"ANC" (space) message & send to 7575

2017 ء ایک اہم سال.....

2017ء پاکستان کے لیے اہم سال ثا بت ہو گا۔ ویسے تو جب سے لنگڑ ی لو لی جمہوریت کااحیا ہو ا ہے قر یبا ً ہر روز ہی ان ہونے اور غیر معمولی واقعات ہو تے رہے ہیں ۔ سا ڑھے تین سال قبل جب سے میاں نواز شریف کی حکومت بر سراقتدار آ ئی ہے بہت سے تا ریخ ساز اور اہم واقعا ت ہو ئے ہیں۔ اگست 2014 ء میں عمران خان کے دھر نے سے لے کر اپر یل 2016ء میں'پاناما گیٹ ‘تک شاید ہی کو ئی ایسا لمحہ ہو جب عمران خان نے میاں نواز شریف کے ناک میں دم نہ کر رکھا ہو ۔الیکٹر انک میڈ یاا ور سوشل میڈ یا کے طفیل ہلّہ گلّااور تما ش بینی ہماری سیاست کا لا زمی جزو بن گئے ہیں ۔ گز شتہ سال تو اسی بحث وتمحیص میں گز رگیا کہ اس وقت کے فو جی سر برا ہ جنر ل را حیل شر یف 29 نومبر 2016ء کو اپنی مدت ملا زمت مکمل ہو نے پر ریٹائرہو جا ئیں گے یا تو سیع لیں گے ۔میں نے جنوری میں یہ خبر دی کہ چیف آ ف آ رمی سٹا ف تو سیع کے خواہشمند ہیں تو آ ئی ایس پی آ ر نے ایک ٹو یٹ کے ذریعے دوٹو ک وضاحت کر دی کہ وہ اپنی مدت مکمل ہو نے پر گھر چلے جا ئیں گے اور ایسا ہی ہوا،میں اپنی خبر پر آ ج بھی قا ئم ہو ں ،میر ی اطلا ع کے مطابق جنر ل را حیل شر یف تو سیع کے شد ید خواہشمند تھے لیکن وزیر اعظم نے حامی نہیں بھر ی۔ اس ضمن میں میاں شہباز شر یف اور چو ہدری نثار علی خان جو فو جی قیا دت اور میاں صا حب کے درمیان تاریخی طور پر پُل کا کردارکرتے چلے آ رہے ہیں نے میاں نواز شر یف پر بہت زور دیا کہ بڑ امشکل وقت ہے تو سیع دے کر جان بخشی کرا ئیں۔یہ وہ وقت تھا جب میاں صاحب دل کا با ئی پاس کروا کر لندن میں آرام کر رہے تھے ۔وطن واپسی کے بعد بھی دونوں نے اپنی کو ششیں جا ری رکھیں لیکن میاںنواز شر یف جومضبو ط اعصاب کے مالک ہیں نے پر یشر برداشت کر نے کو تر جیح دی۔ ان کاکہنا تھا کہ میں اپو زیشن کے دور میں کہتا رہا ہو ں کہ جنر ل کیانی کو کیو ںتو سیع دی گئی ہے، میں اقتدار میں آ کر ایسا نہیں کر وں گا ۔ایک ٹی وی چینل کو دیا گیا ان کا بطور اپو زیشن لیڈر ایک انٹر ویو بھی دوبارہ چلوا دیا گیا جس میں انھوں نے جنر ل کیا نی کو تو سیع دینے کے اقدام کی مخا لفت کی تھی ۔ نواز شر یف جن کے بارے میں کہا جا تا تھا کہ انہوں نے تاریخ سے کو ئی سبق نہیں سیکھا لیکن اس بار آ رمی چیف سے پنگا نہ لینے کی حکمت عملی کے تحت را حیل شر یف سے قدرے مایوس ہو نے کے با وجو د ان کی مد ت ملازمت ایک ایک دن گن کر گزاری۔
2017ء پچھلے سالوں سے ایک لحا ظ سے منفر د ہے کہ ایک نئے آ رمی چیف جنر ل قمر جا وید باجوہ اور ایک نئے چیف جسٹس آ ف پا کستان ثاقب نثار آچکے ہیں ۔یہ دونوں شخصیا ت اگلے انتخا بات کے انعقاد کے بعد تک اپنے منصب پر فا ئز رہیں گی ۔ ان کا طر ز عمل اور فیصلے اس سال ہو نے والے واقعات پر اثر انداز ہو سکتے ہیں ۔جنر ل قمرجا وید با جو ہ اس لحا ظ سے تو اپنے پیش رو کی ضد ہیں کہ انھیں اپنی ذاتی نمو د نما ئش یا' پر سینلیٹی کلٹ‘ (Personality cult)بنا نے کا کو ئی شوق نہیں۔ انھوں نے اپنی پہلی فر صت میں ہی آئی ایس پی آ ر کی جنر ل را حیل شر یف کے دور کی جہت کو تبد یل کر دیا۔ لیفٹیننٹ جنر ل عاصم سلیم باجوہ نے جن کا شما ر جنر ل راحیل شر یف کے معتمد ساتھیوں میں ہو نے لگا تھا آئی ایس پی آ ر جس کا کام تینوں مسلح افو اج پاکستان کی پبلک ریلیشننگ کرنا تھا کو جنر ل را حیل کا پی آ رونگ بنادیا تھا۔ جنرل را حیل نے نہ صرف آ ئی ایس پی آ ر کے سربراہ کو لیفٹیننٹ جنر ل کے عہد ے پر تر قی دی بلکہ آئی ایس پی آ ر جوپہلے چیفس آف سٹاف کمیٹی کے تحت ہوتا تھا کو اپنے ما تحت لے لیا ۔ جنر ل قمر جا وید باجو ہ نے اب میجر جنرل آ صف غفور کو آئی ایس پی آ ر کا سر برا ہ مقر ر کر کے اور اس ادارے کو دوبارہ سی جی ایس کے ماتحت دے دیا ہے۔ چند روز قبل آ ئی ایس پی آ ر کا دورہ کرتے ہو ئے انھوں نے اس ادارے کے نئے سر براہ کو تھپکی دیتے ہو ئے کہا کہ آپ میر ی نہیں بلکہ اپنے اصلی کام ا فواج پاکستان کی پی آ رکر یں ۔ ایک بات تو واضح ہے کہ جنرل قمرجا وید باجو ہ نے جو عمران خان کے دھر نے کے دوران 10کو ر جس کا تعلق اسلام آبا د ، راولپنڈ ی سے بھی ہے کے کمانڈر تھے، خود کو دھر نے سے دور رکھا اور خان صاحب اس انتظار میں تڑ پتے ہی رہے کہ تیسر امپا ئر کب انگلی اٹھائے گا لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ دھر نے میں اس وقت کے آ ئی ایس آ ئی کے سر بر اہ غیر معمولی دلچسپی لے رہے تھے ۔اس پس منظر کو بیان کر نے کا مقصد یہ ہے کہ فوج کے نئے سر بر اہ پر وفیشنل سولجر ہو نے کے علاوہ خود کو سیا ست اور بالواسطہ سیا ست گر ی سے دور رکھیں گے لیکن دیکھنا یہ ہے کہ میاں نوازشر یف جن کی کسی بھی فوجی سر بر اہ سے نہیں نبھی اس مر تبہ خوشگوار تعلقا ت کا ر قا ئم رکھنے میں کس حد تک کامیاب ہوتے ہیں۔اگر انھوں نے اس اطمینان کے ساتھ کہ فوجی قیادت سے اب کو ئی خطر ہ نہیں۔ ہتھ چھٹ پالیسیاں احتیا ر کر لیں تو معاملہ بگڑ سکتا ہے۔ بہت سے تجز یہ کار جو بظا ہر جمہوریت کادم بھر نے کے با وجو د ذہنی طور پر فو ج کی غلامی قبول کر نے کے لیے ہر وقت تیا ر رہتے ہیں مو شگا فیاں کر رہے ہیں کہ نئے فو جی سربر اہ کو وزیر اعظم نے کس طر ح ریسیو کیا ،کس طر ح اپنے سامنے بٹھا دیا وہ کیو نکرجنر ل قمر جا وید باجو ہ کو برابر ی کی سطح پر پروٹوکو ل نہیںدے رہے ۔مصیبت یہ ہے کہ ہما رے جسدسیا ست میں طو یل فوجی آمریتوں کے با عث فوج کا کر دار اس حد تک سر ایت کر چکاہے کہ ہم فو ج کے سربر اہ کو مو لا جٹ کا درجہ دینے کے لیے کو شاں رہتے ہیں ۔ یقینا فو ج کا سر بر اہ اس ملک کی طاقتور تر ین شخصیت ہو تا ہے اور اس حوالے سے جنر ل با جو ہ کو بھی انڈر ایسٹیمیٹ نہیں کرناچاہیے نیز سکیو رٹی ،خا رجہ پالیسی اور دیگر کئی امور میں فو ج سے را ئے لی جا تی ہے اور بعض مواقع پر مقدم بھی ہوتی ہے لیکن اسے ویٹو پا ور حاصل نہیں ہونی چاہیے جیسا کہ وطن عزیز میں وتیرہ بن چکا تھا ۔ 
