یہ بلند بانگ دعوے کہ ہم نے دہشت گردی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکا ہے اور دہشت گردوں کے بھاگنے کے راستے بند کر دیے ہیں، 8 اگست 2013ء کی طرز پر گزشتہ روزکا سانحہ رونما ہونے سے ریت کی دیوار ثابت ہوئے ہیں۔ ہم اپنے کالموں میں دست بستہ ان خدشات کا تذکرہ کرتے رہے ہیں کہ سانپ زخمی ہوا ہے، مرا نہیں اور ابھی یہ پھنکار رہا ہے۔کوئٹہ میں دہشت گردی کی بزدلانہ کارروائی، جس میں کم از کم 71 افراد شہید اور120 زخمی ہوئے ہیں، اس بات کی گواہی دے رہی ہے کہ ابھی اس محاذ پر مکمل کامیابی کا اعلان کرنے سے پہلے بہت کچھ کرنا باقی ہے۔ کوئٹہ کے واقعے کی سنگینی اس لحاظ سے زیادہ بڑھ جاتی ہے کہ اس کا ٹارگٹ وکلا تھے۔ بلوچستان بار ایسوسی ایشن کے صدر بلال انورکاسی کو پہلے گولی مارکر شہید کیا گیا اور جب وکلا سول ہسپتال میں اکٹھے ہوئے تو وہاں سوچے سمجھے منصوبے کے تحت دہشت گرد اپناگھناؤنا کھیل کھیل گئے۔ یہ امر افسوسناک ہے کہ بلوچستان کے وکلا کی کریم کو دہشت گردی کے ایک ہی حملے میں اڑا دیا گیا۔ ہسپتال پر تو جنگ کے دوران بھی دشمن حملہ نہیں کرتا، اس بنا پر سول ہسپتال کوئٹہ میں اس کارروائی کو انتہائی سفاکانہ اور بزدلانہ قرار دیا جا سکتا ہے۔
وزیر اعظم میاں نواز شریف اور آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے معمول کے مطابق موقع پر جا کر زخمیوں کی عیادت کی، عمائدین کے مذمتی بیانات کی بھی بھرمار ہوگئی، یقیناً شہدا کے لواحقین کے لئے معاوضے کا بھی اعلان کیا جائے گا اور بعد از خرابی بسیار حکومتی اور فوجی سربراہوںکو بریفنگ بھی مل چکی ہوگی کہ یہ واقعہ کس طرح پیش آیا۔ میڈیا میں یہ تاویلیں بھی دی جا سکیں گی کہ یہ بہت بڑی انٹیلی جنس ناکامی ہے، لیکن اس کے بعد معمول کے مطابق کاروبار حکومت اور زندگی چلنا شروع کر دیں گے۔ بلوچستان کے وزیر اعلیٰ ثنا اللہ زہری نے ایک مقامی چینل سے بات کرتے ہوئے دعویٰ کیا ہے کہ یہ دہشت گردی 'را‘ کی کارستانی ہے۔ 'را‘ یقیناً پاکستان میں فعال ہوگی جس کی مکمل تحقیقات ہونی چاہیے۔ وزیر داخلہ بلوچستان سرفراز بگٹی کا کہنا ہے کہ یہ سکیورٹی لیپس ہے۔ بلاشبہ جو بھی اس سفاکانہ واردات کاذمہ دار ہے وہ پاکستان کا دشمن ہے۔
ایسا لگتا ہے کہ دہشت گردی کے واقعات میں قابل ذکر کمی کرنے کے بعد ہمارے ریاستی ادارے کسی حد تک خواب خرگوش میں مبتلا ہو گئے تھے، اب انہیں ہوش آ گیا ہوگا کہ سب اچھا نہیں ہے۔ وطن عزیز میں سنجیدہ تجزیہ کار عرصے سے یہ دہائی دے رہے ہیں کہ دہشت گردی کے خلاف فیصلہ کن انداز سے جنگ جیتنے کے لئے بہت سے لوازمات درکار ہیں جو فراہم نہیں کئے جا رہے۔کسی ایک فریق کو مورد الزام ٹھہرائے بغیر حقیقت تو یہ ہے کہ 'ضرب عضب‘ کے حوالے سے بننے والے نیشنل ایکشن پلان پر صدق دل سے عمل ہوا ہی نہیں۔ سانحہ کوئٹہ کے حوالے سے دیا جانے والا کوئی بھی جواز غمزدہ خاندانوں کے زخموں پر پھاہا نہیں رکھ سکتا اور نہ ہی انہیںایسی ضمانت دی جا سکتی ہے کہ ایسے واقعات یکسر رونما نہ ہوں۔ بلا شبہ دنیا اس وقت دہشت گردی کا شکار ہے۔ فرانس، برطانیہ، امریکہ، جرمنی جیسے ممالک بھی اس کی زد میں ہیں۔ جوں جوں مغرب کی عسکری قوت کی مدد سے عراق اور شام میں داعش کے زیر تسلط علاقے واگزار کرائے جا رہے ہیں، اسلام کے نام پر دہشت گردی کرنے والے اس خون خوار گروہ کی کارروائیاں بڑھتی جا رہی ہیں۔کوئٹہ میں ہونے والے اس سانحے کی ذمہ داری تحریک طالبان سے علیحدگی اختیار کرنے والے گروپ 'جماعت الاحرار‘ نے قبول کر لی ہے۔ اس گروپ کے ترجمان احسان اللہ احسان نے میڈیا سے رابطہ کرکے وکیل رہنما کی شہادت اور بعد میں سول ہسپتال میں دھماکے کی ذمہ داری قبول کی لیکن ہماری لیڈرشپ کے مطابق پاکستان میں 'آئی ایس آئی ایس‘ اور اس جیسی دیگر دہشت گرد تنظیموںکا وجود ہی نہیں ہے۔ نائن الیون سے پہلے ہمارے رہنما دعویٰ کرتے تھے کہ 'القاعدہ‘ نام کی کوئی تنظیم پاکستان میں متحرک نہیں ہے۔ یقیناً کوئٹہ کے واقعہ کے بعد ہمیں حقیقت پسندی سے کام لیتے ہوئے دہشت گردی کے خلاف پالیسیوںکو مزید مربوط کرنا ہوگا۔ اس حوالے سے عسکری اداروں اور وفاقی و صوبائی حکومتوںکو اپنا تال میل بنانا پڑے گا۔
اکثر یہ کہا جاتا ہے کہ ملک کے مختلف حصوں میں دہشت گردوں کی آماجگاہیں موجود ہیں لیکن ہمارے انٹیلی جنس ادارے بعض مصلحتوں کی بنا پر ان سے صرف نظر کرتے ہیں۔ بلوچستان خود طالبان کا گڑھ سمجھا جاتا ہے۔کچھ عرصہ قبل تحریک طالبان کے سربراہ ملا اختر منصور اسی صوبے میں امریکی ڈرون حملے میں مارا گیا اور اس کے جانشین ملا ہیبت اللہ کا تعلق بھی کچلاک سے ہے۔اس حملے کے وقت تو ہماری حکومت اور عسکری قیادت نے ہا ہا کار مچائی تھی کہ یہ ڈرون حملہ پاکستان کی خود مختاری پر کیا گیا ہے۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ وہ عناصر جو دن دہاڑے نہتے شہریوں کے خون سے ہولی کھیل رہے ہیں وہ پاکستان کی کونسی خدمت کر رہے ہیں۔ اب بھی آپ کو بہت سے ایسے سقراط ملیں گے جن کے نزدیک کوئی مسلمان دوسرے مسلمان کا قتل عام نہیں کر سکتا، لیکن بدقسمتی سے ایسا ہی ہے کہ اسلام کی انوکھی تاویل کرنے والے اپنے مسلمان بھائیوں کا خون بہا رہے ہیں۔ جہاں تک 'را‘ کا تعلق ہے، اس کی ریشہ دوانیوں کی بیخ کنی کرنا کس کے فرائض منصبی میں شامل ہے؟
وقت آ گیا ہے کہ کراچی سے خیبر تک دہشت گردوں کا مکمل خاتمہ کرنے کے لئے بھرپور اور مربوط کارروائی کی جائے اور اس حوالے سے کسی قسم کی مصلحت بروئے کار نہ آنے دی جائے۔کوئٹہ کے افسوسناک واقعہ میںکچھ میڈیا کے ارکان بھی اپنے فرائض منصبی کی ادائیگی کے دوران شہید ہوئے ہیں، ان کے لواحقین سے اس سانحہ پر اظہار تعزیت اور ہمدردی ہے۔ امید ہے کہ وہ میڈیا ادارے ایک طرف تو متاثرہ خاندانوں کی بھرپور کفالت کریںگے اور دوسری جانب اس امر کی بھی ضرورت ہے کہ میڈیا کے ادارے ورکرزکو ایسے واقعات کی کوریج کرنے کے لئے حفاظتی سازوسامان کے ساتھ مناسب ٹریننگ سے لیس بھی کریں۔
سانحہ کوئٹہ کے فوری بعد دو ہنگامی اجلاس ہوئے۔ گورنر ہاؤس بلوچستان میں ہونے والے اجلاس میں وزیر اعظم میاں نواز شریف نے ہدایت کی کہ تمام سکیورٹی ادارے دہشت گردوں کے خاتمے کے لئے پوری طاقت کا استعمال کریں۔ آرمی چیف جنرل راحیل شریف کی زیر صدارت اجلاس میں سپہ سالار نے سکیورٹی اہلکاروںکو حکم دیا کہ ملک بھر میںکومبنگ آپریشن شروع کر دیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ حساس ادارے ملک بھر میں کہیں بھی دہشت گردوں کے خلاف کارروائیاں کرنے اور ان کو پکڑنے کے مجاز ہوںگے۔ ایسے اجلاس ہر سانحہ کے بعد ہوتے ہیں، احکامات بھی دیے جاتے ہیں، لیکن چند روز بعد 'رات گئی بات گئی‘ والی صورت حال ہو جاتی ہے۔ خدا را! حکومت اور قانون نافذ کرنے والے ادارے دہشت گردی کے خلاف ٹھوس اور نیک نیتی کے ساتھ اقدامات کریں تاکہ قوم کو اس عفریت سے نجات مل سکے۔
ایک اخباری اطلاع کے مطابق افغانستان سے 16 بمبار پنجاب کے دس بڑے شہروں میں داخل ہو چکے ہیں اور یہاں تباہی پھیلانا چاہتے ہیں۔ حساس ادارے نے متنبہ کیا ہے کہ افغانوں کی سکریننگ کی جائے۔ امید ہے وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف اس سلسلے میں چوکس اور حفاظتی اقدامات کر رہے ہوںگے۔ اصل ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اپنی علاقائی پالیسیوں اور موجودہ دفاعی حکمت عملی پر بھی نظرثانی کریں۔ افغانستان سے تعاون کے بغیر دہشت گردی پر قابو پانا تقریباًنا ممکن ہے۔ اس کے لئے 'گڈ اینڈ بیڈ‘ طالبان کے درمیان تفریق اگر کوئی ہے تو اسے ختم کرنا ہوگا۔
میاں نواز شریف کو بھی اپنی چارپائی کے نیچے ڈانگ پھیرنی چاہیے۔ چودھری نثار علی خان جو بطور وزیر داخلہ دہشت گردی کے خلاف جنگ کے لئے فوکل پرسن ہیں، نہ تو سانحہ کے روزکوئٹہ میں نظر آئے اور نہ ہی قومی اسمبلی میںاس سانحہ پر بحث کے دوران۔ انہیں سندھ کے حوالے سے پیپلز پارٹی کو بے نقط سنانے سے فرصت ملے تو کوئی اور کام کریں۔ یہ بات وزیر اعظم کے سوچنے کی ہے کہ ان کے وزیر داخلہ کہاں تک ڈلیورکر پا رہے ہیں یا صرف ان کے لئے مسئلہ ہی بنے ہوئے ہیں۔