"ANC" (space) message & send to 7575

حکمرانی کے جوہر بھی دکھائیں

مقام شکر ہے کہ 'پانا ماگیٹ‘ کی تحقیقات کے لیے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کی سر براہی میں کمشن کی تشکیل کے ٹی اوآرز بنانے پر حکومت اور اپوزیشن کے درمیان بالآخر سمجھوتہ ہو گیا۔ اس کا ایک مطلب تو یہ لیا جا سکتا ہے کہ حکمران جماعت کے علاوہ اپوزیشن جماعتیں بالخصوص میاں صاحب کے خلاف جد وجہد کے سرخیل عمران خان بھی پارلیمنٹ کی افادیت کے قائل ہو ہی گئے ہیں اور وہ سسٹم کو ڈی ریل کرنے کے لیے کسی تیسرے امپائرکا اب انتظار تو نہیںکر رہے، لیکن امپائر انگلی اٹھا بھی دے تو انھیںکوئی خاص فائدہ نہیں ہوگا۔ دوسری طرف اس تپتی گرمی میں سٹرکوں پر پالیٹکس بھی جاری ہے۔ میاں نواز شریف کو گلہ ہے کہ وہ سڑکیں بنا رہے ہیں اور ان کے مخالفین ان پر سفر کر رہے ہیں اور دھرنے دے رہے ہیں۔ اس ضمن میں خان صاحب کی حکمت عملی قابل فہم ہے کیو نکہ 'کر اؤڈ پُلر‘ ہونے کے معاملے میں کوئی سیاستدان ان کے قریب بھی نہیں پہنچ سکتا۔ جمعہ کو فیصل آباد کے جلسے میں انہوں نے پھر تڑی لگا دی کہ کوئی اپوزیشن جماعت ساتھ دے نہ دے ضرورت پڑی تو وہ اکیلے سڑکوں پر آ جائیںگے، لیکن بطور حکمران میاںنواز شریف اور ان کے حواریوںکو سیاسی موسم مزید گرمانے کے بجائے ٹھنڈی کر کے کھانی چاہیے، لیکن میاں صاحب بھی ادھر اُدھر جلسے کر رہے ہیں اور پرانے یا نئے ترقیاتی منصوبوں کے فیتے کاٹ رہے ہیں۔ ویسے اتنی 'کاڈ‘ نکا لنے کی میاں صاحب کی صحت بھی اجازت نہیں دیتی، امید ہے کہ بغرض علاج لندن روانہ ہونے کے بعد میاں صاحب کے عوامی رابطے کا یہ سلسلہ منقطع ہو جائے گا، ویسے بھی ماہ رمضان میں حکمران جماعت اور اپوزیشن دونوں کے لیے ایسی مہم جوئی ممکن نہیں ہوگی۔ ماہ رمضان تمام سیاسی جماعتوں بالخصوص نواز لیگ اور تحریک انصاف کے لیے معاملات پر ٹھنڈے دل سے غورکرنے کا موقع ہونا چاہیے۔ خان صاحب کی سیاست تو شتر بے مہارکی طر ح ہے۔ وہ اس بات پر بضد تھے کہ نواز شریف اسمبلی میں آئیں اور 'پاناما گیٹ‘ کے حوالے سے اپنی پوزیشن واضح کریں۔ جب نواز شریف نے گز شتہ سوموارکو اسمبلی آنے کا فیصلہ کر ہی لیا تو پی ٹی آ ئی کے سر براہ بھی ایوان میں موجود ہونے کے لیے بھاگے بھاگے لندن سے اسلام آباد پہنچے، لیکن میاں نواز شریف کی تقریر بڑے تحمل سے سننے کے بعد لیڈر آف اپوزیشن سید خورشید شاہ کے ان مختصر ریمارکس کے بعدکہ میاں نواز شریف نے اپوزیشن کے سات سوالوںکے جواب نہ دے کر70سوال کھڑے کر دیے ہیں، ایم کیو ایم سمیت تمام اپوزیشن واک آؤٹ کرگئی جس نے نہ صرف تحریک انصاف کی ذمہ دار لیڈر شپ بلکہ عمومی طور پر تجزیہ کاروں کو بھی حیران و ششدرکر دیا کہ خان صاحب کر کیا رہے ہیں۔ اسمبلی کے باہر خورشید شاہ میڈیا سے گفتگوکر رہے تھے توان کے ایک طرف شاہ محمود قریشی اور دوسری طرف شیخ رشید کھڑے تھے اور عمران خان پیچھے بھیگی بلی بنے ہو ئے تھے۔ ناقدین کے ذہنوں میں یقیناً یہ سوال ابھرا کہ عمران خان نے سیاست میں پیپلز پارٹی کی انگلی پکڑلی ہے۔ یہ انکشاف بھی دلچسپ ہے کہ شیریں مزاری فوری بائیکاٹ کے لیے پیش پیش تھیں۔ خورشید شاہ کے بقول وہ ایوان میں ہی بار بارکہہ رہی تھیںکہ جلدی باہر چلو۔ خان صاحب کو مزاری جیسے اپنے نادان مشیروں سے بچنا چاہیے جو حادثاتی طور پر سیاست میں تو آگئے ہیں، لیکن سیاسی سوجھ بوجھ سے یکسر عاری ہیں۔ 
اس وقت سب سے دلچسپ سیاست پیپلز پارٹی کی ہے جس کے شریک چیئر مین آصف علی زرداری لندن میں بیٹھے اپنے پتے کمال مہارت سے کھیل رہے ہیں اس کے باوجود کہ گزشتہ عام انتخابات میں سندھ کے سوا باقی صوبوں میں پیپلز پارٹی کا قریبا ً صفایا ہو چکا ہے، لیکن قومی اسمبلی اور سینیٹ میں اپوزیشن کی لیڈرشپ اسی جماعت کے پاس ہے۔ شطرنج کے اچھے کھلاڑی کی طرح آصف علی زرداری ہارڈ لائن دینے کے لیے اپنے مہرے چوہدری اعتزاز احسن کو آگے کر دیتے ہیں اور نسبتا ً نرم رویے کے لیے خورشید شاہ کو۔ دونوں صورتوں میں میاں نواز شریف پر دباؤ بڑھ جاتا ہے۔ میاں 
صاحب بھی زرداری کی زلف کے اسیر بننا چاہتے ہیں لیکن آصف علی زرداری مشکل وقت میں ساتھ چھوڑ جانے کی وجہ سے میاں صاحب سے ناراض ہیں۔ جہاں تک برخوردار بلاول بھٹو کا تعلق ہے وہ شریفین پر تابڑ توڑ حملے کرتے ہیں لیکن تا حال اختیارات ان کے ابا جان کے پاس ہی ہیں اور اب نوبت بہ ایں جاں رسیدکہ میاں صاحب مع اہل وعیال ہفتے کے روز اچانک سابق وزیر اعظم سید یوسف رضا گیلانی کی اقامتگاہ پر پہنچ گئے۔ جی ہاں، یہ وہی یوسف رضا گیلا نی ہیں جن کی چھٹی کروانے کے لیے بطور اپوزیشن لیڈر میاں صاحب نے کو ئی دقیقہ فروگزاشت نہیںکیا تھا۔ اب بھی ان پر میاں صاحب کے دور اقتدار میں بننے والے مقدمات کی بھر مار ہے۔ بظاہر میاں صاحب کا مقصد گیلانی صاحب کے بیٹے علی حیدرگیلانی کی بازیابی پر مبارکباد دینا تھا لیکن اصل مدعا 'پاناما گیٹ‘ کے حوالے سے پیپلز پارٹی کی قیادت کو رام کرنا تھا کیونکہ زرداری صاحب ویسے تو میاں صاحب سے ملاقات کرنے سے مسلسل انکاری ہیں لیکن بیک چینل کے ذریعے رابطے برقرار ہیں۔ زرداری صاحب کا مبینہ طور پر ارشاد ہے کہ میری پارٹی کے ہا رڈ لائنر نہیں مان رہے۔ خان صاحب کو بھی یہ بات آہستہ آہستہ سمجھ آ گئی ہوگی کہ پیپلز پارٹی اپنی تمام تر بوالعجبیوں کے باوجود سسٹم کو ڈی ریل نہیں ہونے دے گی کیونکہ ایسا کرنا اس کی لیڈر شپ کے لیے سراسر گھاٹے کا سودا ہوگا، لیکن شاید عمران خان 'آف شور‘ کمپنی میں اپنا نام آنے کے بعد خود بھی ٹھنڈے سے پڑگئے ہیں۔ 
میڈیا اور سیاست کے وہ ہارڈ لائنرز جو دوبارہ بوٹوںکی چاپ سننے کے لیے ہمہ تن گوش رہتے ہیں، بھی معاملات پارلیمنٹ میں آ جانے پرکچھ مایوس سے ہوگئے ہیں۔ اگرچہ جنرل راحیل شریف 