خا رجہ اور سکیو رٹی پالیسی کے حوالے سے گز شتہ برس کے اواخر میں کچھ تبد یلیوں کی شر وعات نظر آنے لگی ہیں ۔ سب سے پہلے تو اعلیٰ تر ین سطح پر شاید یہ فیصلہ کیا گیا ہے کہ ان دواہم تر ین شعبوں کے بارے میں میڈیا کو اعتما د میں لیا جا ئے ۔گز شتہ ہفتے کے دوران نیشنل سکیورٹی کے مشیر جنر ل (ر) نا صر جنجو عہ نے وزیر اعظم سیکر ٹر یٹ میں تین گھنٹے سے زائدمیڈ یا کو سکیو رٹی معاملا ت اور دہشت گردی کے خلا ف جنگ کے بارے میں تفصیلی آف دی ریکارڈبر یفنگ دی ۔ یہ پہلا مو قع تھا کہ اس حوالے سے میڈ یا کو اعتماد میں لیا گیا اور بر یفنگ میں فو ج کے کسی نما ئندے کو مدعو نہیں کیا گیا ۔اس بریفنگ کے دوروز بعد ہی مشیر خارجہ سر تا ج عزیز نے ملک کی خا رجہ پا لیسی کی جہت کے بارے میں میڈ یا کو اعتما د میں لیا۔ اسی عمل کو آ گے بڑ ھاتے ہو ئے حکمران جما عت کو خطے میں بھا رت اورافغانستان کے بارے میں پالیسیوںاور دہشت گردی کے حوالے سے پارلیمنٹ کو اعتما د میں لینا چاہیے اور ان اہم امور پر باقا عدہ بحث ہو نی چاہیے ۔ اس سے خا رجہ اور سکیو رٹی پالیسی میں مثبت تبدیلیاں لائی جا سکیں گی اور یقینا اس با رے میں حکومت اور فوج کا کردار بھی کلیدی ہو گا ۔ یہ سب کچھ کر نے کے ساتھ سا تھ میاں نواز شر یف کو اب کڑوا گھو نٹ پی کر کسی رکن پارلیمنٹ کو کل وقتی وزیرخا رجہ بھی مقر ر کر دینا چاہیے اور یہ جو از کہ ذوالفقا ر علی بھٹو نے بھی خارجہ امو ر کا قلمدان اپنے پاس ہی رکھا تھا، عذرلنگ ہے کیونکہ بھٹو پاکستان کے وزیر خا رجہ رہ چکے تھے وہ خو د بھی بین الا قوامی تا ریخ اور معاملا ت کا مکمل ادراک رکھتے تھے جبکہ میاں صاحب خود بھی ایسا دعویٰ نہیں کر سکتے ۔ 
بقول عمران خان 2017ء الیکشن کا سال ہے۔ تاہم یہ انتخا بی مہم کا سال توضرور ہے تکنیکی طور پر انتخابات حکومت کی پا نچ سالہ مد ت مکمل ہو نے کے بعد مئی 2018ء میں ہو ں گے لیکن انتخا بی مہم اور جو ڑ توڑ پہلے ہی شر وع ہو گیا ہے ۔تحر یک انصاف نے تو ٹکٹیں تقسیم کر نے کا عمل بھی شر وع کر دیا ہے جہاں تک مسلم لیگ (ن) کا تعلق ہے ان کی تو روز اول سے ہی تمام پالیسیا ں انتخا بات جیتنے کی طرف مر کوز ہیں ۔نا قد ین لا کھ کہیں کہ اعداد وشما ر کے حوالے سے ملکی معیشت کی صورتحال اچھی نہیں ہے ۔لیکن حکمران جماعت دیوانہ وار ہر وہ سکیم 2018ء سے پہلے مکمل کرنا چاہتی ہے جس کے ذریعے ووٹ لیے جا سکیں ۔ ان کے پاس سالہا سال اقتدار میں رہنے کی وجہ سے مضبو ط امید وار وں اور مختلف حلقوں میں اثر ورسوخ کی بھی کو ئی کمی نہیں۔2017ء کا ایک اور بڑا واقعہ آصف علی زرداری کا قومی اسمبلی میں ظہور ہو گا وہ لو گ جو سوچ رہے تھے وہ جلا وطنی کے دوران ہی ریٹائرمنٹ پر چلے جا ئیں گے لیکن انھوں نے بلا ول سمیت سب کو سر پرائز دیا ہے، انھوں نے آ تے ہی چارٹرآف ڈیمانڈ پربلا ول کی ایجی ٹیشن چلا نے کے غبارے سے ہوا نکا ل دی۔ زرداری اپوزیشن کا رول توضرور ادا کریں گے لیکن وہ اس حد تک نہیں جا ئیں گے کہ حکو مت کو سڑ کوں پر آ کر گر ا یا جا ئے تا ہم انھیںرواں بر س میں پا رٹی کو پنجاب میں منظم کر نے پر زور دینا پڑ ے گا کیو نکہ ان کے پاس وقت بہت کم ہے۔جسٹس ثا قب نثار نے چیف جسٹس آ ف پاکستان کا حلف اٹھا تے ہی عمران خان کی یہ فرمائش پو ری کر دی ہے ۔حسب تو قع وہ خو د ' پاناماگیٹ ‘کی سما عت کرنے والے پانچ رکنی بنچ کی سربرا ہی نہیں کریں گے۔ دیکھئے نیا بینچ خان صاحب کے معیا ر پر پورا اترتا ہے یا نہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں