مقبوضہ کشمیر میں تحریک آزادی کی لہر میں اچانک تیزی آنے کے بعد پاکستان بھی خواب خرگوش سے بیدار ہو گیا ہے۔ اس مرتبہ 19 جولائی کو 'یوم الحاق پاکستان‘ جوش و خروش سے منایا گیا اور آج بھارت کے خلاف یوم سیاہ کے دوران کشمیریوں سے اظہار یکجہتی کرکے میاں نواز شریف غالباً 'مودی کا جو یار ہے غدار ہے غدار ہے‘ کا 'دھونا‘ دھونا چاہتے ہیں۔ خیر چند روز قبل گورنر ہاؤس لاہور میں وزیر اعظم نواز شریف کی زیر صدارت ہونے والے کابینہ کے اجلاس کے بعد اعلامیہ میں کہا گیا تھا کہ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی بربریت کے خلاف 19 جولائی کو 'یوم سیاہ‘ منایا جائے گا لیکن جب ہاہاکار مچی کہ اس روز تو 'یوم الحاق پاکستان ‘ ہے تو حکومت کے ''تھنک ٹینکوں‘‘ کو بھی خیال آ ہی گیا اور انہوں نے 'یوم سیاہ‘ منانے کی تاریخ20 جولائی کر دی اور کہا کہ 19 جولائی کو 'یوم الحاق پاکستان‘ منایا جائے گا۔ دوسری طرف بلاول بھٹو آزاد کشمیر کے انتخابات جیتنے کی دوڑ میں میاں نواز شریف پر غداری کا لیبل چسپاں کرتے جا رہے ہیں۔ اگر برخوردار بلاول اپنی پارٹی کی تا ریخ کا ہی عمیق نظری سے جائزہ لیں تو ان پر منکشف ہو گا کہ اسی طرح کے الزامات ان کی والدہ بے نظیر بھٹو شہید پر بھی لگتے رہے ہیں۔
پر انی تاریخ کو تو ایک طرف رکھیں، حال ہی میں ان کے والد آصف علی زرداری جنہوں نے اپنے اقتدار کے پانچ سال بڑی مشکل سے مکمل کئے، 'میمو گیٹ‘ سکینڈل میں اس وقت کے آئی ایس آئی کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل شجاع پاشا بھرپور پیروی کرکے ان کو لے دے گئے تھے۔ مجھے یاد ہے کہ جب بھارتی وزیر اعظم راجیو گاندھی جولائی 1988ء میں پاکستان کے سرکاری دورے پر اسلام آباد آئے تو نکتہ چینو ں کے مطابق 'کشمیر ہاؤس‘ کے بو رڈ کو ڈھانپ دیا گیا تھا اور مخالفین اس حد تک چلے گئے تھے کہ ان کی تنقید کے نشتروں کے اثرات کو زائل کرنے کے لیے بے نظیر بھٹو اور راجیو گاندھی کو مسکراہٹو ں کا تبادلہ کرنا پڑا۔ اس دور میں اعتزاز احسن وزیر داخلہ تھے تو ان پر یہ الزام لگایا گیا کہ انہوں نے خالصتان کے حامی سکھوں کی فہرست بنفس نفیس بھارت کے حوالے کر دی ہے، یہ الزام انتہائی مضحکہ خیز تھا۔ اس کے چند برس بعد جب جی ایچ کیو میں اس وقت کے فوجی سربراہ جنرل وحید کاکڑ کی فوجی ہائی کمان کے ہمراہ میڈیا کے چند سرکردہ ارکان سے ملاقات ہوئی تو مجھے اس وقت کے آئی ایس آئی کے سر براہ نے بر ملا کہا کہ یہ الزام انتہا ئی بھو نڈا ہے کیو نکہ اس قسم کی کسی فہر ست کا وجو د ہی نہیں تھا۔ اسی بنا پر کم از کم وہ سیاسی جماعتیں جن کا بظاہر لبرل ایجنڈا ہے اور جو بھارت سے برابر ی کی بنیا د پر بہتر تعلقا ت کی حامی نہیں ہیں‘ انھیں اسٹیبلشمنٹ اور ان کے بعض عنا صر کی طر ح غداری یا حب الو طنی کے سر ٹیفکیٹ نہیں با نٹنے چاہئیں۔
میاں نواز شر یف کا بھارت کے بارے میں نر م گو شہ ہو نے سے یقیناً کچھ غلط فہمیاں پیدا ہو ئی ہیں۔ میاں نواز شر یف کی مئی 2014ء میں نئی دہلی میں نریندر مودی کی بطور وزیر اعظم تقر یب حلف بر داری میں شرکت، ان سے جپھیوں اور روایات کے بر عکس کشمیر ی حر یت پسند لیڈرشپ سے ملا قات سے اجتناب سے کچھ وسوسے پیدا ہوئے۔ گزشتہ برس دسمبر میں میاں نواز شر یف کی سالگرہ اور ان کی نواسی کی شادی کے موقع پر نریندر مودی کا اچانک جاتی امرا وارد ہو جانا بھی ان خدشات کو مزید تقویت دینے کا با عث بن گیا؛ تاہم اس کے باوجو د یہ کہنا کہ میاں صاحب کسی ذاتی کا روباری ایجنڈ ے کی تکمیل کے لیے بھارت کے 'تھلے‘ لگ گئے ہیں، درست نہ ہو گا۔ وزیر اعظم‘ جو وزیر خا رجہ کا قلمدان بھی رکھتے ہیں، غا لباً سمجھتے ہیں کہ بھارت سے بہتر اقتصادی اور تجا رتی تعلقات پاکستان کے دور رس مفاد میں ہیں۔ یقیناً ٹریڈ ڈپلومیسی کسی بھی ملک کی ترقی کے لیے جزولاینفک ہے اور چین‘ جس سے دوستانہ تعلقات کی ہم ہر وقت مالا جپتے رہتے ہیں‘ کا بھی یہی مشورہ ہے‘ لیکن دوسر ی طرف شاید میاں صاحب اس حقیقت کا پوری طرح سے ادراک نہیں کر پائے کہ تالی دونوں ہا تھوں سے بجتی ہے۔ بھارتی حکومت پاکستان کو اپنا دشمن سمجھتی ہے اور کشمیر میں تحریک آزادی کی نئی لہر سے عین قبل مودی کا یہ ریمارکس کہ پاکستان میں کس سے بات کریں اس تاثر کی عکاسی کرتا ہے کہ بھارت پاکستان کو ایک جمہو ری ملک نہیں سمجھتا بلکہ بین السطور اس کا رویہ اس بات کی چغلی کھاتا ہے کہ پاکستان میں ویٹو پاور فو ج کو حاصل ہے اور وہ دہشت گردوں کی پشت پناہی کرکے بھارت کے معاملا ت میں مداخلت کروا رہی ہے۔ لیکن وادی میں برہان وانی کی شہادت کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال سے یہ بات اظہر من الشمس ہو گئی ہے کہ بھارت کی سات لاکھ سکیورٹی فورسز اور نام نہاد جمہوریت‘ کشمیریوں کی آزادی حاصل کرنے کی چنگاری کو بجھا نہیں سکیں۔ اس واقعہ سے قبل عام طور پر یہی تاثر دیا جا رہا تھا کہ مقبوضہ کشمیر میں سب اچھا ہے اور معاملا ت بھارتی سرکار کے کنٹرول میں ہیں لیکن کشمیری نوجوانوں کے سر پر کفن باندھ کر نکلنے نے نہ صرف بھارتی حکومت بلکہ پاکستانی حکومت کو بھی چونکا دیا ہے۔ اس مرتبہ بھارتی حکومت یہ الزام نہیں لگا پائی کہ یہ سب کچھ کنٹرول لائن کے پار سے بھیجے گئے گھس بیٹھیے یا دہشت گرد کر رہے ہیں اور یہ کہنے پر ہی اکتفا کیا جا رہا ہے کہ پاکستان کو اس بارے میں نہیں بولنا چاہیے کیونکہ یہ بھارت کا اندرونی معاملہ ہے۔
کشمیر کے نوجوان حریت پسند وں نے حر یت کانفرنس کو بھی طاقت کا ٹیکہ لگا دیا ہے اور و ہ بھی فعال ہونے پر مجبور ہو گئی ہے۔ دوسر ی طرف پاکستان کو بھی سالہا سال بعد اقوام متحدہ کی کشمیر کے بارے میں قراردادوں پر عمل درآ مد کرانے کا مطالبہ کرنے کا خیال آ ہی گیا ہے۔ اقوام متحد ہ میں پاکستان کی مندوب ملیحہ لودھی نے جنر ل اسمبلی سے خطاب کرتے ہو ئے قراردادوں پر عمل درآمد کا مطالبہ بھی کیا ہے لیکن کیا پاکستان اس پوزیشن میں ہے کہ وہ اپنے کشمیری بھائیوں کو آزادی دلوانے کے لیے کوئی فعال کردار ادا کر سکے۔ ہم کشمیر کے لیے قریباً چار جنگوں سمیت تمام حربے آزما چکے ہیں لیکن بات چیت کے سوا مسئلے کا کوئی حل نظر نہیں آتا۔ مصیبت یہ ہے کہ اس وقت پاکستانی قوم اور جسد سیاست بری طرح بٹے ہوئے ہیں، بھانت بھانت کی بولیاں بولی جا رہی ہیں۔ عمران خان اور بلاول بھٹو ایک ٹرک پر سوار ہوکر میاں نواز شر یف کی کرپشن کے الزام میں چھٹی کرانے کے درپے ہیں۔ دوسری طرف حکومت بھی 'پاناما گیٹ‘ پر کچھ لو اورکچھ دو کی بنیا د پر ٹی او آرز بنانے پر ابھی تک راضی نہیں ہے۔ اس ڈیڈلاک کے ساتھ ساتھ خا کی اور سویلین شریف کے تعلقات بھی قطعاً مثالی نہیں ہیں، غالباً مودی کا اشارہ بھی اسی طر ف تھا۔ میاں نواز شر یف لند ن میں دل کی بائی پاس سرجری کروا کر اب واپس آ چکے ہیں۔ انھیں تمام سٹیک ہولڈرز کو آن بورڈ لینے کی بھرپور سعی کرنی چاہیے۔ اس حوالے سے انھیں فوری طور پر فوج کے ساتھ اپنے معاملات اگر کوئی ہیں تو ٹھیک کرنے چاہئیں۔ دوسری طرف فوجی قیادت کو بھی اپنے منصبی فرائض ہی ادا کرنے چاہئیں۔ میڈیا اور سیاست میں اسے اقتدار پر قبضہ کی ترغیب دینے والے ہرگز پاکستان کے دوست نہیں ہیں۔ مقام شکر ہے کہ آئی ایس پی آر نے 'موو آن پاکستان‘ جو پاکستان میں مارشل لا کی نوید دے رہی تھی‘ کے پو سٹرز لگانے کی تحر یک سے لاتعلقی کا اظہار کر دیا۔ عمران خان صاحب کا کہنا ہے کہ اگر فوج کے ہاتھوں نواز شریف کی چھٹی کرائی گئی تو لوگ مٹھائیاں بانٹیں گے، ماضی میں ایسا ہوا بھی ہے لیکن اگر خان صاحب کا خیال ہے کہ 'مٹھائی‘ وہ کھائیں گے تو یہ ان کی کج فہمی ہے۔ اس طرح میاں نواز شریف اور خود فوج کو اس کے سربراہ کے مستقبل کے بارے میں کہ انہیں ایکسٹینشن دی جا رہی ہے یا نہیں‘ کی قیاس آرائیاں تحلیل کرنے کے لیے دوٹوک موقف دے دینا چاہیے، صرف اسی صورت میں پاکستان کی دنیا اور خطے میں تنہائی ختم اور کشمیر کے معاملے میں کوئی دوٹو ک اور ٹھوس موقف اختیار کیا جا سکتا ہے۔