"ANC" (space) message & send to 7575

تماشا نہ ہوا۔۔۔۔!

میاں نواز شریف نے اپنے تئیں اپنے خاندان سے متعلق 'پاناما لیکس‘کا کچھا چٹھا بیان کر دیا لیکن لیڈر آف اپوزیشن سید خورشید شاہ کی قیادت میں حزب اختلاف حسب توقع مطمئن نہ ہوئی اور'دیکھنے ہم بھی گئے تھے پہ تماشا نہ ہوا‘ کے مترادف واک آؤٹ کر گئی۔ اپوزیشن نے بڑے صبر اور شریفانہ انداز سے میاں نواز شریف کی باتیں سنیں اور اس طرح یہ خدشہ نقش بر آب ثابت ہوا کہ میاں صاحب 81 روز بعد جب قومی اسمبلی میں تشریف لائیں گے تو ایوان 'گو نواز گو‘ کے نعروں سے گونج اٹھے گا۔ تاہم حزب اختلاف کی یہ توقع کہ ان کے شریفانہ انداز کے بدلے میں میاں نواز شریف اپنے خاندان کی لندن میں پراپرٹی کی ملکیت اور سرمایہ کاری کے ذرائع کے بارے میں اٹھائے گئے سات سوالات کے جوابات دیںگے، بر نہ آئی۔ نہ جانے اپوزیشن کو یہ غلط فہمی کیوں تھی کہ میاں صاحب ایسے سوالات جن کا بقول ان کے مقصد ہی انہیں کارنر کرنا ہے اور جو صرف ان کی ذات کو پھنسانے کے لئے پوچھے گئے ہیں کا جواب قومی اسمبلی میں دیںگے، بلکہ جس طرح انہوں نے کہا تھا کہ پالیسی بیان اسمبلی میں اور سوالوں کے جواب کمیشن میں دیںگے، ایسا ہی ہوا۔ میاں صاحب اپنے بیٹوں کی 'لوز بالز‘ کے برعکس بات دوسری طرف لے گئے۔ ان کا کہنا تھا کہ لندن کے محلات دبئی اور جدہ کی جلا وطنی میں لگائی گئی فیکٹریوں کی فروخت کی حق حلال کی کمائی سے خریدے گئے تھے۔ میاں صاحب کی تقریر بظاہر مدلل اور پر اعتماد انداز میں کی گئی۔ شاید ایک ماہ قبل جب 'پاناما گیٹ‘ منظر عام پر آیا تھا تو میاں صاحب اگر قوم سے بودا اور اکھڑا ہوا خطاب نہ کرتے اور پارلیمنٹ سے ہی رجوع کرتے تو معاملہ یہاں تک نہ پہنچتا۔
سیاست میں ٹائمنگ کلیدی اہمیت کی حامل ہوتی ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف جب 1977ء میں مشترکہ اپوزیشن نے پاکستان قومی اتحاد بنا کر تحریک چلائی تو بعد از خرابی بسیار حزب اختلاف کے قریباً تمام مطالبات مانتے چلے گئے، حتیٰ کہ مذاکرات کی میز پر بھی آ گئے لیکن اس وقت چونکہ حزب اختلاف کے بعض لیڈرز جن میں نواب زادہ نصراللہ خان، ایئر مارشل اصغر خان اور ولی خان پیش پیش تھے، ذوالفقار علی بھٹوسے ہر حالت میں چھٹکارا حاصل کرنا چاہتے تھے، لہٰذا سڑکوں پر تحریک جاری رہی اور ان میں سے بعض لیڈروں نے تو اس وقت کے سازشی آرمی چیف جنرل ضیاء الحق سے ملی بھگت بھی کر رکھی تھی اور بالآخر وہی ہوا جس کا خدشہ تھا کہ جمہوریت کی بساط لپیٹ دی گئی۔ ضیاء الحق نے اقتدار پر قبضہ کر لیا اور پاکستان قومی اتحاد کابینہ میں شامل ہو گیا۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کے بعد جنرل ضیاء الحق جو اسلام کے نام پر طویل آمریت کا پروگرام بنا چکا تھا نے پی این اے کو استعمال کر کے ٹشو پیپر کی طرح پھینک دیا۔
