ڈونلڈ ٹر مپ امر یکہ کے 45ویں صدر کی حیثیت سے حلف اٹھا چکے ہیں ۔ ان کی حلف برداری کی تقر یب اس لحاظ سے قابل رشک تھی کہ اس کے تو سط سے دنیا کو بر اہ راست یہ دیکھنے کا موقع ملا کہ جمہو ریت میں پر امن انتقا ل اقتدار کیسے ہو تا ہے اور ادارے کس انداز سے شخصیتوں سے بالا تر ہوتے ہیں ۔ امر یکہ کے حا لیہ صدارتی انتخابا ت سیاسی محاذآرا ئی کے لحا ظ سے منفر د تھے۔ انتخا بی مہم کے دوران ڈیمو کر یٹک پا رٹی کی نامز د امیدوار ہیلری کلنٹن اور رپبلکن کے ڈونلڈ ٹر مپ کے درمیان لفظوں کی جنگ انتہاکو پہنچ گئی تھی ۔ ٹر مپ اپنے ٹو یٹس اور بد زبانی کی وجہ سے مشہو ر ہیں، انھوںنے صدر اوباما جو اپنی پا رٹی کی نامز د امید وار ہیلر ی کی بھر پو ر حما یت کر رہے تھے کے با رے میں یہاں تک کہہ دیا کہ وہ اپنا بر تھ سر ٹیفکیٹ دکھا ئیں کیو نکہ وہ خفیہ طور پر مسلمان ہیں جبکہ دوسر ی طرف اوباما نے واضح طور پر قرار دے دیا تھا کہ یہ شخص (ٹرمپ) صدارت کے منصب کا اہل ہی نہیں ۔ ادھرسی آ ئی اے نے بھی اس الزام کی تصدیق کر دی کہ پیو ٹن کے روس نے ہیکنگ کے ذریعے انتخا بی عمل میں دخل اندازی کی کو شش کی ہے ۔امریکی نظام کے تحت ہیلر ی کلنٹن کو پاپو لر ووٹوں کی واضح برتری ملی لیکن الیکٹرول ووٹوں میں وہ مات کھا گئیں۔ لیکن اس ساری تلخی کے باوجو دٹر مپ نے اوباما کوانتہا ئی خوش اسلوبی سے وائٹ ہا ؤس سے رخصت کیا اور اوباما نے نظر یا تی طور پر نفر ت کر نے کے با وجود ان کی وائٹ ہا ؤس میں چار بر س کے لیے آمد کے انتظاما ت کو ہر لحا ظ سے بہتر بنانے کی بھرپو ر کوشش کی ۔ ٹر مپ کی حلف بر داری کی تقریب میں اوباما کے علا وہ ہیلر ی کلنٹن ، ان کے شو ہر سابق صدر بل کلنٹن بھی مو جود تھے۔سابق صدر جا رج ڈبلیو بش جو ری پبلکن پا رٹی کے مر کز ی لیڈر ہو نے کے با وجو د ٹر مپ کے ناقد تھے وہ بھی تقر یب میں موجو د تھے ۔ انتقا ل اقتدار کا یہ سا را عمل جس انداز سے طے پا یا یہی جمہو ریت کی فتح اور حُسن ہے ۔
عین اسی روز جب امر یکہ میں پر امن طور پر انتقال اقتدارہو رہا تھا افر یقہ کے ایک ملک گیمبیا میں اسی حو الے سے ایک دلچسپ صورتحا ل پیدا ہو گئی جس کا با لا ٓخر حل نکا ل لیاگیا ۔ گیمبیا کے صدر یحییٰ جامع جو پچھلے با ئیس بر س سے اقتدار سے چمٹے ہوئے تھے ،گیمبیا میں جمہو ریت کی لہر کے با عث گزشہ برس دسمبر میں انتخا بات کروانے پر مجبورہو گئے۔ ان انتخا بات میں اپو زیشن لیڈر عدانا بیرو (Adana Barrow)کامیاب ٹھہرے لیکن یحییٰ جا مع نے انتخابات میں دھاندلی کا الزام عا ئد کرتے ہو ئے نتا ئج تسلیم کر نے سے انکا ر کر دیا اور اقتدار سے بد ستور چمٹے رہے ادھر نو منتخب صدر عدانا بیرو نے ہمسا یہ ملک سینی گا ل میں قا ئم گیمبیا کے سفا رتخانے میں جا کر حلف اٹھا لیا جس کے بعد گیمبیا کواقوام متحد ہ کی آشیرباد سے سینی گا ل اور دیگر افر یقی مما لک کی مشترکہ فو ج نے گھیر لیا اورمو صوف کو جمعہ کی رات نو بجے تک کا الٹی میٹم دے دیا گیا۔ اس دوران موریطا نیہ اور گنیا کے صدور نے یحییٰ جامع سے مل کر ثا لثی کا کردار ادا کیاجس کے نتیجے میں انھوں نے اقتدار چھو ڑنے پر آما دگی ظا ہر کر دی ۔ یحییٰ نے پہلے تو انتخا بی نتا ئج تسلیم کیے لیکن بعد میں اقتدار چھو ڑنے کے لیے بعض شر ائط عائد کردیںاور بنیا دی شر ط یہ تھی کہ وہ گیمبیا میںہی رہیں گے جبکہ افریقی لیڈروںکا خیال تھا کہ وہ گیمبیا میں رہ کر نئی حکومت کو چلنے نہیں دیں گے۔ اس تفصیل کا مقصد اس امر کی نشا ند ہی کر نا ہے کہ محض انتخا بی مہم سے گز ر نا ہی جمہو ریت نہیں ہے اس کے لیے بہت سے پا پڑ بیلنے پڑتے ہیں ۔ جمہو ری ممالک میں شخصیات کو اداروں سے لازم وملزوم نہیںکیا جا تا ۔ یہی وجہ ہے کہ سا بق صدر اوبا ما جنہوںنے امر یکی معیشت کو 2008ء کے کساد بازی کے بحران سے نکالا، بے رو ز گار کی شر ح میں خا طر خو اہ کمی کی ، افراط زرکی شر ح پر قابو پا یا ،کئی دہا ئیوں سے امریکہ کے دشمن ایران اور کیو با سے صلح کی حتیٰ کہ ایران کے ایٹمی پروگرام کو ایک پیچید ہ ڈیل کے ذریعے محد ود کردیا ، امریکیوں کے لیے صحت کا پروگرام' اوباما کئیر‘ متعارف کرایا ِ، اقتدار کے 8سا لہ دور میں کو ئی ذاتی یا مالیا تی سکینڈ ل ان کے قر یب سے بھی نہیں گز را ۔ شاید اسی بنا پر امر یکی صدر رونلڈریگن کے بعد ا ن کی مقبو لیت عروج پر تھی جبکہ ٹر مپ کی مقبو لیت کی شر ح اقتدار سنبھا لنے سے پہلے ہی صرف چالیس فیصد رہ گئی تھی تا ہم ٹر مپ اس قسم کی رائے عامہ کے سروے سے گھبرانے والے نہیں ہیں کیو نکہ انہی اداروں کے متعدد سروے کے مطابق تو ہیلر ی کلنٹن کو امر یکی صدر ہونا چا ہیے تھا ۔
امر یکہ میں کسی نے بھی یہ آ واز نہیں اٹھا ئی کہ اوباما کے بغیر امر یکہ کا چلنا مشکل ہے اور یہ را گ نہیں الاپے کہ غالب خستہ حا ل کے بغیر سا رے کام بند ہو جائیں گے کیو نکہ جمہو ری ملکوں میں تو شخصیت پر ستی کی گنجائش سر ے سے ہی موجود نہیں ۔لیکن ہما رے ہاں تو الٹی گنگا بہتی ہے ۔ ایک طرف تو جمہو ریت کا دم بھرا جا تا ہے لیکن دوسری طرف شخصیا ت کو ملکی سالمیت اور بقا کے لیے لازم وملزوم قرار دے دیا جا تا ہے ۔آ ج کل 'پاناماگیٹ ‘ کے حوالے سے وزیر اعظم میاںنواز شر یف کے تر جمان ہر روز ٹیلی ویژن پر رطب اللسان رہتے ہیں اورمیاں صاحب خو د بھی یہی فر ما تے ہیں کہ ان کے مخا لفین پاکستان میں ترقی نہیںچاہتے ۔ گویا کہ اگر میاں صاحب بر سراقتدار نہ رہے یا نہ ہوں تو ملک اند ھیر وں میں چلا جا ئے گا اور ہر طرف بہنے والی دودھ کی نہر یں خشک ہو جا ئیں گی ۔ دوسر ی طرف اگر اپوزیشن بالخصوص تحر یک انصاف کے سربراہ عمران خان کے روئیے کا جا ئز ہ لیا جا ئے تو وہ بھی کسی حد تک جمہو ری روایت کی پا سداری نہیں کرتے ۔خان صاحب نے میاں نواز شریف کو کرپٹ قرار دے کر ہر حا لت میں ان سے چھٹکا را حاصل کر نے کا با ر بار عند یہ دیا ہے ۔انھوں نے آ ج تک 2013ء کے انتخا بی نتا ئج جن میں ان کی پا رٹی تیسر ی بڑ ی پا رٹی کے طور پر پا رلیمنٹ میں آ ئی کوتسلیم ہی نہیں کیا ۔قومی اسمبلی کے کا رکن ہو نے کے باوجو د پارلیمنٹ کو تسلیم نہیں کرتے اور خصوصی مواقع کے علا وہ یہ کہہ کر یہ محض گو رکھ دھندا ہے ،قومی اسمبلی کا رخ ہی نہیں کرتے۔ ایسے لگتا ہے کہ جیسے میاں نواز شر یف کے ساتھ ان کا ذاتی جا ئیداد کا کو ئی تنا زع ہے اور 2013ء میں انتخا بات جیت کر میاں صاحب نے وہ جاگیر جو خان صاحب کی ہونی چاہیے تھی، چھین لی ہے۔جہاں تک میاںنواز شر یف کا تعلق ہے انھیں بھی سوچنا چاہیے کہ اگر وہ اتنے مقبول لیڈر ہیں کہ 3بار وزیر اعظم منتخب ہو چکے ہیں اور چو تھی بار بھی قر عہ فال ان کے نام نکلنے کا امکان ہے تو انھیں 'پاناما لیکس ‘ کے حوالے سے خو ش دلی سے خود کو احتسا ب کے لیے پیش کر نا چاہیے تھا اور اگر اس کے لیے انھیں عبور ی طور پر اقتدار سے الگ ہو کر کسی اور کو وزیر اعظم نامزد کر نا پڑتا تو کو ئی قیامت نہ آجا تی۔لیکن میاں صاحب کے وکلا عدالت عظمیٰ میں ٹا مک ٹو ٹیاں ماررہے ہیں ۔ جس سے عوام کی عدالت میں یہ تا ثر جا گزیں کر گیا ہے کہ دال میں کچھ کالا ضرور ہے یہ الگ بات ہے کہ میاں نواز شر یف تکنیکی طور پر بچ جا ئیں لیکن اخلا قی طور پر ان کا بر انڈ یقینا متا ثر ہو ا ہے ان کے وزرا ء کا یہ کہنا کہ 'پانامالیکس ‘ عام آدمی کا مسئلہ نہیں ہے ، جمہو ری سوچ کی نفی کرتا ہے اور اس تا ثر کو تقو یت دیتا ہے کہ حکمران جما عت کے نزدیک سیاسیات اور اخلا قیا ت کا آ پس میں کو ئی تعلق نہیں۔