سوشل میڈ یا کے ذریعے آ نے والی ایک تصویر گز شتہ روز قر یباً سبھی اخبارات کی زینت بنی‘ جس میں وزیر اعظم میاں نواز شر یف ہا رٹ سر جر ی کروا کر گھر آ نے کے چند روز بعد ہی اپنی بیگم کے ساتھ ''پائن باغ‘‘ میں چہل قدمی کر رہے ہیں ۔یہ درحقیقت لندن کا ہا ئیڈ پا رک ہے جو پاناما لیکس کے حوالے سے ان کے متنا زع اپا رٹمنٹس کے سامنے ہے۔ یقینا میاں صاحب ڈاکٹروں کی ہد ایا ت پر عمل کرتے ہو ئے پید ل چلنے کی عادت ڈا ل رہے ہیں۔ انھیں اب نہا ری ،ہر یسے ، سری پا ئے اور مرغن نا شتو ں سے بھی پر ہیز کرناپڑے گا ۔دوسری طرف اس تصویر کے رد عمل کے طور پر تحریک انصاف کے وہ جیالے اور حامی جن کا سیاسی انحصار محض سوشل میڈ یا پر ہی ہے وہ یقینا ٹو یٹ کر یں گے کہ ہم نہ کہتے تھے کہ میاں صاحب کا با ئی پاس ہوا ہی نہیں، یہ تو محض ''پاناماگیٹ‘‘ سے بچنے اور عوام کی ہمد ردیا ں حا صل کر نے کی خا طراوپن ہارٹ سرجری کا ٹو پی ڈرامہ رچایا گیا ۔ ڈاکٹروں کے مطابق با ئی پا س کے بعد مر یض کو واک کر نے کی خصوصی ہد ایت کی جا تی ہے اور میاں صاحب جتنی سختی سے ڈاکٹر وں کی ہدایا ت پر عمل کریں گے اتنی جلدی بہتر بھی ہو نگے۔میاں صاحب کو وطن واپسی پر ایک مضبو ط دل کے ساتھ مضبو ط اعصاب کی ضرورت ہو گی کیو نکہ انھیں واپسی کے فورا ًبعد اپوزیشن کی یلغار کے علاوہ پاکستان کو درپیش اندرونی وبیر ونی مسا ئل کی شکل میں متعد د چیلنجز کا سامنا کرنا پڑے گا۔چند روز قبل میرے ٹی وی پروگرام میں میاںنواز شر یف کی صاحبز ادی محترمہ مر یم نواز نے جو انتہا ئی سلجھی اور نپے تلے انداز میں گفتگو کر تی ہیں‘ انکشا ف کیا کہ میاں صاحب عید تک واپس آ نے کے لیے سامان باند ھ رہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ وزیر اعظم واپسی پر ایک مضبوط دل کے ساتھ سیاست اور امور مملکت میں پہلے سے بھی زیا دہ فعال رول ادا کر یں گے۔ اگر چہ پر وگرام میں موجود ریلوے وزیر خواجہ سعد رفیق کا کہنا تھا کہ مر یم بی بی نواز شر یف فیملی کی واحد رکن ہیں جو عیا دت کے لیے لندن نہیں گئیںوہ محض اس لیے پاکستان میں ہی رہیں کہ ان سے والد کی تکلیف دیکھی نہیںجا تی ۔لیکن مر یم نواز کا کہنا تھا کہ وہ ٹاسک جو انھیں والد کی طرف سے دیئے گئے ہیں، اسلام آبا د میں وہ ادا کر رہی ہیں ۔نیز وہ اپنی دادی محتر مہ کا خیال بھی رکھ رہی ہیں ۔
میاں صاحب کو آئندہ ہفتوں اور مہینوں میں جن چیلنجز کا سامنا ہے ان میں سے سب سے بڑا اندرونی چیلنج ''پاناماگیٹ‘‘ پر ٹی اوآرز نہ بننے کی صورت میں عمران خان کی تحریک چلانے کی دھمکی ہے۔ اس حوالے سے تشکیل دی گئی پارلیمانی کمیٹی ڈیڈ لا ک کا شکا ر ہو چکی ہے ۔اپوزیشن کو حکومت کی طرف سے پیش کیے گئے 4نکا ت معمولی تر میم کے ساتھ قبول ہیں تا ہم اسحق ڈار کی قیادت میں حکومتی ٹیم اپو زیشن کے 15نکا ت قبول کر نے میں متذبذب ہے، بالخصوص خو اجہ سعد رفیق دوٹوک انداز میں واضح کر چکے ہیں کہ ٹی او آرز میں میاں نواز شر یف کو تختہ مشق بنانا ہما رے لئے قابل قبول نہیں ہے۔ شاہ محمود قر یشی پہلے ہی اپنے لیڈر عمران خان کو تجو یز دے چکے ہیں کہ مذاکراتی کمیٹی کا بائیکاٹ کر دیا جائے جبکہ دوسر ی طرف حکومتی ٹیم کے سر براہ اسحق ڈار ڈیڈ لاک ختم کر نے کے لیے لند ن کا دورہ کر کے واپس پہنچ چکے ہیں ۔ حکومت کا یہ مو قف کسی حد تک درست ہے کہ اگر ''پاناما لیکس‘‘میںمیاں نواز شر یف کے بیٹوں کانام موجود ہے تو بالو اسطہ طور پر میاں صاحب کا نام بھی آ جا تا ہے۔گزشتہ روزوفاقی وزیر اطلاعات پرویز رشیدقومی اسمبلی میںقائد حزب اختلاف سید خورشید شاہ کے پاؤں پکڑ کر ترلے کر رہے تھے لیکن اپوزیشن 'میں نہ مانوں‘ کی ضد پر قائم ہے۔ شاہ صاحب کا کہنا ہے کہ میاں صاحب نے قوم سے خطاب میں خود کو سب سے پہلے احتساب کیلئے پیش کرنے کی حامی بھری تھی تو اب کس بات کا خوف ہے؟ خان صاحب تو رمضان کے بعد سڑ کو ں پر آنے کے لیے ادھا ر کھا ئے بیٹھے ہیں ۔ بظاہر اپوزیشن کے ہا رڈ لائنرز ان کے مو قف کے حا می لگتے ہیں لیکن درون خا نہ معا ملات کچھ اور ہیں۔ اگر ٹی او آ رز بن جاتے ہیں اور عدالتی کمیشن تشکیل پاجا تا ہے تو ان کے خیال میں نہ صرف معا ملہ لمبا ہو جا ئے گا بلکہ بالآخر میاں نواز شر یف ''پانامالیکس ‘‘ کی بظا ہر بند گلی سے نکلنے میں کامیاب ہو جا ئیں گے ۔ اس حوالے سے یہ بودی دلیل بھی پیش کی جاتی ہے کہ پنجابی ججو ں نے ما ضی میں میا ں نواز شریف کا کبھی بال بیکا بھی نہیں کیا جبکہ پیپلز پا رٹی کے بانی وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کو تختہ دار پر لٹکا دیا تھا اور جسٹس افتخا ر چو ہدری نے پیپلز پارٹی کے حا لیہ دورمیں یو سف رضا گیلانی کی چھٹی کرادی تھی ۔ضیاء الحق کے نامز د سندھی وزیر اعظم محمد خان جونیجوکو جب ضیا ء الحق نے ہی بر طرف کیا تو سپر یم کورٹ نے قانونی طور پر اس اقدام کو غیر آ ئینی قرار دینے کے باوجو د ان کی حکومت کو بحال نہیں کیا تھا جبکہ 1993 میں صدر غلام اسحق خان نے میاں نواز شریف کی 'میں ڈکٹیشن نہیں لو ں گا‘ والی تقر یر کے بعدانہیں بر طرف کر دیا تھا تو جسٹس نسیم حسن شاہ کی سر براہی میں سپر یم کو رٹ نے انھیں بحال کر دیا۔ یہ الگ بات ہے کہ اس وقت کے فو ج کے سربرا ہ جنرل وحیدکاکڑ کی اسٹیبلشمنٹ نے انھیں اور صدر غلام اسحق خان کو ساتھ ہی گھر بھجوا نے کے لیے میاں صاحب کو استعفٰی دینے پر مجبو ر کر دیا ۔ لیکن آ ج جسٹس انور ظہیر جما لی کی سر برا ہی میں عدلیہ غا لباً مختلف اور آزاد ہے ۔عمران خان اور ان کے عقابی مشیروں کو روہانساہونے کے بجا ئے اس عدلیہ پر کامل اعتما د کر نا چاہیے،مزید برآں خان صاحب کو ٹی او آرز پر سمجھوتہ کر کے کمیشن بننے دینا اور اپوزیشن میںان ہا رڈ لا ئنروں سے بچنا چاہیے ۔یقیناً تالی دونوں ہاتھوں سے بجتی ہے ۔حکومتی ٹیم کو بھی میاں صاحب کے احتساب کے حوالے سے لچکدار رویہ اختیار کرنا چاہیے۔
دوسر ی طرف پیپلز پا رٹی کے چیئر پر سن آ صف علی زرداری بھی اپنے پتے مہا رت سے کھیل رہے ہیں۔ پہلے تو پیپلز پا رٹی چور چور کی آ واز یں ہر طرف گو نجتی تھیں لیکن اب یہ آ وازیں میاں صاحب کے'' پاناماگیٹ‘‘ کے سکینڈل میں ملوث ہونے کی آوازوںمیں دب کر رہ گئی ہیں ۔ایک طرف عمران خان جو زرداری اینڈ کمپنی کوببانگ دہل کر پٹ کہتے تھے اب چو ہدری اعتزاز احسن کے گھر ٹی او آرز کے بارے میں اپوزیشن کی میٹنگز میں مصروف ہوتے ہیں ۔ظا ہر ہے خان صاحب مسلم لیگ (ن) کو جتنا گندا کر یں گے اتناہی پیپلز پا رٹی کافا ئد ہ ہے۔ قومی اسمبلی میں اپو زیشن لیڈ ر خورشید شاہ کو اس بارے میں کو ئی غلط فہمی تھی تو زرداری صاحب نے انھیں دبئی بلا کر دور کر دی ہے ۔یہ مکا فات عمل نہیں ہے تو اور کیا ہے مسلم لیگ (ن) نے بطور اپوزیشن اور برادر خورد شہباز شر یف نے بطور وزیر اعلیٰ پنجاب پیپلز پا رٹی پر نا اہلی، کرپشن اور غداری کے الزامات کی بو چھا ڑ کر دی تھی اب یہی گیم موجودہ اپوز یشن پیپلز پارٹی کھیل رہی ہے ۔ لیکن پیپلز پارٹی اپنے مفاد کی خاطربھی اس حد تک آ گے جانے کو تیار نہیں ہو گی کہ عمران خان کے ہا تھوں پورا سسٹم ہی پٹڑ ی سے اتر جا ئے۔