از خود اس قماش کے سولجرنہیں ہیں جو ''میر ے عزیز ہم وطنو‘‘ کا ورد کرتے ہوئے اقتدار پر قبضہ کرلیں، لیکن کچھ تماشبین اب بھی یہ امید لگائے بیٹھے ہیں۔ بقول ان کے فوج میںکچھ بونا پارٹسٹ کچھ نہ کچھ گل کھلائیںگے اور میاں نواز شریف کی چھٹی ہو جائے گی۔ میری اطلاع کے مطابق جنرل راحیل شریف کی میاں نواز شریف سے گزشتہ ہفتے جو ون آن ون ملاقات ہوئی تھی اس میں'پاناما گیٹ‘ کا معاملہ وزیر اعظم نے خود چھیڑا تھا جس کے جواب میں آرمی چیف نے اتفاق کیا تھا کہ اس معاملے کو جلد نبٹانا چاہیے۔ یقیناً 'پاناما گیٹ‘ کے معاملے پر ملک کے اندر ہیجانی کیفیت ختم کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ اس کی وجہ سے بہت سے اہم قومی معاملات پر فوکس نہ ہونے کی بنا پر نقصان ہو رہا ہے۔ خارجہ پالیسی کو ہی لیجیے، امریکہ نے پاکستان کی فوجی امداد کے لیے شرائط مزید سخت کر دی ہیں۔ امریکی ایوان نمائندگان کا کہنا ہے کہ جب تک پاکستان حقانی نیٹ ورک کی پشت پناہی کرتا رہے گا اور سی آ ئی اے کے ایجنٹ شکیل آ فریدی کو رہا نہیں کرتا یہ پابندیاں برقرار رہیں گی۔ اس حو الے سے بعض میڈیا اطلاعات کے برعکس پاکستان کو ملنے والے ایف ـ 16طیاروں کی ترسیل بھی رکی رہے گی۔ خطے میں بھی پاکستان کے اپنے زیادہ تر ہمسایوں سے تعلقات اگر کشیدہ نہیں تو سرد مہری کا شکار ضرور ہیں۔ بھارت سے مذاکرات شروع کر نے کا معاملہ مسلسل ڈیڈلاک کا شکار ہے۔ امریکہ کی اقتصادی پابندیوں سے آزاد ہونے کے بعد ایرانی صدر حسن روحانی نے اسلام آباد کا دورہ کیا، لیکن عین اس موقع پر تہران پر تہمت لگا دی گئی کہ وہ بلوچستان میں''را‘‘ کی مداخلت کے لیے سہولت کاری کر رہا ہے، اس سے دورے کے سیا سی، اقتصا دی اور تجارتی فوائد حاصل نہیں ہو سکے۔ اس سارے معاملے میں سب سے بڑی کمزوری میاں صاحب کا وزارت خارجہ کا قلمدان اپنے پاس رکھنا ہے جبکہ اس حوالے سے ان کے دو مشیر سرتاج عزیز اور طارق فاطمی اپنی ڈیڑھ اینٹ کی الگ مساجد بنائے بیٹھے ہیں۔ حال ہی میں پاک افغان سرحد پر جب باڑ لگانے پر تنازع کھڑا ہوا تو افغان حکومت نے آرمی چیف جنرل راحیل شریف سے رجو ع کیا، اسی طر ح سی پیک کے تحت چینی ماہرین، ورکرزکو تحفظ و سہو لیات دینے اور دیگر سٹریٹیجک معاملات پر بات چیت بھی جنرل راحیل شریف کو چینی وزیر اعظم اور دیگر عمائد ین سے کرنا پڑی۔گویا، ہماری سکیورٹی اور خارجہ پالیسی اب جرنیلوں کے سپرد ہو چکی ہے اور 'پاناماگیٹ‘ کے ڈسے ہوئے وزیر اعظم محض ڈفلی بجا رہے ہیں۔
بجٹ کی آمد آمد ہے لیکن میاں صاحب کے سمدھی،دست راست اور عملی طور پر نائب وزیر اعظم اسحق ڈار بجٹ بنانے کے بجائے سیاسی آگ بجھانے میں زیادہ مصروف نظر آتے ہیں۔اب یہ ضروری ہوگیا ہے کہ میاں نواز شریف محض وزیر اعظم رہنے،فیتے کاٹنے اور جلسے کرنے کے علاوہ حکمرانی کے جوہر بھی دکھائیں۔ گڈگورننس کا بھی یہ تقاضا ہے کہ ڈنگ ٹپاؤ کام کرنے کے بجائے کابینہ میں مناسب رد و بدل کریں بالخصوص خارجہ حکمت عملی اور اقتصادیات کے حوالے سے ٹیم میں مناسب رد و بدل کیا جائے، محض اشک شوئی کے لیے ایک آدھ وزیرکو ادھر اُدھر کرنے سے کام نہیں چلے گا۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں