عید الفطر کی چھٹیاں ختم ہو تے ہی ملک میں سیاسی ٹمپر یچر بڑ ھنے لگا ہے۔ گو یا وزیر اعظم نواز شریف سمیت تمام سیا ستدانوں کو رمضان کے ختم ہونے کا انتظار تھا ۔عمران خان جو اب تیسری شادی کے موڈ میںلگتے ہیںنے لندن سے واپسی پر تحر یک چلانے کا عند یہ دیدیا ہے ۔بلاول بھٹو بھی لندن سے انتہا ئی تند وتیز بیانات دینے کے بعد کمربستہ ہو کروطن لوٹ چکے ہیں ۔ ان کا تازہ ارشاد ہے کہ میاں نواز شر یف بھارتی وزیر اعظم نریند ر مو دی کے لیے نر م گو شہ رکھنے کی بنا پر مقبوضہ کشمیر میں بھا رتی فوج کے ہاتھوں معصوم کشمیریوں کے خون کی ہو لی کی مذمت نہیں کررہے؛ حا لا نکہ میاں نواز شر یف کا مذ متی بیان اتوار کی شام ٹیلی ویثرن پر نشر ہو رہا تھا ۔ہفتے کے روز جب میاں نواز شر یف لاہو ر کے علامہ اقبال انٹر نیشنل ائیر پورٹ کے حج ٹرمینل پر پی آ ئی اے کے خصوصی بوئنگ 777طیا رے سے نمودار ہو ئے تو میں بھی ان صحا فیوں میں شامل تھا جنہیں انہوں نے شرف ملا قات بخشا ۔گفتگو اگر چہ مختصر تھی لیکن با مقصد تھی۔ میاں صاحب کا دل کے با ئی پاس کے بعد وزن کچھ کم محسوس ہو رہا تھا ۔ وہ قدرے سما رٹ اور ریلیکس بھی نظر آ رہے تھے۔ ان کی با ڈی لینگو ئج سے واضح تھا کہ اس وقت وہ محا ذ آ رائی کے مو ڈ میں نہیں ہیں ۔میاں صاحب نے بتا یا کہ انہوں نے اس مر حلے پر دھواں دھا رباؤ لنگ کرانے کے پروگرام کو ویٹو کر دیاہے کیونکہ اس سے نامنا سب سا پیغام جا تا ۔بعض اخبار نویس تو قع لگا ئے بیٹھے تھے کہ میاں صاحب ان سے گپ شپ کریں گے۔ان کے پر یس سیکر ٹری محی الد ین وانی نے اس حوالے سے ہا ئی ٹی کا بند وبست بھی کر رکھا تھا لیکن میاں صاحب نے یہ کہہ کر جان چھڑا نے کی کوشش کی کہ وہ صحا فیوں کو بلائیں گے اور آرام سے بیٹھ کر ان سے گپ شپ کر یں گے ۔را ئے ونڈ جانے کے لیے ہیلی کا پٹر پر سوار ہو نے سے عین پہلے کچھ منچلوں سے نہ رہا گیا اور ایک صحا فی نے سوال داغ دیا کہ حضور'پاناما لیکس ‘کے حوالے سے اپوزیشن کے دھر نے کے بارے میں آ پ کی کیا را ئے ہے؟ جس پر میاں صاحب یہ کہہ کرکہ ''دھر نے مسا ئل کا حل نہیں ہیں ‘‘ہیلی کا پٹر میں سوار ہو گئے ۔یقینا اب اخبار نویس محو انتظار ہیں کہ ا نہیں رائے ونڈ کب مدعو کیا جا تا ہے۔ویسے گز شتہ تین برسوں میں میاںصاحب کی اخبار نویسوں سے ملاقاتوں کے تناظرمیںدیکھا جائے توامکان غالب ہے ‘ان کا یہ وعدہ'' مشرقی معشوق‘‘ کے وعدے کی طرح ہی ثابت ہوگا۔
اس وقت محاذ آرائی کی کیفیت کچھ یوں ہے کہ گزشتہ روز وزیر اعلیٰ سند ھ قا ئم علی شاہ اوروزیر اعلیٰ خیبر پختو نخوا پرویز خٹک بیک زبان ہو کر چیخ اٹھے کہ ہمیں دیوار سے لگا یا جا رہا ہے۔ ان کے مطابق وفاق دانستہ طور پر ان صوبوں کے ترقیاتی فنڈز روک اوران کی بجلی چوری کر رہا ہے۔ ان دونوں رہنماؤں نے کرا چی میں ملا قات کے بعد کہا کہ وفاقی حکومت کے ان ماورائے آئین اقدامات پراحتجاج ان کا حق ہے ۔ دوسر ی طرف آ زاد کشمیر کے انتخا بات میں گر ما گر می اس حد تک بڑ ھ گئی کہ نوبت قتل وغارت تک پہنچ چکی ہے ۔حو یلی میں پانچ سیاسی کارکن ہلاک ہو ئے۔ ان واقعات سے پیپلز پارٹی اور حکمران جماعت مسلم لیگ (ن) کے ہنی مون کے ختم ہو نے پر مہر تصدیق لگ گئی ہے۔ عملی طور پر یہ صورتحال اس وقت سے چل رہی ہے جب گز شتہ بر س آصف علی زرداری کے فو ج کے بارے میں تلخ بیان کے بعد میاں نواز شریف نے ان سے ملا قات کی دعوت منسوخ کر دی اور زرداری صاحب بیرو ن ملک چلے گئے ۔لند ن میںایک ملا قات میں آصف زرداری نے مجھ سے گلہ کیا کہ میاں نواز شر یف کو مغل اعظم نہیں وزیر اعظم بننا چاہیے‘ لیکن2014ء کے دھر نے میں اپنے مخصوص طریقہ کا ر کے مطابق میاں صاحب نے پیپلز پارٹی کو استعمال کر نے کے بعد ٹشو پیپر کی طر ح تلف کرد یا ۔اب جبکہ اپوزیشن کومنا نے کی تمام تدبیر یں رائیگاں ہو گئی ہیںتو میاں شہباز شریف اور چو ہدری نثار علی خان بیک زبان ہو کر کہہ رہے ہیں کہ زرداری اور بلا ول کواپنے سوئس اکاؤنٹس اور سرے محل کی فکر کر نی چاہیے اور نواز شریف کے سمد ھی وزیر خزانہ اسحق ڈار کا فرماناہے کہ وہ ٹی او آرز کی تفصیلا ت طشت ازبام کر دیں گے اور اگر احتساب ہونا ہے تو صرف نواز شریف کا نہیں سب کا ہو نا چاہیے ۔
آ ج کل رائے ونڈ میں میاں صاحب کو تازہ صورتحال پر بر یفنگ دی جا رہی ہے ۔ یقینا ان کے لیے سب سے بڑا مسئلہ اپوزیشن کو رام کر نا ہے یا پھر سڑکوں پر ان کا مقابلہ کر نے کی تیا ری کر نا ہے۔ میا ں صاحب کو غا لباً یہ احسا س ہو گیا ہو گا کہ 'پاناما گیٹ ‘ ان کے گلے کا طوق بن چکا ہے اور اس میں ان کے دو بیٹوں اور صاحبزادی کے نام آنے کے باعث ان کی اخلا قی پوزیشن قدرے کمزور ہوئی ہے۔ جہاں تک ٹی اوآرزمیں میاں نواز شریف کانام شامل کر نے کا تعلق ہے تو یہ محض ایک علامتی مسئلہ ہے کیو نکہ اگر ٹی اوآرز میں میاں نواز شر یف کانام نہیں بھی ہو تا تو ان کی اولا د کے وسا ئل کے حوالے سے انہیں ہی جواب دہ ہو نا پڑے گا۔ غا لباًاپو زیشن کو بھی اس بنیا دی حقیقت کا ادراک ہو گا لیکن ان کا مقصد تو وزیر اعظم کے گرد گھیرا تنگ کر نا ہے ۔میاں صاحب کے لیے ایک بڑا مسئلہ جس کے لیے ان کے پاس اب زیا دہ وقت نہیں ہے ‘ جنرل را حیل شر یف کا سینئر ترین جرنیلوں میں سے جانشین مقررکرنایا مد ت ملازمت میں تو سیع دینے کا ہے۔ اگر چہ جنر ل را حیل شر یف اپنے تر جمان کے ذریعے یہ بات واضح کر چکے ہیں کہ وہ تو سیع کے امید وار نہیں ہیں اور وہ وقت پرریٹائر ہو جا ئیں گے‘ لیکن ایسے لگتا ہے کہ کچھ عناصر اس بات کے حامی ہیں کہ جنر ل را حیل شر یف کوابھی رہنا چاہیے ۔اس تناظر میں ایک نام نہاد تنظیم Move on Pakistanکی طرف سے کئی شہروں میں با تصویر بینرز''جانے کی باتیں ...ہوئیں پرانی...خدا کیلئے ! اب آجاؤ...‘‘آویزاں کرنا معنی خیز ہے۔یہ بینرز کون لگا رہا ہے اور کیوں لگ رہے ہیں؟اس بارے میں میاں نواز شریف اور ان کے حواریوں کو غور کرنا ہوگا۔بعض تجزیہ کاروں کی رائے ہے کہ 1977ء میں ذوالفقار علی بھٹو اور پاکستان قومی اتحاد کے مذاکرات طوالت اختیار کر گئے تو جنرل ضیا ء الحق نے مارشل لا لگا دیا تھا، ان کے خیال میں یہی صورتحال اب بھی بن رہی ہے‘ کیونکہ ٹی او آرز پر مذاکرات تعطل کا شکار ہیں ‘لیکن ایک بنیادی فرق واضح رہے کہ موجودہ فوجی قیادت کا مارشل لا لگانے کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔دوسری طرف وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شر یف اور وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان اس بات کے پر زور حا می ہیں کہ آ رمی چیف کی مدت ملا زمت میں تو سیع کر دینی چاہیے۔لیکن باخبر ذرائع کے مطابق نوازشر یف یہ اصولی مو قف اختیار کیے ہو ئے ہیں کہ انہیں وقت پر ہی ریٹائر ہو جانا چاہیے ۔وزیر اعظم کاموقف اس حد تک تو درست ہے کہ جنرل را حیل شر یف کے پیش رو جنر ل اشفا ق پرویز کیا نی کو مدت ملازمت میں تین سال کی تو سیع دینے کے مثبت نتا ئج بر آمد نہیں ہوئے تھے ۔اگر چہ جنر ل را حیل شریف کا معاملہ تھوڑا مختلف ہے کیونکہ وہ پہلے آ رمی چیف ہیں جنہو ں نے دہشت گردوں کی گردن پر آہنی ہا تھ ڈالا ہے۔
ہمارے بعض وہ صحا فی بھا ئی اور اینکرزجو ہر وقت مارشل لاء کی نو ید سنا تے رہتے ہیں ،انہیں شاید یہ احسا س ہی نہیں کہ ما ضی میں فو جی آمریتوںنے پاکستان کو کچھ نہیں دیا۔اس بد یہی حقیقت کا احساس افواج پاکستان کو بھی ہے۔ اسی بنا پر اگر چہ سو یلین حکومتوں کو مسلسل دباؤ میں رکھا جا تا ہے لیکن اب فوج کا ماو رائے آ ئین کا رروائی کا کو ئی ارادہ نہیں ہے ۔میاں صاحب کو ایک اور چیلنج ان کی پا رٹی کی طرف سے ہے۔ وزیر اعظم کی سات ہفتوں کی عدم مو جو دگی میں ملک شتر بے مہا ر کی طرح چلتا رہا ۔اس دوران حکمران جماعت کی کثیر تعداد نے اگر چہ فارورڈ بلا ک تو نہیں بنایا لیکن اظہا ر ناراضی ضرور کیاکیونکہ وزرا ارکان قومی اسمبلی سے بات کر نا توکجا ان سے ہا تھ ملانا بھی گوارا نہیں کرتے۔ یقینا میاں صاحب کو نہ صرف کا بینہ کے اجلاس بلا نے چاہئیں بلکہ موجودہ حالات کے مطابق پا رلیمانی پا رٹی کو بھی اعتما د میں لینا چاہیے۔ شاید ان کی صحت کی مکمل بحالی میں ابھی چند ہفتے مزید لگیںلیکن مسا ئل اس نوعیت کے ہیں کہ انہیں اپنی ترجیحا ت فوری طور پر متعین کر نا ہوں گی ۔