کنٹینر، ریلیاں، دھرنے یعنی سیاسی ایجی ٹیشن کا سیزن پھر شروع ہو گیا ہے، مال روڈ لاہور، اسلام آباد،کراچی،فیصل آباد اور گوجرنوالہ میں علامہ طاہر القادری کے اجتماعات یا عمران خان کی پشاور سے اٹک تک یلغار سب ایک ہی تحریک کا حصہ ہیں جس کا مقصد نواز شریف کی حکومت کو اگر گرانا نہیں تو دبائو میں لانا ضرور ہے۔ دوسری طرف عدالتوں، الیکشن کمیشن اور پریس کانفرنسوں میں میاں نواز شریف اور ان کی حکومت کو کرپشن، پاناما گیٹ اور خراب گورننس کی بنیاد پر مطعون کرنے کی بھرپور کوشش کی جا رہی ہے۔ شیخ رشید جو مختلف چینلز پر 'گیسٹ نمبر ون' کے طور پر سب سے زیادہ بلائے جاتے ہیں مسلسل کہہ رہے ہیں کہ اگلے نوے روز حکومت پر بھاری ہیں۔ شیخ صاحب کا کسی سطح پر جی ایچ کیو یا آبپارہ سے رابطہ ہے یا نہیں لیکن کم از کم عوامی مسلم لیگ کے سربراہ اور اپنی پارٹی کے واحد رکن قومی اسمبلی دانستہ طور پر یہی تاثر دیتے ہیں۔ میڈیا کے بعض 'پنڈت 'جن کا کام ہی ہر جمہوری حکومت کے جانے کی تاریخیں دینا ہے کا بھی دعویٰ ہے کہ میاں نواز شریف اب چند ہفتے کے مہمان ہیں۔ دوسری طرف حکمران جماعت بھی چھریاں تیز کئے بیٹھی ہے۔ دانیال عزیز نے تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان اور جہانگیر ترین کے خلاف آف شور کمپنیوں کو خفیہ رکھنے کے الزام میں سپیکر کے پاس ریفرنس دائر کر دیا ہے کہ وہ آئین کے آرٹیکل 62 اور 63 کے تحت صادق اور امین نہیں ہیں لہٰذا ان کی قومی اسمبلی کی رکنیت ختم کی جائے۔ ن لیگ کے مطابق عمران خان لٹیروں اور ڈاکوؤں کو اپنے پروں کے نیچے لے کر احتساب کے لیے تحریک چلانے نکلے ہیں۔ اس سے پہلے اثاثے چھپانے کے الزام میں پیپلز پارٹی ، تحریک انصاف اور شیخ رشیدالیکشن کمیشن میںمیاں نواز شریف کیخلاف ریفرنس دائر کر چکے ہیں۔
ادھر اپوزیشن کی تحریک کو ناکام بنانے کے لیے میاں نواز شریف اپنے اتحادیوں کے علاوہ پارٹی کے ارکان سے بھی ملاقاتیں کررہے ہیں۔ میاں صاحب کا وتیرہ ہی یہ ہے کہ جب 'سب اچھاـ' ہو تو اپوزیشن اور حلیف تو کجا اپنے وزیروں کو بھی لفٹ نہیں کراتے لیکن ضرورت ایجاد کی ماں ہے، چند روز پہلے انھیں مسلم لیگ )ن( کی پارلیمانی پارٹی کے بھرپور اجلاس میں اپنے ہی ارکان کی کڑوی کسیلی باتیں برداشت کرنا پڑیں ۔ میاں صاحب اس وقت دوہری حکمت عملی پر عمل پیرا ہیں۔ ایک تو درون خانہ اپوزیشن کو تقسیم کر رہے ہیں اور اپنی پارٹی کے ارکا ن اور حواریوں کو اکٹھا کر رہے ہیں اور دوسری طرف حکومتی مشینری کے ذریعے یہ تاثر دے رہے ہیں کہ وہ بطور وزیر اعظم ملکی ترقی کے منصوبوں کی تکمیل میں دن رات ایک کر رہے ہیں۔ اس معاملے میں ان کے برادر خورد شہباز شریف بھی مزید متحرک ہو گئے ہیں۔ اس تاثر کو زائل کرنے کے لیے کہ بجلی کے منصوبے تاخیر اور تعطل کا شکار ہیں ،جمعرات کو میاں شہباز شریف نے اخبار نویسوں ، اینکرز حضرات اور بعض اخبارات کے مالکان کی ٹیم کو ہیلی کاپٹروں میں بٹھا کر ساہیوال میں پاک چین اقتصادی راہداری کے تحت بننے والے کوئلے سے چلنے والے بجلی کے منصوبے کی سیر کرائی۔ لاہور میں چین کے قونصل جنرل یوبورن اور چینی قومی ادارہ توانائی کے نائب منتظم لی فزوگ بھی ان کے ہمراہ تھے۔ اخبار نویسوں کو بریفنگ دی گئی کہ1320میگا واٹ کا یہ پراجیکٹ اپنے مقررہ وقت سے پہلے اگلے سال جولائی میں ہی مکمل ہو جائے گا۔ میاں شہباز شریف جنہوں نے میڈیا کے ارکان کے لیے پر تکلف لنچ کا بھی اہتمام کر رکھا تھا اچانک بریفنگ کے بعد یہ کہہ کر اسلام آباد روانہ ہو گئے کہ انھیں وزیر اعظم نے بڑی اہم میٹنگ کے لیے طلب کر لیا ہے۔ یہ میٹنگ آرمی چیف جنرل راحیل شریف کے ساتھ ہو رہی تھی۔ جس میںبعدازاں شہباز شریف بھی شریک ہوگئے۔ بظاہر اس اجلاس کا مقصد سکیورٹی کی صورتحال کا جائزہ لینا تھا لیکن یقینا اس کا تعلق اپوزیشن کی یلغار اور شاید جنرل صاحب جن کی مدت نومبر میں پوری ہو رہی ہے کے مستقبل سے بھی تھا۔ میڈیا پرسنز کو بہاولپور سولر اور بھکھی پراجیکٹ کا بھی دورہ کرایا گیا۔ سیکرٹری پانی و بجلی یونس ڈھاگہ نے مجھے بتایا کہ ستمبر 2017ء تک سسٹم میں اتنی بجلی آجائے گی کہ لوڈشیڈنگ اگر ختم نہ ہوئی تو کم ترین ضرور ہو جائے گی۔ انھوں نے واضح کیا کہ وہ ان علاقوں کی بات کر رہے ہیں جہاں بجلی کے بل ادا کیے جاتے ہیں اور وہ علاقے جہاں بجلی مفت چلائی جاتی ہے وہاں لوڈ شیڈنگ بھی ہوتی رہے گی ۔لیکن الیکشن جیتنے کے لیے بجلی اور سڑکیں ہی کافی نہیں ہیں اس کے لیے کچھ دیگر لوازمات بھی ہیں ،حکومت کو بہرحال کرپشن کے معاملے میں اپنی پوزیشن واضح کرنی ہوگی۔ وزیر پٹرولیم شاہد خاقان عباسی نے بھی اپوزیشن اور میڈیا پرسنز کو چیلنج کیا ہے کہ وہ مسلم لیگ )ن( کے دور میں کرپشن کی ایک پائی بھی ثابت نہیں کر سکتے۔
ابھی تو الیکشن میں قریباً بائیس ماہ پڑے ہیں لیکن اپوزیشن تو حکومت کو وقت سے پہلے ہی چلتا کرنے کے موڈ میں ہے۔ بظاہر تو یہ بے ثمر جدوجہد صاف چھپتے بھی نہیں اور سامنے آتے بھی نہیں کے مترادف ہے۔ ایجی ٹیشن کا پہلا راؤنڈ 2014ء کی طرح بھرپور نہیں ہے۔ اس حوالے سے پیپلزپارٹی کا طرز عمل بھی خاصا معنی خیز ہے۔ پہلے تو بلاول بھٹو زرداری جوش میں آکر یہ تاثر دے رہے تھے کہ وہ اور عمران خان ایک ہی کنٹینرپر ہونگے لیکن دبئی میں ابا جان سے مشاورت کے بعد معاملات کچھ مختلف نظر آرہے ہیں۔ پہلے تو بلاول بھٹو نے ایجی ٹیشن کے لیے ستمبر کی تاریخ دی لیکن اب انھوں نے اپنی جماعت کی شمولیت کے معاملے کو موخر کر دیاہے۔ مجھے لگتا ہے کہ پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ )ن( کے درمیان بیک چینل روابط نہ صرف استوار بلکہ فعال ہو چکے ہیں اور آصف زرداری نے یہ فیصلہ کر لیا ہے کہ نواز لیگ کی حکومت کوبطور اپوزیشن مطعون تو کیا جائے لیکن اسے ایجی ٹیشن کے ذریعے گراکر' سٹیٹس کو' کو خراب کرنا اس کے وسیع تر مفاد میں نہیں ہے۔ نیز پیپلزپارٹی میں یہ تاثر بھی پختہ ہے کہ ہم سب سے بڑی اپوزیشن پارٹی ہیں لہٰذا بلاول ، عمران خان کی انگلی پکڑ کر کیونکر ایجی ٹیشن میں شریک ہوں، بدقسمتی سے میاں نواز شریف کی صفوں میں بعض پورس کے ہاتھیوں کو پیپلز پارٹی ایک آنکھ نہیں بھاتی اور اس حوالے سے وزیر داخلہ چوہدری نثار پیش پیش ہیں جو چوہدری اعتزاز احسن کے تندوتیز حملے برداشت نہیں کرپاتے اور پیپلز پارٹی پر برس پڑتے ہیں حالانکہ بطور حکمران جماعت مسلم لیگ )ن( کے رہنماؤںکوبرداشت کا مادہ بڑھاتے ہوئے ٹھنڈی کرکے کھانی چاہیے۔