مقام شکر ہے کہ میاں صاحب کی اوپن ہارٹ سرجری کامیاب رہی۔ میاں نواز شریف صاحبِ فراش ہونے کے با وجود لندن سے بطور وزیر اعظم اپنی آئینی اور قانونی ذمہ داریاں پوری کر نے سے سے غافل نہیں ہوئے۔ پیر کو انھوں نے اسلام آباد میں ہو نے والے قومی اقتصادی کونسل اور وفاقی کابینہ کے اجلاسوںکی لندن میں پاکستانی ہائی کمشن سے ویڈیو لنک کے ذریعے سکائپ پر صدارت کی۔ اس طر ح حکمران جماعت کے مطابق بجٹ 2016-17 ء کی منظوری کے لیے تمام قانونی اور آئینی تقاضے پو رے ہو گئے ہیں؛ تاہم حزب اختلاف کی جماعتیں اس معاملے میں مختلف رائے رکھتی ہیں۔ عمران خان ویڈیو لنک پر اجلاس کی صدارت کو تشویشناک اور خطرناک قرار دے رہے ہیں کیونکہ اس سے سائبر جاسوس فائدہ اٹھاسکتے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ میاں نواز شریف پارلیمانی جمہوریت نہیں بلکہ بادشاہت چلا رہے ہیں۔ دوسری طرف 'پاناما لیکس‘کی تحقیقات کے بارے میں تحریک انصاف کی حلیف پیپلز پارٹی کی رائے قدرے مختلف ہے۔ قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف سید خورشید شاہ اور وزیر اعلیٰ سندھ قائم علی شاہ کا ارشاد ہے کہ میاں نواز شریف کی غیر حاضری میں بجٹ قومی اسمبلی میں پیش کیا جا سکتا ہے اور اس میں کوئی قانونی رکاوٹ نہیں ہے۔ بعض ماہرین کے مطابق آئین میں نائب وزیر اعظم کی گنجائش نہیں رکھی گئی جو کہ آ ٹھویں ترمیم میں موجود تھی۔گویا یہ بات واضح ہے کہ وزیر اعظم کی علالت کی بناء پر ملک سے غیر حاضری میں آ ئینی و قانونی بحران پیدا نہیں ہوگا۔ اگرچہ خان صاحب اور ان کے حواری قومی اسمبلی میں اس حوالے سے شور مچا تے رہیں گے اور امکان ہے کہ سپریم کو رٹ میں بھی اس صورت حال کو چیلنج کیا جائے گا؛ تاہم سارے معاملے میں ایک بات باعث طمانیت ہے کہ یکدم حکمران جماعت سمیت سب کو آئین اور قانون کی عملداری کا کچھ خیال آ ہی گیا ہے۔ یہ عجیب ستم ظریفی ہے کہ ایک ایسی پارلیمانی جمہوریت ، جس میں سات ماہ کے عرصے تک کابینہ کا اجلاس ہی نہ بلایا جائے اور وزیر اعظم تبرک کی خاطر ہی کبھی کبھار پارلیمنٹ کا دورہ کریں، وہاں اس بات کی دہائی دی جا رہی ہے کہ میاں صاحب کے بغرض علاج بیرون ملک قیام سے پارلیمانی جمہوریت کو بہت بڑا دھچکا لگا ہے، حالانکہ
غالبِ خستہ کے بغیر کون سے کام بند ہیں!
اعداد و شمار کے مطابق میاں صاحب نے اپنے حالیہ تین سالہ دور اقتدار میں 65 بیرونی دورے کیے اور قریباً 185دن ملک سے باہر رہے ہیں اور بعض اوقات تو اندرون ملک چند دن گزارنے کے بعد کئی ہفتے کے لیے باہر چلے جاتے رہے ہیں۔ اس خدشے کا بھی اظہار کیا گیا ہے کہ بجٹ ایوان میں پیش کیے جانے سے چند روز قبل ہی کابینہ سے منظوری لینے سے بجٹ کے حوالے سے رازداری متاثر ہو سکتی ہے کیونکہ کابینہ میں مختلف لابیوں کے نمائندے موجود ہوتے ہیں۔ شاید ہم بھول گئے ہیں کہ چند برس قبل میڈیا کے ایک حصے نے پورا بجٹ ہی قبل از وقت افشا کر دیا تھا۔ جہاں تک بجٹ کا تعلق ہے اس میں لگا ئے گئے ٹیکس اور
مراعات تو سارا سال ہی جا ری رہتی ہیں۔ بر ادرم اسحق ڈار ایک اچھے چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ کی طر ح بجٹ بنانے اور اعداد و شمار کو آگے پیچھے کر کے کام چلانے کے ماہر ہیں، لیکن ملکی اقتصادی حالت ہنوز پتلی ہی ہے۔ یہ دعویٰ بھی کیا جا رہا ہے کہ اگلے برس کے لیے پیداوار کی شر ح میں .7 5 فیصد اضافے کا ہدف رکھا جا ئے گا جبکہ محتاط اور حقیقت پسندانہ اعداد و شمار کے مطابق گزرتے مالی سال میں پیداوار کی شر ح 7 4. فیصد سے زیادہ نہیں رہی۔ یہ شر ح نمو ملک کو خوشحالی کی راہ پر ڈالنے کے لیے انتہائی کم ہے۔ ماہرین اقتصادیات کے مطابق ملک میں حقیقی ترقی کے لیے کم از کم یہ شرح 5 6. ہونی چاہیے لیکن حکومت کی موجودہ پالیسیوں سے اس کا مستقبل قریب میں کوئی امکان نظر نہیں آتا۔ دوسری طرف قوم کا بال بال غیر ملکی قرضوں میں جکڑا ہوا ہے۔ موجودہ حکومت کو یہ ''امتیا ز‘‘حاصل ہے کہ سال کی پہلی سہ ماہی میں 69558 ملین ڈالر قرضہ پاکستان پر چڑھ گیا جو ایک ریکارڈ ہے۔ سٹیٹ بینک کے مطابق سال 2003ء سے 2016ء تک اوسطاً ہر سال پاکستان 50374.14 ملین ڈالرکا مقروض ہوتا چلا آ رہا ہے۔ غالباً ورلڈ بینک، آ ئی ایم ایف اور سی پیک قرضوں میں یہ ریکارڈ اضا فہ ہوا ہے۔ قر ضے لینا بظاہر کوئی معیوب عمل نہیں بشرطیکہ ان کو اتارنے کی صلاحیت میں اضافہ ہو، لیکن یہاں تو جوں جوں دوا کی، مر ض بڑھتا ہی گیا۔ یہی حال بیرونی تجارت کا ہے۔ ہماری بیرونی تجارت خسارے میں جا رہی ہے اور امسال اس میں خسارہ بڑ ھتا ہی چلا گیا۔ اسی طر ح ہماری برآمدات جامد ہیں اور درآمدات بڑ ھتی چلی جا رہی ہیں۔ اسی طر ح بر اہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری میں رواں ما لی سال میں کوئی قابل قدر اضا فہ نہیں ہو سکا۔ جہاں تک دہشت گردی کا تعلق ہے آپر یشن 'ضرب عضب‘ کے باوجود اس کا انڈیکس 9.07 پر بدستور قائم ہے۔ ڈار صاحب بجا طور پر یہ کر یڈٹ لیں گے کہ ملک میں گیارہ برس میں افراط زر کی شرح سب سے کم رہی ہے اور مسلسل گر رہی ہے۔ اس کے ساتھ ہی سٹیٹ بینک نے بھی سود کی شر ح میں ریکارڈ کمی کر دی ہے۔ افراط زر کی شر ح میں یہ کمی تیل کی بین الا قوامی مارکیٹ میں قیمتوں میں ریکارڈ کمی کی وجہ سے ممکن ہوئی ہے۔ یقیناً ہماری معیشت کو چائنا پاک اکنامک کوریڈور اور تارکین وطن کی بھیجی گئی ترسیلات کی وجہ سے مد د ملی ہے۔
یہاں ایک بنیادی سوال پیدا ہوتا ہے کہ وہ کیا عوامل ہیں جن کی بنا پر خطے میں پاکستا ن میں اقتصادی پیداوار میں اضافے کی شرح سب سے کم ہے۔ ورلڈ بینک کے مطابق اس خطے میں اوسطاً رواں مالی سال 2016ء کے اختتام تک7.6 فیصد شرح نمو میں اضافہ ہوگا۔ بھارت میں 7.9 ، بنگلہ دیش میں 6.3 حتیٰ کہ افغانستان میں 5 فیصد اضافے کی شرح ہوگی جبکہ پاکستان کی چال وہی بے ڈھنگی رہے گی یعنی اندازاً یہ شرح 4.6 فیصد رہے گی۔ گویا کہ ہمیں یہ ''اعزار‘‘ حا صل ہے کہ میاں نواز شریف حکومت کے تمام شور شرابے اور دعووں کے باوجود پیداوار میں اضافے کی شر ح سب سے کم رہے گی۔ بعض ناقدین کا کہنا ہے کہ اسحق ڈار اکانومی کے بارے میں ویژن نہیں رکھتے اور محض ایک چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ ہونے کے حوالے سے حسابات کے ماہر ہیں۔ جہاں تک میاں نواز شریف کا تعلق ہے، انھوں نے ماضی میں ملکی معیشت کو ڈی ریگولیٹ کرنے اور ترقی دینے کے لیے اہم کردار ادا کیا تھا۔ نجکاری، فری مارکیٹ اکانومی، کرنسی کی آزادانہ نقل وحرکت اور ٹیلی کمیونیکشن میں ڈی ریگولیشن انہی کا کمال تھا ۔ اس دور میں بھارت کی اقتصادیات کانگرس کی نیم سوشلسٹ پالیسیوں میں جکڑی ہوئی تھی اور اس کی ترقی کی شرح محض پانچ فیصد تھی جسے 'ہندو گروتھ ریٹ‘ کہا جاتا تھا یعنی جن ملکوں کی شرح پانچ فیصد تک رہے وہاں 'ہندو گروتھ ریٹ‘ سمجھا جاتا تھا۔ بدقسمتی سے یہ 'ہندوگروتھ ریٹ‘ بلکہ اس سے بھی کم وطن عزیز کا مقدر بن چکا ہے اور حکومت کے اعداد و شمار کے مطابق اگلے برس بھی حقیقی اقتصادی ترقی کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہو پائے گا۔ دوسری طرف پاکستان میں ٹیکس اور شرح نمو میں تناسب بھی بہت کم ہے۔ دوسرے لفظوں میں ہم بہت کم ٹیکس اکٹھا کرتے ہیں۔ میاں نواز شریف کے نزدیک ترقی کا پیمانہ موٹرویز، سڑکیں، میٹروبسیں، ٹر ینیں اور پاور پراجیکٹس ہیں۔ یقیناً یہ کسی انفرا سٹرکچر کے لیے کلیدی اہمیت کے حامل ہیں، لیکن سوشل سیکٹر یعنی صحت، تعلیم، پینے کے صاف پانی کے پراجیکٹس نظر انداز کیے جا رہے ہیں۔
ویسے بھی گنجی نہائے گی کیا اور نچوڑے گی کیا! دفاع، ڈیٹ سروسنگ اور آئین میں اٹھارہویں ترمیم کے تحت صوبوں کو بھاری رقوم دینے کے بعد وفاق کے پاس بچتا ہی کیا ہے؟ میاں صاحب نے لندن سے اسحق ڈار صاحب کو زر مبادلہ کے ذخائر 21.5 بلین ڈالر تک پہنچانے پر مبارکباد دی ہے لیکن ملکی معیشت تیل کی قیمتوں میں ریکارڈ کمی کے باوجو د 'ٹیک آ ف‘ نہیں کر پا رہی۔