آج صورت حال اتنی گمبھیر نہیں ہے کیونکہ کوئی بھی سیاسی جماعت بوٹوں کی چاپ سننے کی متمنی نہیں ہے، لیکن اگر بوٹ آ بھی جائیں تو بعض سیاسی جماعتوں بالخصوص تحریک انصاف کو کوئی اعتراض نہیں ہوگا۔ پیپلز پارٹی کا معاملہ قدرے مختلف ہے، یہ جماعت اپنی تمام تر خرابیوں اورکوتاہیوں کے باوجود 1977ء کے بعد کبھی کسی ڈکٹیٹر کی گود میں نہیں بیٹھی، اس بنا پر یہ بات ناقابل فہم ہے کہ خورشید شاہ یہ کہہ کر کہ وزیر اعظم نے سات سے سترسوالات کر دیے ہیں، مشترکہ اپوزیشن کو ساتھ لے کر واک آؤٹ کیوں کر گئے؟ قومی اسمبلی کا ایوان جو ارکان کے لئے مقدس سمجھا جاتا ہے، جس کے متعلق اپوزیشن کا بھی کہنا ہے کہ میاں نواز شریف اور ان کے وزرا ایوان میں تشریف لانے سے گریز کرتے ہیں تو پھر وزیر اعظم کے خطاب کے بعد ان کا واک آؤٹ چہ معنی دارد ؟ چاہیے تو یہ تھا کہ قومی اسمبلی کے اس اہم اجلاس کی تمام ٹی وی چینلز پر براہ راست نشریات کا فائدہ اٹھا کر قائد حزب اختلاف اور عمران خان صراحت کے ساتھ اپنا نقطہ نگاہ پیش کرتے، بالخصوص خان صاحب کے لئے یہ اچھا موقع تھا کہ وہ اپنی آف شور کمپنی کے بارے میں وضاحت پارلیمنٹ میں ہی کر دیتے، لیکن انہوں نے ایسا کرنا گوارا نہیں کیا۔ نہ جانے ہمارے ارکان اسمبلی کو یہ بات سمجھ کیوں نہیں آتی کہ قومی اسمبلی کے باہر مختلف ٹی وی چینلز کے کیمرے ایوان کی کارروائی کا متبادل نہیں ہو سکتے۔ میاں نواز شریف کی صاحبزادی محترمہ مریم نواز کی یہ ٹویٹ کہ وزیر اعظم کی وضاحت توقعات سے زیادہ بہتر تھی، انہوں نے تمام سوالوں کے جوابات دیے، ان کی تقریر سے اپوزیشن لاجواب ہو گئی اور بائیکاٹ کر کے چلی گئی، بھی مبنی بر حقائق نہیں ہے۔ اپوزیشن کو مطمئن کرنا اور آن بورڈ لینا کسی بھی حکومت کا اولین فریضہ ہوتا ہے، تاہم اس بارے میں حزب اختلاف کو بھی معقول رویہ اختیار کرنا چاہیے۔ میاں صاحب کی تقریر میں یہ بات تو واضح ہو گئی کہ ان کے خاندان والے قسمت کے اتنے دھنی ہیں کہ اندرون ملک کوئی کاروبار کریں یا بیرون ملک؛ وہ دبئی اورجدہ میں فیکٹریاں لگائیں، لندن میں املاک خریدیں، پاکستان میں سٹیل و شوگرکی ملز لگائیں یا پولٹری کا کاروبار کریں وہ جس چیز کو ہاتھ لگاتے ہیں سونے کی بن جاتی ہے! کاش میاں صاحب کے خاندان کی طرح پاکستان کے دوسرے شہری بھی اتنے ہی خوش قسمت اور ہونہار ثابت ہوں۔
میاں صاحب کی تقریر کے دوسرے حصے کا تعلق بالواسطہ طور پر سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کے جواب سے تھا۔ میاں صاحب نے 'پاناما لیکس‘کی تحقیقات کے لئے ٹی او آرز کی تشکیل کے لئے سپیکر کی سربراہی میں پارلیمانی لیڈروں پر مشتمل کمیٹی کی تشکیل کی پیشکش کی جو ان پر نظر ثانی کرے گی۔کیا ہی اچھا ہوتا میاں صاحب اپنی تقریر میں اس حوالے سے حکومتی نمائندوں کا اعلان کر دیتے۔ اچھا ہوا کہ اپوزیشن نے اس پیشکش کو بھی رد نہیںکیا اور مذاکرات کے ذریعے قابل عمل ٹی اوآرز بنانے میں ممد و معاون ہو نے کا فیصلہ کیا ہے۔ ظاہر ہے مذاکرات کو کامیابی سے ہمکنار کرنے کے لئے فریقین کو لچکدار رویہ اپنانا پڑے گا۔ یقیناً ٹی اوآرز کا مقصد محض نواز شریف کی چھٹی کرانا نہیں ہونا چاہیے بلکہ اس کے ذریعے تمام سیاستدان جن کا نام 'پاناما لیکس‘میں منکشف ہوا ہے ،کی انکوائری ہونی چاہیے، لیکن دوسری طرف حکمران جماعت کا خیال ہے کہ ٹی او آرز کے لئے ایسا طریقہ وضع کر لیا جائے جو بالکل 'ٹوتھ لیس‘ ہو اور جس کی حیثیت تضیع اوقات سے زیادہ نہ ہو، لیکن یہ اپوزیشن کے لئے قابل قبول ہوگا نہ عدالت عظمیٰ کے لئے۔ ٹی او آرز قابل عمل اوریقیناً ان میں فیصلے کی مدت متعین ہونی چاہیے۔ میاں صاحب نے اپنے خطاب میں 2006ء میں ہونے والے چارٹر آف ڈیموکریسی جس پر محترمہ بے نظیر بھٹو کے دستخط ہیں کے تحت احتساب کاقانون بنانے کی پیشکش بھی کی ہے۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آج احتساب کے نام پر میاں نواز شریف کے خلاف سر گرم پیپلز پارٹی نے اپنے پانچ سالہ دور اقتدار میں چارٹر آف ڈیموکریسی کے تحت قانون بنانا تو کجا احتساب کا نام تک نہ لیا۔ موجودہ حکومت نے بھی اپنے تین سالہ دور میں اس جانب پیشرفت کرنے کے لئے قدم نہیں بڑھایا۔ اس حوالے سے ایک پارلیمانی کمیٹی پہلے ہی موجود ہے لیکن یہ محض کاغذوں پر ہی ہے، اب جبکہ میاں صاحب نے یہ معاملہ ایوان میں اٹھایا ہے تو اپوزیشن کو اس پیشکش سے فائدہ اٹھانا چاہیے۔
اپوزیشن اور حکومت کو تمام تر توجہ سیاسی محاذ آرائی بڑھانے کے بجائے عدالتی کمیشن کی تشکیل پر دینی چاہیے۔ اس حوالے سے جہاں اپوزیشن کو اپنے رویے پر نظر ثانی کرنا ہو گی وہاں میاں نواز شریف کو بھی اپنی ٹیم کو ہر روز میڈیا پر گالی گلوچ کرنے سے اجتناب کرنے کی ترغیب دینا ہو گی۔ میاں نواز شریف کے خطاب سے عین قبل ایوان کے باہر حمزہ شہباز کی عمران خان پر ذاتی نوعیت کی تنقید بے محل تھی،ایسی باتیں حمزہ کے والد کو تو سجتی ہیں لیکن انہیں نہیں۔ اس وقت میڈیا اور جسد سیاست میں شامل' پورس کے ہاتھی‘ 'پاناما گیٹ‘ کے حوالے سے جمہوری نظام کے لپٹنے کے خواب دیکھ رہے ہیں، اس سازش کو ناکام بنانے کے لئے حکومت اور اپوزیشن کے سنجیدہ عناصر کو کردار ادا کرنا چاہیے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں