میاں نواز شر یف کی سب سے بڑی طاقت یہ ہے کہ ان کے حامی اور مخالف دونوں ان کی صلاحیتوں کا اندازہ لگانے میں خطا کھاتے ہیں اور میاں صاحب بارہا اپنے ان مخالفوں کو نیچا دکھا چکے ہیں‘ جو انہیں کئی مرتبہ 'رائٹ آف‘ کر چکے ہیں۔ اس مرتبہ تو حملہ اتنا شدید تھا کہ ان کی اپنی پارٹی کے ارکان‘ حتیٰ کہ ان کی اے ٹیم میں شامل بعض خواتین و حضرات بھی صحافیوں سے سُو لگانے کی کوشش کر رہے تھے کہ ہمارا کیا بنے گا؟ لیکن آزاد کشمیر کے انتخابات میں مسلم لیگ (ن) کی شاندار کامیابی کے بعد ان کے ناقدین منہ میں گھنگنیاں ڈالنے پر مجبور ہو گئے ہیں۔ بلاول بھٹو زرداری اپنی منجی تھلے ڈانگ پھیرنے کے بجائے مسلسل یہ ڈفلی بجا رہے ہیں کہ آزاد کشمیر کے انتخابات میں زبردست دھاندلی ہوئی ہے لیکن ایسے میں جبکہ پولنگ سٹیشنوں کے اندر اور باہر فو ج تعینات تھی‘ ان کی بات کون مانے گا؟ تحریک انصاف کے نامزد سیکرٹری جنرل جہانگیر ترین نے انتخابات میں شکست کے بعد نسبتاً حقیقت پسندانہ اور فلسفیانہ موقف اختیار کیا ہے۔ ایک ٹویٹ میں ان کا کہنا ہے کہ اونچ نیچ سیاست کا حصہ ہے، زیادہ اہم بات یہ ہے کہ ہمیں اپنی غلطیوں سے سبق سیکھنا چاہیے صرف اسی طر یقے سے ہم طاقتور اور زیرک ہو سکتے ہیں۔ خلاف توقع عمران خان نے مسلم لیگ (ن) کو کامیابی پر مبارکباد بھی دی ہے۔
میاں نواز شر یف کا ستارہ اس وقت سے گردش میں ہے‘ جب انہیں عارضہ قلب کی بنا پر لندن جانا پڑا اور دل کی چار شریانوں کی بائی پاس سرجری کی بنا پر ڈیڑھ ماہ تک انہیں وہاں قیام کرنا پڑا۔ وفاقی دارالحکومت سے غیر حاضری کے دو ماہ بعد جمعرات کو اسلام آباد پہنچنے کے ساتھ ہی انہیں آزاد کشمیر کے انتخابات میں زبردست کامیابی کا 'ویلکم پرائز‘ ملا اور جمعہ کو ابھی پوری طرح صحت یاب نہ ہونے کے باوجود وہ اپنے حامیوں کا شکریہ ادا کرنے کے لیے مظفر آباد پہنچ گئے۔ ان کے صاحب فراش ہونے کے عرصہ کے دوران ملک طرح طرح کی افواہوں کی زد میں رہا‘ اور بے یقینی کی کیفیت انتہا کو چھونے لگی۔ یہ صورتحال پیدا کرنے میں سوشل میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا پر ان کے مخالفین، اینکروں اور بعض نام نہاد سیاستدانوں کا گہرا دخل تھا۔ سب سے پہلے تو یہ درفنطنی چھوڑی گئی کہ میاں صاحب کی سرجر ی سر ے سے ہوئی ہی نہیں‘ اور ان کے دل کا ایک معمولی پروسیجر ہوا ہے، یہ بائی پاس کی خبریں ہمدردی حاصل کرنے اور اقتدار کو بچانے کی خاطر دانستہ طور پر اڑا ئی گئی ہیں۔ جب میاں صاحب کا با ئی پاس ہو گیا تو یہ خواتین و حضرات ڈھٹائی سے اپنے موقف پر قا ئم رہے اور سوشل میڈیا پر بعض خفیہ ہاتھوں نے ایسی حاشیہ آرائی کی جس کا مقصد نواز شر یف کے موقف کو جھٹلانا تھا۔ سوشل میڈیا پر ہسپتال میں بستر پر لیٹے نواز شر یف کی تصویر میں ان کے سر پر بال لگا کر یہ ثابت کرنے کی کوشش کی گئی کہ وہ ہارلے سٹریٹ کے کلینک میں بال لگوا رہے ہیں۔ اس حوالے سے ایک جعلی ڈاکٹر کو بھی تیار کیا گیا جس کے ساتھ ایک نام نہاد انٹرویو کیا گیا جس میں وہ فرما رہے ہیں کہ وہ میاں صاحب سے ملنے ہسپتال گئے تو وہاں کا فائر الارم بج گیا جس وجہ سے میاں صاحب سے ملا قات سے نہیں ہو سکی؛ تاہم انہوں نے ''انکشاف‘‘ کیا کہ وہ اس ہسپتال میں کام کرتے رہے ہیں‘ اور انہیں اچھی طرح علم ہے کہ یہ کاسمیٹک سرجری کا ہسپتال ہے اور یہاں بالوں کی پیوند کاری ہوتی ہے، ہارٹ سرجری نہیں۔ جب مریم نواز نے میاںصاحب کی ایک تصویر جاری کی جس میں وہ ہسپتال سے گھر منتقل ہونے کے بعد اپنی اہلیہ کے ہمراہ ہائیڈ پارک میں چہل قدمی کرتے نظر آ رہے تھے‘ تو ایک ''محقق‘‘ نے اس تصویر پر ایک دائر ہ لگا کر یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ میاں صاحب کے سینے پر بال ہیں‘ لہٰذا ان کا بائی پاس نہیں ہوا۔
یہ عناصر ایک طرف یہ کہہ رہے تھے کہ بائی پاس ہوا ہی نہیں دوسری طرف یہ موقف اختیار کئے ہوئے تھے کہ وہ اب وطن واپس ہی نہیں آ ئیں گے۔ جب انہوں نے ٹا نگ سے نکالی گئی شریان کی جگہ پر انفیکشن کے باعث وطن واپسی کا پروگرام کچھ دن کے لیے موخر کر دیا تو ان کے ناقدوں کو محسوس ہوا کہ ان کے موقف کی تا ئید ہو گئی ہے‘ تو کہنے لگے: ''دیکھا ہم نہ کہتے تھے کہ وہ واپس نہیں آئیں گے‘‘۔ لیکن صرف چند روز بعد ہی جب وہ لاہور لینڈ کر گئے تو انہی مخالفین نے پینترا بدلا کہ حضور میاں صاحب نے پی آئی اے کے 777 طیارے پر سفر کرکے قومی خزانے کو شدید نقصان پہنچایا ہے جو ایک جائز اعتراض تھا‘ جس کے بعد ایک نئی لائن اختیار کی گئی کہ وہ اسلام آباد نہیں جائیں گے بلکہ را ئے ونڈ سے ہی واپس لندن چلے جائیں گے۔ اس تضاد پر قطعاً غور نہیں کیا گیا کہ اگر انہوں نے لندن ہی واپس جانا تھا اور اسلام آباد کا رخ بھی نہیں کرنا تھا تو کیا وہ لاہور صرف نہاری کھانے آ ئے تھے۔ جب میاں صاحب کے ترجمان نے تصدیق کی کہ ٹانگ میں انفیکشن کی بنا پر وہ بخار میں مبتلا ہیں اس لیے وہ چند روز مزید لاہور میں آرام کریں گیُ تو انہی عناصر نے پھر کہا کہ ہم نہ کہتے تھے کہ اسلام آباد کے راستے ان کے لیے اب بند ہو چکے ہیں۔ لیکن بالآخر اسلام آباد آنے کے اگلے روز ہی سکیورٹی نیشنل کمیٹی کے اجلاس سے پہلے میاں نواز شریف کی فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف سے‘ جن کے ساتھ تعلقات انتہائی کشیدہ بتائے جا رہے تھے‘ ون آن ون ملاقات بھی ہو گئی۔
نواز لیگ نے تمام تر گالم گلو چ اور بلاول بھٹو کے نعر ے کی صورت میں تازہ یلغار کہ 'مودی کا جو یار ہے غدار ہے غدار ہے‘ کے باوجود 2013ء میں اقتدار میں آنے کے بعد قر یباً تمام ضمنی انتخابات، بلدیاتی انتخابات، گلگت بلتستان اور اب آزاد کشمیر کے الیکشن سویپ کرنے کا ریکارڈ برقرار رکھا ہے۔ یقینا میاں صاحب کا فوج کے سربراہ سے تال میل گزشتہ چند ماہ میں مثالی نہیں رہا؛ تاہم اس حوالے سے میاں صاحب کی اسلام آباد روانگی سے عین قبل برادر خورد میاں شہباز شر یف کی جنرل راحیل شریف سے ملاقات انتہائی اہم تھی۔ اس تناظر میں اب میاں صاحب کی سیاسی پوزیشن خاصی مستحکم ہوئی ہے، اسی بنا پر انہیں 'پاناما گیٹ‘ کے مسئلے پر ٹی او آرز کی تشکیل پر اپوزیشن سے مذاکرات کر نے کے معاملے کا سیاسی حل نکال لینا چاہیے۔
دوسر ی طرف اسے میاں صاحب کی خوش قسمتی ہی کہیں کہ ان کے خلاف اپوزیشن کے اتحاد میں بھی عمران خان کے اس یک طرفہ اعلان کے بعد کہ وہ 7 اگست سے حکومت کے خلاف تحریک چلائیں گے‘ دراڑ پڑ گئی ہے۔ فی الحال بلاول بھٹو کا یہ خواب کہ وہ عمران خان کے ساتھ ایک ہی ٹرک پر سوار ہو کر تحریک چلائیں گے، شرمندہ تعبیر ہوتا نہیں نظر آتا۔ گزشتہ روز ایک دوست سے ملاقات ہوئی تو اس نے بڑی شدت کے ساتھ یہ موقف دہرایا کہ ''یقینا میاں نواز شر یف کا بائی پاس تو ہوا ہی نہیں‘‘۔