیکٹس،سڑکوں کے جال بچھانے اور گیس کی درآمد کے باوجود جب تک ان پراجیکٹس کے ثمرات عوام تک نہیں پہنچیں گے میاں صاحب کے گڈ گورننس کے دعوے کھوکھلے ہی لگیں گے۔ آج کی فوجی قیادت اقتدار پر قبضہ کرنے میں بظاہر دلچسپی نہیں رکھتی۔ جنرل اشفاق پرویز کیانی جب آرمی چیف بنے تو انہوں نے اس ڈاکٹرائن پر عملدرآمد شروع کیا تھا کہ حکومت پر دباؤ تو رکھا جائے لیکن اس کی چھٹی نہ کرائی جائے، چاہے وہ ریمنڈ ڈیوس کا واقعہ ہو یا ایبٹ آباد میں اسامہ بن لادن کی ہلاکت،سلالہ پوسٹ پر حملہ ہو یا میمو گیٹ۔ اس پر مستزاد یہ کہ پیپلز پارٹی کی نا اہلی اور مبینہ کرپشن کی داستانوں کے علاوہ چیف جسٹس افتخار محمد چودھری اور اس وقت کے ڈی جی کی آئی ایس آئی جنرل شجاع پاشا نے حکومت کی ناک میں دم کئے رکھا اور جنرل اشفاق پرویز کیانی اپنی مدت ملازمت میں تین سال کی توسیع لیکر 'کانے‘ ہو گئے۔جنرل راحیل شریف کا معاملہ اس لحاظ سے قطعاً مختلف ہے کیونکہ وہ مدت ملازمت میں توسیع نہ لینے کادو ٹوک الفاظ میں اعلان کر چکے ہیں ۔ان کے پیشرو میڈیا پرسنز کے ساتھ طویل ملاقاتوں کے رسیا تھے جبکہ جنرل راحیل شریف اپنے ڈی جی آئی ایس پی آر کی ٹوئٹس اور پریس ریلیزوں کے ذریعے ہی کبھی کبھی اپنی رائے کا اظہار کرتے رہتے ہیں ۔جنرل صاحب ایک سیدھے سادے سولجر ہیں لیکن اتنے بھی سادہ نہیں،ملکی اور خطے کے معاملات میںوہ فوج کا نقطہ نگاہ بڑے سشتہ اوردو ٹوک انداز میں میاں صاحب اور عوام پر واضح کردیتے ہیں۔جنرل راحیل شریف کے حالیہ بیان کہ ' بے لاگ اور بلا امتیاز احتساب وقت کی ضرورت ہے اور اس کے بغیر دہشتگردی پر قابو پانا ناممکن ہے‘ کے بعد فوج میں کرپشن کے الزام میں دو جرنیلوں سمیت چھ افسروں کی چھٹی کرا دی گئی۔اس کے بعد میاں صاحب کو تو چپ سی لگ گئی ہے وہ یہ سمجھتے ہیں کہ اس بیان سے ان پر دباؤ ڈالا جا رہا ہے۔فوج کو غالباً یہ بھی گلہ ہے کہ بھارتی ایجنسی 'را‘ کے افسر کل بھوشن یادیو کی گرفتاری کے معاملے میں حکومتی زعما کا رد عمل پھسپھساسا رہا جس انداز سے بھارت کے خلاف آواز اٹھانی چاہیے تھی نہیں اٹھائی گئی اور پھر جنوبی پنجاب میں فوجی آپریشن نے بھی سویلین اور فوجی قیادت میں خلیج بڑھانے کا کام کیا۔اب صورتحال یہ ہے کہ میاں صاحب فوجی قیادت سے کچھ روٹھے ہوئے سے ہیں۔
امریکہ نے ایف سولہ طیارے دینے سے انکار کر کے حقانی نیٹ ورک کے خلاف کارروائی اور سی آئی اے کے ایجنٹ شکیل آفریدی کو ان کے حوالے کرنے کیلئے پاکستان پر دباؤبڑھا دیا ہے،دوسری طرف افغانستان کے ساتھ تعلقات بھی کشیدہ ہو گئے ہیں،یہ تمام معاملات اس بات کے متقاضی ہیں کہ سیاسی و فوجی قیادت مل کر کوئی حکمت عملی اختیار کریں لیکن ایک ماہ سے زیادہ عرصہ تک وزیر اعظم اور آرمی چیف کی سرے سے ملاقات ہی نہیں ہوئی تھی۔بعض اطلاعات کے مطابق میاں شہباز شریف اپنے بڑے بھائی کو مشورہ دے رہے تھے کہ برف کو پگھلائیں اور اس مقصد کیلئے میاں صاحب آرمی چیف کو کھانے پر مدعو کریں،میاں صاحب نے اس مشورے پر صاد کیا اور گزشتہ روز سویلین اور آرمی چیف کی ملاقات ہو گئی۔ویسے بھی سویلین اور خاکی کے درمیان کشیدگی میںاضافہ ماضی کی طرح میاں صاحب کیلئے گھاٹے کا سودا ثابت ہو گا۔ 
مسلم لیگ (ن)کے کار پردازوں کو ٹی اوآرز پر کج بحثی کے بجائے اپوزیشن سے مذاکرات کیلئے ٹیم بنا دینی چاہیے اور اس مذاکراتی عمل میں اپوزیشن کو اپنے نقطہ نظر پر قائل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔'پاناما لیکس‘ ایک اخلاقی مسئلہ بھی ہے تاہم اسے استعمال کر کے 'گیٹ نواز‘تحریک کی بنیاد رکھنا بھی انصاف پر مبنی نہیں ہے۔'پاناما لیکس ‘میں نئے نام آنے کے بعد یہ بات اظہر من الشمس ہو گئی ہے کہ اس حمام میں سب ننگے ہیں اور کرپشن کی ایک چونکا دینے والی مثال بلوچستان کے سیکرٹری خزانہ مشتاق رئیسانی کی ہے جن کے گھر سے قریباً 67 کروڑ روپے کی ملکی اور غیر ملکی کرنسی سے بھرے سوٹ کیس اور چار کروڑ کا سونا ملا ہے ۔اس انکشاف سے بلوچستان کی حد تک بیورو کریسی اور برسر اقتدار سیاستدانوں کے گٹھ جوڑ کا بھانڈا بھی بیچ چوراہے پھوٹ گیا ہے،بدنام سیاستدان ہیں لیکن در پردہ بیوروکریسی مال اینٹھ رہی ہے۔اب ضرورت اس امر کی ہے کہ چاہے قرضے معاف کرانے والے ہوں ، کک بیکس یا کمیشن لینے والے ہوں ،محترمہ بے نظیر بھٹو شہید اور میاں نواز شریف کے درمیان ایک دہائی قبل احتساب کیلئے پارلیمانی باڈی بنانے کا جو معاہدہ طے پایا تھا اس پر عملدرآمد ہو جائے۔اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ فرماتے ہیں کہ وزیر اعظم پارلیمنٹ سے فرار چاہتے ہیں،ان کی بات خاصی حد تک درست ہے لیکن ان سے یہ سوال پوچھا جا سکتا ہے کہ پیپلزپارٹی نے اپنے پانچ سالہ طویل دور اقتدار میں احتساب اور شفافیت کے نظام کیلئے پارلیمنٹ میں کیا قانون سازی کی لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ موجودہ حکومت بھی ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھی رہے کیونکہ میاں صاحب اور ان کے وزرا پی پی پی کے برعکس اپنی پاک دامنی کے دعوے کرتے رہتے ہیں۔اب وقت آگیا ہے کہ شاہ محمود قریشی ہوں یا خورشید شاہ یا اسحاق ڈار انہیں مل کر نہ صرف 'پاناما لیکس‘ کے حوالے سے بلکہ احتساب اور شفافیت کے نظام کی بنیاد رکھنے کیلئے نتیجہ خیز مذاکرات کرنے چاہئیں ورنہ یہ عمومی تاثر کہ سب سیاستدان ہی کرپٹ ہیں، پختہ ترہوتا جائے گا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں