"ANC" (space) message & send to 7575

سا ئیں کی چھٹی بلا ول کی جیت؟

سندھ کی تاریخ میں سب سے زیادہ مدت تک وزیر اعلیٰ رہنے کا اعزاز حاصل کرنے والے سا ئیں قائم علی شاہ بالآخر وزارت اعلیٰ سے فارغ ہو گئے۔ تین بار وزیر اعلیٰ رہنے والے 83 سالہ بزرگ کو اب جانا ہی تھا۔ شاہ صاحب صوبہ سندھ میںجہاں 1972ء سے ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت سے لے کر ہر جمہو ری دور میں زیادہ تر پیپلز پارٹی کی ہی حکومت رہی ہے، اپنے پیچھے بہت بڑا خلا چھوڑ کر جا رہے ہیں۔ یہ خلا نااہلی، کر پشن اور مجموعی طور پر خراب گورننس کا ہی کہا جا سکتا ہے۔ پیپلز پارٹی کو بالعموم اور سند ھ کو بالخصوص نئے خون کی ضرورت تھی، جو اگر مراد علی شاہ کے نام وزارت اعلیٰ کا قر عہ نکل آ یا تو پو ری ہو جا ئے گی۔ مراد علی شاہ امر یکہ کی سٹینفورڈیو نیو رسٹی سے انجینئرنگ اور اکنامکس میں ڈبل ایم ایس سی ہیں۔ سندھ کے معروف سیا ستدان سید عبداللہ شاہ کے صاحبزادے اور روشن خیال سیاسی گھرانے سے تعلق رکھتے ہیں۔ جہاں پنجاب کو پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ اورحکمرانوں کا گڑ ھ کہا جاتا ہے، غربت اور پسماندگی کی اتھا ہ گہرا ئیوں میں ہو نے کے با وجود بلو چستان کی سٹرٹیجک اہمیت بھی مسلمہ ہے اور افغانستان اور پشتونوںکے حوالے سے خیبرپختونخوا کا مقام بھی کلیدی ہے، وہاں سندھ کو بھی ایک منفرد حیثیت حا صل ہے ۔ یہ صوبہ ثقا فتی لحاظ سے تو بہت امیر ہے، لیکن ترقی کے لحاظ سے انتہائی غریب ہے۔ اس کا دارالحکومت کراچی سب سے بڑی بندرگاہ اور اقتصادی شہ رگ کے اعزاز کا حامل ہے۔ کر اچی جس کی آ بادی ڈیڑھ کروڑ سے تجاوز کر چکی ہے، رقبے کے لحا ظ سے بھی کئی ملکوں سے بڑا ہوتے ہوئے ایک مکمل صوبے کی حیثیت رکھتا ہے۔ یہاں پٹھان، پنجابی، بلو چ اور بھارت سے آئے ہو ئے مہاجر ین کی کثیر تعداد گھر کئے ہوئے ہے۔ یہ لسا نی بنیا دوں پر بنا ئی گئی پاکستان کی سب سے بڑ ی جما عت ایم کیو ایم کا گڑھ بھی ہے۔ دوسر ی طرف کر اچی، حیدر آ باد اور سکھرکو چھوڑ کر دیہی سندھ میں پیپلز پا رٹی کا طوطی بولتا ہے۔ شہر ی اور دیہی سندھ میں سندھیوں کے تضا دات ہی صوبے کا سب سے بڑا مسئلہ ہیں۔ 1972-73ء میں بھٹو صاحب کے دور میں ممتاز بھٹو سندھ کے وزیراعلیٰ تھے، اس وقت بھی وہاں لسانی بنیادوں پر
شورش بپا ہو ئی اور یہ نعر ہ لگا یا گیا کہ ''اردو کا جنازہ ہے ذرا دھوم سے نکلے‘‘۔ اگر جمہو ری ادوار رہتے تو سند ھ جو اس وقت رینجرز اور سیاسی حکومتو ں کے درمیان فٹ بال بنا ہو ا ہے، کا حشر ایسا نہ ہو تا۔ ستمبر 2013ء میں وزیر اعظم میاں نواز شر یف نے سندھ میں ایم کیو ایم، حکمران جما عت پیپلزپارٹی اور فوجی قیا دت کے تعا ون کے ساتھ 'کراچی آپر یشن‘ کا آ غاز کیا، جس کے بعد جہاں رینجرز نے ایم کیوایم کے قبضہ گروپوں اور بھتہ ما فیاز سے کرا چی کو نجات دلا ئی اور کراچی کی رونقوں، روشنیوں کو بحال کیا، وہیں سیاسی قیا دت سمجھتی ہے کہ سند ھ میں رینجرز کا وجو د اب ایسے ہی ہے جیسا کہ عر ب کے خیمے میںاونٹ گھس آیا، جس نے خیمے پر قبضہ کر لیا اور جانے کا نام نہیں لیتا۔ سند ھ کے وزیر داخلہ انور سیال کے بھائی کے فرنٹ مین اسد کھرل کی رینجرز کے ہا تھوں گرفتاری، رہا ئی اور پھر گرفتا ری، کرا چی میں رینجرز کے آپریشن میں ایک سال کی تو سیع کے مسئلے پر وجہ تنا زع بن گئی، لیکن مقام شکر ہے کہ دبئی میںآصف زرداری کی صدارت میں اجلاس کے بعد طوعاً وکر ہاً یہ تو سیع کر دی گئی ہے۔ اس سارے معا ملے میں قائم علی شاہ کچھ اکھڑے اکھڑے سے نظر آتے رہے۔ شاید ان کی عمر کا بھی تقا ضا تھا کہ بعض اوقات انھیں نام یا د رکھنے میں دشواری ہو تی تھی حتیٰ کہ اسمبلی میں اپنی نشست بھی بھول جا تے تھے لیکن بنیا دی طور پر وہ شر یف النفس انسان ہیں اور کر پشن کے مو جو دہ کلچر میں انہوں نے اپنے دامن کو آ لو دہ نہیں ہو نے دیا جو بہرحا ل کمال بھی ہے اور کرشمہ بھی۔
بعض لو گو ں کا کہنا ہے کہ شاہ صاحب کی طرف سے رینجرز کواختیارات دینے کی پر زور حمایت ہی ان کی سبکدوشی کی وجہ بنی ہے لیکن اصل وجہ بر خوردار بلا ول بھٹو کے ساتھ ان کا تال میل نہ ہو نا تھا۔ یقینا شاہ صاحب اپنی طول العمر ی کی بناپر بلاول بھٹو کے نانا جان ذوالفقار علی بھٹو کے دور سے تعلق رکھتے ہیں اور بلاول بھٹو تو ابھی سیاست کے طفل مکتب ہیں، لیکن سا ئیں کی چھٹی بلاول کی جیت ہے اور اس امر کی غمازی کر تی ہے کہ آ ہستہ آ ہستہ یہ نوجوان اپنے قدم جما رہا ہے۔ سید مراد علی شاہ اگر وزیر اعلیٰ بنتے ہیں توان سے بلاول کی اس لحاظ سے بہتر نبھے گی کہ دونوں مغرب کے تعلیم یافتہ ہیں اور مراد شاہ نسبتاًجوان ہیں ۔سند ھ کے مسائل لاینحل ہیںاور اس کو نئی قیا دت کی اشد ضرورت تھی۔
سند ھی ہا ری ،فیو ڈل ازم اور غربت کی دوہر ی چکّی جس کا ایک دوسرے سے گہرا تعلق ہے میں پس رہے ہیں۔ انھیں اس گرداب سے نکالنے کے لیے بہتر گورننس ،حکمت عملی اور شفافیت کی ضرورت ہے۔ سندھ کے نئے وزیر اعلیٰ اپنی کابینہ میں کس قسم کی قیادت سامنے لا تے ہیں اس سے پتہ چل جائے گا کہ پیپلز پا رٹی کی قیا دت سند ھ کو ٹھیک کرنے میں کتنی مخلص ہے۔ کیو نکہ بلا ول بھٹو اور ان کے والد کو یہ احسا س ضرورہو گا کہ نہ صرف سندھ کے مسائل کا حل ان کے پاس ہے بلکہ وہ مسئلہ کا حصہ بھی خود ہیں۔ بلا ول بھٹو کے لیے عشق کے امتحاں اور بھی ہیں۔ پاکستان کے سب سے بڑ ے صوبے پنجاب میں پیپلز پا رٹی میںنئی روح پھونکے بغیر ان کا وفاق میں اقتدار حاصل کر نے کا خواب شر مند ہ تعبیر نہیں ہو پا ئے گا۔ لیکن بر خو ردارکوابھی تک سب سے بڑ ے صوبے کا تنظیمی دورہ کر نے کی فرصت ہی نہیں ملی۔باقی صوبوں کی طرح پنجاب میں منظوروٹو کی قیادت والا تنظیمی ڈھا نچہ تحلیل ہو چکا ہے،اس کی جگہ نئے ڈھا نچے کی ضرورت ہے۔ آزاد کشمیر کی حا لیہ انتخا بی مہم میں بلا ول بھٹو عملی طور پر پیش پیش تھے، اپنی تقاریر میںان کا زیا دہ زور میاں نواز شر یف اور ان کی جما عت کو رگیدنے میں لگا، شاید اس کے علا وہ ان کے پاس کو ئی چا رہ کار بھی نہیں تھا کیو نکہ بلا ول بھٹو کو یقینا اس بات کا علم تھا کہ وہاں پا رٹی کی قیا دت نے کرپشن اور پروٹو کول لینے میں تو خو ب ہا تھ رنگے لیکن کشمیر ی عوام کے لیے کچھ نہیں کیا۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ نواز شریف کی کامیابی ان کے کسی حسن کا رکر دگی کی بنا پر نہیں بلکہ اپوزیشن کی نااہلیوں کی بنا پر ہے ۔پیپلز پارٹی کی نئی قیا دت کو گڈگورننس اور اچھی سیاست کر کے ناقد ین کے منہ بند کرنا ہوں گے۔ یہ بھی دیکھنا پڑے گا کہ سندھ کے نئے وزیر اعلیٰ کس حد تک بااختیار ہوں گے یا اپنے پیش رو کی طرح بلاول ،ان کے والد اور پھوپھی جان فریال تالپور کے آگے ہی کورنش بجا لاتے رہیں گے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں