پاکستان میں اس بات پر اطمینان کا اظہا ر کیا جا رہا ہے کہ ہمارا نام ان سات ملکوں میں نہیں ہے جن کے شہریوں کے امر یکہ داخلے پر پا بند ی لگائی گئی تھی؛ تاہم عمومی طور پر ہی سہی ٹر مپ کی اس اسلام اور مسلمان دشمن اسکیم کے آ غاز پر ہی ایک امریکی وفاقی عدالت کے جج نے حکم امتنا عی دے کر ٹھنڈا پا نی پھینک دیا ہے۔ اس حوالے سے امریکی ایڈمنسٹر یشن کو ابھی تک اسٹے آرڈر بھی نہیں مل پایا۔ ہمارے ہاں بعض قومی اخبارات میں اس قسم کی فرمائشی خبر یں لگ رہی ہیں کہ یہ سب کچھ وزیر اعظم کے خصوصی معاون بر ائے خا رجہ امور طارق فاطمی کی ایک ما ہ کی محنت شا قہ کا نتیجہ ہے۔ انگر یزی کا مقولہ ہے Success has many fathers but failure is an orphan یعنی کامیابی کے کئی مالک بن بیٹھتے ہیں جبکہ ناکامی یتیم ہی رہتی ہے۔ طارق فاطمی نے یقیناکا وشیں کی ہوں گی لیکن یہ کہنا کہ پاکستان کا نام 'مسلم بین‘ والی فہر ست میں شامل نہ ہونا محض ان کا ہی کمال ہے، تھوڑی سی مبالغہ آرائی ہو گی۔ ٹرمپ سرکا ر کی طرف سے لگا ئی گئی یہ پابند ی تو ویسے ہی مضحکہ خیز ہے۔ امر یکی صدر‘ جنہیں بعض ما ہر ین نفسیاتی مر یض بھی کہتے ہیں‘ ٹو ٹیس کے ذریعے اکثر اپنی رائے کا اظہا ر کرتے رہتے ہیں۔ ان کے مطابق اس پابندی کے ذریعے وہ ''مسلمان دہشت گردوں‘‘ کا ناطقہ بند کرنا چاہتے ہیں۔ امریکہ میں تارکینِ وطن پر پابندی پہلی مر تبہ نہیں لگی، نائن الیون کے بعد امریکی صدر جارج ڈبلیو بش نے مسلمان ملکوں سے آ نے والے شہریوں کے لیے رجسٹریشن لازمی قرار دے دی تھی۔ علا وہ ازیں کیوبا کے قریب گوانتانامو بے اور دنیا بھر میں کئی مقامات پر مسلمانوں کو دہشت گر د قرار دے کر ان پر تشدد کرنے کے لیے عقوبت خانے بھی کھولے گئے تھے۔ افغانستان اور عراق پر فوج کشی کر کے وہاں حکومتوں کی تبدیلی بھی بش کا ہی ''کارنامہ‘‘ تھا۔ یہ بھی عجب طرفہ تماشا ہے کہ بش اور اب ٹر مپ نے ان ملکوں کو بالکل نہیں چھیڑا جن کے شہریوں پر نائن الیون کے واقعے میں ملوث ہونے کا الزام تھا۔ ان میں سے بعض تو اب بھی امر یکہ کے بڑ ے قریبی حواری ہیں۔ ٹر مپ کی ایک خاتون تر جمان نے اس فیصلے کا جواز گھڑتے ہوئے کہا: امر یکہ میں سکول اور کلب میں فائرنگ جیسے حالیہ واقعات کو رو کنے کے لیے یہ کارروائی کی جا رہی ہے‘ حالانکہ اس میں ملو ث مسلم نوجوان قریباً سبھی امر یکی شہر ی تھے۔
جہاں تک امر یکہ کے کئی حلقوں کے اس سوال‘ کہ پاکستان تو دہشت گردی کا گڑ ھ ہے اس کے باوجود اس کا نام ٹرمپ نے فہرست میں کیوں شامل نہیں کیا؟ کا تعلق ہے تو اس کی وجہ واضح ہے کہ پاکستان ایک ایٹمی طاقت ہے۔ اس کی فوج دنیا کی پانچویں بڑ ی فوج ہے جس نے وطن عزیز میں گزشتہ تین برسوں میں بڑ ی کا میا بی کے سا تھ دہشت گردی کا مکمل طور پر نہیں تو خاصی حد تک خا تمہ کر دیا ہے۔ پاکستان کی جغرافیائی حیثیت اور افغانستان میں اس کا سابق رول بھی اس امر کی غمازی کرتا ہے کہ کسی نہ کسی مر حلہ پر افغا ن طالبان اور دیگر افغان فریقین کے درمیان آئی ایس آئی کے ذریعے معطل شدہ مذاکرات بحا ل کر نا پڑ سکتے ہیں۔ پاکستان کے حال ہی میں سبکد وش ہو نے والے سپہ سا لا ر جنرل (ر) را حیل شر یف اسلامی ملکوں کی فو ج کی سر بر اہی سنبھا ل رہے ہیں۔ 39 ملکوں پر مشتمل فوج میں ایران شامل ہے اور نہ ہوگا۔ یہ فوج سعودی عرب کی عملی کاوشوں اور امر یکہ کی آشیرباد سے بنا ئی گئی ہے، اس کی سر بر اہی پاکستان کے ایک انتہا ئی فعا ل اور سینئر تر ین سابق فو جی افسر کے ہا تھ دینا محض اتفا ق نہیں ہے لیکن ان تمام عوامل کے باوجو د ٹرمپ انتظامیہ پاکستان پر پابندی لگا سکتی ہے۔
بعض اخبار ی اطلاعات کے مطابق امر یکی سٹیٹ ڈیپا رٹمنٹ کے ایک اعلیٰ عہد یدار نے ہمارے سفیر جلیل عباس جیلا نی کو طلب کر کے جماعۃ الدعوۃ کی غیر ملکی فنڈ نگ کے حوالے سے کچھ شواہد ان کے سامنے رکھے اور ان کی بنیا د پر مطالبہ کیا تھا کہ پاکستان اپنی سر زمین سے کارروائیاں کرنے والے جہادی گروپوں پر پابندی لگائے اور انہیں پناہ دینے کی پالیسی سے دستبردار ہو جائے ورنہ پابندی کے لیے تیار ہو جائے۔ اس الٹی میٹم کے بعد پاکستان کے پاس حافظ سعید کی جماعت کی سرگرمیوں پر پابند ی لگانے کے سوا کوئی چارہ نہ تھا۔ حا فظ سعید کی نظربندی کوئی نئی بات نہیں۔ 2001ء میں لشکر طیبہ پر پابندی عائد ہونے کے بعد حا فظ سعید کئی مرتبہ نظر بند ہو چکے ہیں اور ہر بار اس بنیاد پر کہ ان کے خلا ف کوئی ٹھوس شواہد موجود نہیں‘ انھیں رہا کر دیا جاتا رہا ہے۔ ان کا یہ استدلال کہ لشکر طیبہ کی جانشین تنظیم جما عۃ الدعوۃ محض رفاہی کام کر رہی ہے، کو ئی بھی ما ننے کو تیار نہیں۔ حا فظ صاحب ایک مر نجاں مرنج شخصیت ہیں اور ان کے انتہا ئی فعال ساتھی یحییٰ مجاہد اکثر ان کی اخبار نویسوں سے ملا قاتوں کا اہتما م کرتے رہتے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ جماعۃ الدعوۃ خاصا رفاہی کام کرتی ہے لیکن بھا رت کا یہ پروپیگنڈا ہے کہ 2008ء میں ممبئی حملے کا سب کچھ حافظ صاحب کی تنظیم کا ہی کیا دھرا ہے‘ اور ساری دنیا ہماری کمزوریوں کی وجہ سے اسے سچ تصور کر تی ہے۔ ما ضی کے بر عکس اس مر تبہ پاک فوج نے بھی اپنے تر جمان کے ذریعے کہا کہ حافظ سعید کی نظربندی کا فیصلہ ریاستی پالیسی ہے‘ جو ریاست نے قومی مفاد میں کیا۔ عنقریب امر یکہ کی 'ڈو مور‘ کی گردان پر لبیک کہتے ہو ئے پاکستان کو جیش محمد پر بھی پابندی لگانا پڑ ے گی۔ بھارت کے مطابق پٹھانکوٹ پر حملہ جیش محمد کی کارستانی ہے۔ امر یکی وزیر دفاع James Mattis پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ پاکستان کو دوسرے ملک میںکارروائیاں کرنے والی تنظیموں کو اپنی سرزمین سے نکال دینا چاہیے۔ ان کی مراد نام نہاد حقا نی گروپ سے ہے، دوسر ے لفظوں میں ایک طرف افغا نستان اور بھارت پا کستا ن کو دہشت گردی کے حوالے سے نکو بنا رہے ہیں۔ دوسری طرف امر یکی انتظامیہ‘ جو اوباما دور میں بھی پاکستان کے لیے کوئی نرم گو شہ نہیں رکھتی تھی‘ ٹرمپ کے آنے کے بعد ہمارے خلا ف دبا ؤ میں مزید اضافہ کر رہی ہے۔
مقام شکر ہے کہ اس وقت کی صورتحال میں سویلین اور فو جی قیادت قر یباً ایک ہی صفحے پر ہے۔ ہمارا دعویٰ ہے کہ ہم اچھے اور بر ے دہشت گردوں کی تمیز روا رکھے بغیر بلاامتیا ز کارروائی کر رہے ہیں لیکن دنیا ہمارے اس دعوے کو تسلیم نہیں کرتی لہٰذا ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اپنے سکیورٹی معاملات پر سنجیدگی سے غور کرکے دنیا کو باور کرا دیںکہ پاکستان کی فوج بھا رت کا مقابلہ اور اندرون ملک دہشت گردی کا قلع قمع کر نے کی پو ری صلا حیت رکھتی ہے۔ پاکستان کو اپنے خارجہ اور سکیو رٹی اہداف کے حصول یا اپنی سرحدوں کی حفا ظت کے لیے دہشت گردوں کی بیسا کھی کی ضرورت نہیں ہے، اگر ما ضی میں کچھ کو تا ہ اند یش اپنی دوغلی پالیسیوں کے ذریعے وطن عزیز کو اس نہج پر لے آ ئے تھے جن سے ہم آ ج بھی نبردآزما ہیں تو وقت آ گیا ہے کہ ہم صدق دل سے اور بھر پو ر عزم سے عملی طور پر وہی کر یں‘ جس کے ہم دعویدار ہیں۔