جوں جوں وزیر اعظم نواز شر یف پا ور پالیٹکس کے حوالے سے نسبتا ًمستحکم ہو رہے ہیں سیاسی محا ذپر حکومت اور اپوزیشن کے درمیان کشیدگی بڑ ھتی جا رہی ہے ۔جنر ل را حیل شریف انتہا ئی عزت وتکر یم کے ساتھ رخصت ہو چکے ہیں، پاکستان میں بہت کم ایسی شخصیا ت ہو نگی جو اقتدار یا منصب کی مدت پوری کرنے کے بعد با وقا ر طر یقے سے گھر گئی ہوں اور لو گ جانے کے بعدان کے حق میں کلمہ خیر کہتے ہوں ۔اس معاملے میں میا ں نواز شر یف نے اپنے کا رڈ صحیح کھیلے ہیں ۔جنر ل را حیل شر یف کیساتھ ان کے خو شگوار تعلقات کا ر ہو نے کے با وجو د اتنی اچھی نہیں نبھی۔ جنرل صاحب نے اپنے مثا لی کردار اور امیج بلڈرز کے طفیل بہت اونچا رتبہ حا صل کیا ۔ ظا ہر ہے یہ کسی بھی وزیر اعظم کے لیے تشو یش کا باعث ہو سکتا تھا ۔میاں نواز شر یف کا معاملہ اس لحا ظ سے زیادہ گمبھیر ہو گیا تھاکہ عمران خا ن نے جنر ل را حیل شر یف کے تین سالہ دور میں محا ذ آرا ئی کی ایسی کیفیت پیدا کی جس سے میاں صاحب کا امیج شدید متا ثر ہوا ۔جنر ل را حیل شریف کے ابتد ائی دور میں ہی 19 اپریل 2014ء کو حا مد میر پر حملے سے لے کر آخر ی ہفتوں میں ''ڈان گیٹ ‘‘ تک فو جی قیا دت اور سویلین قیا دت کے درمیان تنا ؤ بر قرار رہا ۔ جب حا مد میر کے ادارے کی طرف سے بر ملا الزام لگا یا گیا کہ ان پر حملہ اس وقت کے ڈی جی آ ئی ایس آ ئی جنرل ظہیر الاسلام کے ایما پر ہو اہے تو میاں نواز شریف فوراً حامد میرکی مزاج پر سی کے لیے آ غاخان ہسپتال کر اچی پہنچ گئے ۔ اس سے فوجی قیا دت نے یہ تا ثر لیا کہ نواز شر یف متذکر ہ میڈیا گروپ کی اس الزام کے حوالے سے تا ئید کرکے پیٹھ ٹھونک رہے ہیں ۔ اسی بنا پر جنر ل را حیل شر یف اپنے ڈی جی آئی ایس آ ئی کو تھپکی دینے کے لیے آ ئی ایس آ ئی ہیڈکو ارٹر زپہنچ گئے ۔وہ دن اور آ ج کا دن اس میڈ یا گروپ کی معا فی تلا فی نہیں ہوسکی۔
''ڈا ن یا نیو ز گیٹ‘‘ میں بھی جنر ل را حیل شریف اور با لخصوص کو ر کما نڈرز نے سخت مو قف اختیار کیا کہ وزیر اعظم ہا ؤس میں قومی سلامتی کے حو الے سے ہونے والی اہم میٹنگ کی ایک خو د ساختہ روداد کیو نکر لیک کی گئی ۔ کورکما نڈرز کے بیان کے مطابق اس خبر کا مقصد محض فوج کو مطعون کرنا تھا۔ اس دوران ٹویٹس اور سوشل میڈیا کے ذریعے میاں نواز شریف کو مودی کا یا ر بھی قرار دیا گیا ۔ اس الزام کو اس وقت ہو املی تھی جب 26مئی2014ء کومیاں نو از شر یف بھارتی وزیر اعظم نر یندر مو دی کی حلف برداری کی تقر یب میں شرکت کے لیے نئی دہلی چلے گئے اور اس موقع پر بجائے کسی خیر سگالی کے انھیں مودی کی بے نقط باتیں سننا پڑ یں ۔جب مو دی گزشتہ برس 25 دسمبر کو میاں صاحب کی سالگر ہ اور ان کی نواسی کی شادی کے موقع پر لا ہو ر آ دھمکے تو اس موقف کو مز ید تقویت ملی۔ میاں نوازشر یف نے اپنے سا بق میلا ن طبع کے عین برعکس صبراور تحمل سے کام لیا اور تین برس اپنی ورکنگ ریلیشن شپ قائم رکھی ۔ اگرچہ یہ کہا جا رہا ہے کہ آ رمی چیف مدت ملازمت میں توسیع کے خو اہشمند نہیں تھے لیکن میر ی رائے میں اگر میاں صاحب انھیں سنجید گی سے پیشکش کرتے تو وہ' 'طو ہاً وکر ہا ً ‘‘قبو ل کر لیتے لیکن میاں صاحب نے انھیں ایسی کو ئی پیشکش کی ہی نہیں بلکہ وہ تو ان کی ریٹائر منٹ کے د ن گن رہے تھے ۔ بہرحال میاں صاحب نے جنر ل صاحب کو بھر پو ر خر اج تحسین پیش کرتے ہو ئے کہ ان کا دور مثا لی تھا بہت عزت کے ساتھ رخصت کیا اور اپنے استحقاق اور قابلیت کے معیار کو مد نظر رکھتے ہوئے جنر ل قمر جا وید باجو ہ کو نیا آرمی چیف چنا ۔واضح رہے کہ جنرل قمر جا وید باجو ہ 2014ء میں عمران خان کے دھرنے کے دوران راولپنڈ ی کی ٹین کو ر کے کمانڈر تھے اور خان صاحب اور ان کے حواریوں کی بسیا ر کو ششوںکے با وجو د امپا ئر نے انگلی نہیں اٹھائی۔ یقینا اس کا کریڈٹ جنرل راحیل شریف کو جاتا ہے جنہوں نے کیانی ڈاکٹرائن کے عین مطابق یہ فیصلہ کیا کہ اگر ہم سیاسی حکو مت کو نوٹس پر رکھ کر اپنی ڈھب کے فیصلے کروا سکتے ہیں تو حکومت کر کے بد نامی لینے کی کیا ضرورت ہے ۔اب ایسا لگتا ہے اگر میاں نواز شریف نے کو ئی بڑی حما قت نہ کی تو اپنی ٹرم پو ری کر کے ہی انتخابات کا اعلان کر یں گے ۔ شاید یہی وجہ ہے کہ شیخ رشید اینڈ کمپنی اور میڈ یا میں بہت سے ایسے تجز یہ کار جو دن رات میاں نواز شریف کے جانے کی تا ریخیں دیتے رہتے تھے اب منہ میں گھنگنیاں ڈا لے بیٹھے ہیں لیکن سیاسی محاذ پر میاں صاحب کے لیے خطرات بڑ ھتے جارہے ہیں۔ ایک طرف پیپلز پا رٹی کے شریک چیئرپرسن اور باس آ صف علی زرداری جنر ل را حیل شریف کے جانے کے بعد پاکستان واپس آ نے کے لیے سامان باند ھ رہے ہیں تو دوسر ی طرف بر خو ردار بلاول بھٹو ضمنی انتخابات میں منتخب ہو کر قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈربننے کا عندیہ دے رہے ہیں۔واضح رہے آصف زرداری 16جون 2015کواپنے اس بیان کہ ہمیں تنگ نہ کرو ورنہ اینٹ سے اینٹ بجا دینگے کے بعددبئی اور لند ن کے ہو کر رہ گئے تھے ۔گز شتہ برس اگست میں ڈاکٹر عا صم حسین کی گرفتاری کے بعد ان کے ذہن میں اگر واپسی کا کو ئی ارادہ تھا تو اسے موخرکر دیاگیا ۔ آ صف زرداری کی واپسی کے پروگرام میں اب بظاہر کوئی رکا وٹ نظر نہیں آتی، شنید ہے کہ وہ 27 دسمبر کومحترمہ بے نظیر بھٹو کی برسی سے قبل وطن لوٹ آئیں گے ۔ زرداری صاحب سمیت پیپلز پارٹی میں یہ تاثرعام ہے کہ میاںنواز شریف نے انھیں بوقت ضرورت استعمال کیا اور رات گئی بات گئی کے مترادف بعد میں ان کے مشکل وقت میں انکا ساتھ نہیںدیا۔ اس تناظر میں اور جنرل راحیل شریف کے جانے کے بعد بیان بازی کی حد تک پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے درمیان محاذ آرائی حیران کن نہیں ہے ۔
بلا ول بھٹو کے وزیر اعظم کے احتساب کے حوالے سے تند وتیز بیانات کے جواب میں وزیر مملکت برا ئے پانی وبجلی عابد شیر علی شائستگی کی تمام حدود کو عبو ر کرگئے ہیں۔ان کا یہ بیان کہ بلا ول پہلے اپنی پھو پھی ،آنٹی اور انکل کو ہتھکڑ یاں لگوائیں اور شر جیل میمن سے لو ٹی ہو ئی رقم واپس لیں نیز یہ کہ جہا نگیر ترین شہبازشریف کے ڈرائیور تھے اور شیخ رشید ٹیکس چور ہیں، تمام تر اشتعا ل انگیزی کے با وجو د حکمران جماعت کے کسی ذمہ دار عہدیدار کو ایسی زبان زیب نہیں دیتی ۔لیکن بلاول بھٹو بھی نچلے بیٹھنے والے نہیں۔بلاول ہاؤس کے تر جمان کے مطابق عا بد شیر علی بھی اپنی ما سی کی بیٹی کو بچانا چاہتے ہیں ۔ویسے اپوزیشن لیڈر خو رشید شاہ کی جگہ اگر بلاول بھٹو لیتے ہیں تو شاہ صاحب جن کے بارے میں مشہو ر ہے کہ وہ نواز شر یف کے لیے نر م گو شہ رکھتے ہیں کے مقابلے میں سخت تر ین لا ئن اختیا ر کر یں گے ۔ اس سے یقینا پارلیمنٹ میں گر ما گرمی بڑھ جا ئے گی ۔تحر یک انصاف نے یہ درست فیصلہ کیا ہے کہ پارلیمنٹ کی سٹینڈ نگ کمیٹیوں میں ان کے ارکان بھی شرکت کر یں گے ۔غالباً عمران خان کو کچھ تا خیر سے ہی سہی یہ احساس ہوتا جا رہا ہے کہ پا رلیمنٹ سے باہر رہنا ان کے لیے گھاٹے کا سودا ہے۔ اگر 24 ویںتر میم جس کے تحت عدالت عظمیٰ کے از خود نوٹس کے فیصلے کے خلاف لارجر بینچ میں اپیل کے حق کی تجویز دی گئی ہے، کو منظور ہونے سے روکنا ہے تو انھیں پارلیمنٹ میں آکر اپنا بھر پور کردار ادا کرنا ہو گا۔ بعض لو گو ں کا تو یہ کہنا ہے کہ خان صاحب اپنے وکیل حامد خان کی جگ ہنسائی کے بعد سپر یم کو رٹ سے کچھ مایوس ہو گئے ہیں لیکن سپر یم کو رٹ پا ناما گیٹ کے بارے میں کیا فیصلہ کرتی ہے اس کے باوصف پاکستان کی تیسر ی بڑ ی جماعت کے طور پر تحر یک انصاف کو بائیکا ٹ کی سیاست ہمیشہ کے لیے ختم کردینی چاہیے۔ 2008ء کے انتخا بات کے بائیکا ٹ سے لے کر آ ج تک خان صاحب نے جتنے بھی بائیکا ٹ کیے ہیں ان کا انھیں کوئی فا ئد ہ نہیںبلکہ نقصان ہی ہوا ہے ۔ تلخ تجربے کی بنا پر انھیں اپنی اصلا ح کر لینی چاہیے ،جہاں تک میاں نواز شر یف کا تعلق ہے اگر وہ سمجھتے ہیں کہ ان کے لیے اب ستوں خیر اں ہیں تو یہ ان کی خام خیالی ہو گی کیونکہ تاریخی طور پر فو جی سر بر اہ کسی سیاستدان کا 'سکا‘ نہیں ہوتا بلکہ اپنے ادارے کے تقا ضوں کے مطابق چلتا ہے ۔نیز 'پا ناماگیٹ ‘ کاباب ابھی ختم نہیں ہوا ،یہ تلو ار اب بھی نواز شر یف فیملی پر لٹک رہی ہے ۔