"AAC" (space) message & send to 7575

ننھے منے شریف ‘زرداری

بینکوں میں بے نامی اکائونٹس سے اربوں روپے نکلنے کی خبریں زور پکڑتی جا رہی ہیں۔ کبھی فالودے والے، کبھی رکشہ والے تو کبھی غبارے بیچنے والے کے اکائونٹ سے کروڑوں روپے نکل رہے ہیں۔
دور کی کوڑی لانے والے ان اکائونٹس کا سلسلہ آصف علی زرداری سے جوڑنے میں مصروف ہیں۔ ان اکائونٹس کے پیچھے کون ہے؟ ان اکائونٹس میں رقوم کون ڈلواتا اور نکلواتا ہے؟ اس کھیل میں کون کون ''بینی فشری‘‘ ہے۔ ابھی تو معاملہ ''بلیم‘‘ گیم کی حد تک ہی محدود ہے۔
یہ کوئی نیا کام نہیں، واردات کا یہ سلسلہ پرانا ہے۔
فرض کیا ان اکائونٹس کے پس پردہ آصف علی زرداری ہیں اور وہ ہی ان اکائونٹس کے ''بینی فشری‘‘ بھی ہیں‘ تو بھئی اس ملک میں ہزاروں لاکھوں ''ننھے منے زرداری‘‘ کئی دہائیوں سے یہ کام کر رہے ہیں۔ ان ''ننھے منے زرداریوں‘‘ کے بارے میں آپ کو تفصیل بتاتا چلوں کہ یہ کیسے وجود میں آئے اور کس طرح اپنے ''کالے دھن‘‘ کو ''اجلے ہاتھوں‘‘ سے خرچ کرتے ہیں؟ 
ستر اور اسی کی دہائی میں محنت مشقت کر کے اپنے کنبے کی کفالت کرنے والے آج نہ صرف اربوں کی جائیدادوں کے مالک ہیں بلکہ ان کے چلتے ہوئے کاروباروں کا حجم بھی ہوشربا حد تک بڑھ چکا ہے۔ 
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ محنت مشقت کرنے والے اچانک سرمایہ دار اور صاحب جائیداد کیسے بن گئے؟ اور مالک بھی اتنی بڑی جائیدادوں کے‘ جن کے بارے میں محض تصور ہی کیا جا سکتا ہے‘ صرف سوچا ہی جا سکتا ہے۔
یہ ایک انتہائی دلچسپ کہانی ہے ۔ اگر حکومت اس کہانی سے گائیڈ لائن حاصل کر لے تو نہ صرف ہمارے ''قومی کشکول‘‘ کا سائز چھوٹا ہو سکتا ہے بلکہ ہماری ملکی معیشت کو بھی غیر معمولی سہارا مل سکتا ہے۔ ملک کے اقتصادی معاملات میں بہتری آ سکتی ہے۔ 
آیئے قارئین! اصل کہانی اور طریقہ واردات کی طرف چلتے ہیں۔ آج کے دور میں ہزاروں متمول اور نامی گرامی شرفاء قطعی اس سوال کا تسلی بخش جواب نہیں دے سکتے کہ ان کی غیر معمولی اور حیرت انگیز معاشی ترقی کا راز کیا ہے؟ آیا ان کے گھر سے ہیرے جواہرات کی دیگ نکل آئی تھی‘ یا تیل نکل آیا تھا جسے بیچ کر وہ عربوں کی طرح امیر کبیر بن گئے۔ ستر کی دہائی کے آخری چند برسوں اور اسی اور نوے کی دہائیوں کا اگر تفصیلی جائزہ لیا جائے تو پتا چلے گا کہ تین نا جائز ذرائع سے بہت مال بنایا گیا۔ اس دور میں منشیات خصوصاً ہیروین، سونے اور دیگر قیمتی سامان کی سمگلنگ کے ساتھ ساتھ انسانی سمگلنگ کا دھندا بھی عروج پر تھا۔ مذکورہ نا جائز ذرائع آمدن کے کون کون ''ڈان‘‘ تھے‘ یہ واقفانِ حال اور تاریخ پر نظر رکھنے والے بخوبی جانتے ہیں۔
کالے دھن کی اس بہتی گنگا نے کس کس کو سیراب کیا اور کس نے اس میں ڈبکیاں لگائیں‘ یہ بھی ریکارڈ اور تاریخ کا حصہ ہے۔ پھر ہوا یوں کہ مذکورہ نا جائز ذرائع سے کمایا کالا دھن چھپانے اور لگانے کے لئے رئیل اسٹیٹ ایک محفوظ اور پوشیدہ سرمایہ کاری ثابت ہوئی۔ اس طرح ان لوگوں نے پھر بتدریج اپنا معیارِ زندگی بہتر بنانے کے ساتھ ساتھ اپنے آبائی رہائشی علاقوں کو خیر باد کہہ کر پوش علاقوں میں رہائش اختیار کر لی اور یوں اُن کی ''کلاس‘‘ تبدیل ہو گئی۔ ان لوگوں نے ناجائز ذرائع سے حاصل ہونے والی دولت سے پھر کاروبار شروع کیا‘ فیکٹریاں لگائیں اور اس طرح ان کا شمار شہر کے متمول اور کھاتے پیتے گھرانوں میں ہونے لگا۔ ان کی ناجائز دولت مزید دولت حاصل کرنے کا باعث بن گئی۔
یہ لوگ ان رقوم کی محفوظ اور پوشیدہ ترسیل کو یقینی بنانے کے لئے اپنے قریبی اور قابل اعتماد عزیزوں اور اپنے منشیوں، ڈرائیوروں اور دوسرے ملازموں کے نام پر اکائونٹ کھول کر ''کالے دھن‘‘ کو فروغ دیتے رہے۔ اور آج وہ اپنے اپنے شہروں کی اشرافیہ میں شمار ہوتے ہیں ۔ جائیدادوں کی خرید و فروخت کا معاملہ بھی اسی طرح ہے۔ یہ لوگ اپنے با اعتماد دوستوں، عزیزوں اور ملازموں کے نام پر جائدادیں بنا کر حکومتی اداروں کی پکڑ اور لوگوں کی نظروں سے محفوظ رہے۔
اگر نواز شریف اور اُن کے خاندان والوں سے منی ٹریل طلب کی جا سکتی ہے اور آصف علی زرداری کے گرد گھیرا تنگ کیا جا سکتا ہے‘ تو معاشرے میں چلتے پھرتے ہزاروں ، لاکھوں ''ننھے منے شریفوں اور زرداریوں‘‘ سے بھی پوچھا جانا ''عین منطقی‘‘ ہے کہ یہ ساری جائیدادیں ، کاروبار، عیش و آرام ، نوکر چاکر، گاڑیاں کوٹھیاں ، ریل پیل اور تام جھام کیسے آیا؟
ایک اور انتہائی مفید اور کار آمد نسخہ نما مشورہ حکومت کے لئے حاضر ہے ۔
ملک بھر کے پٹواریوں کو پابند کیا جائے کہ وہ ایک خاص حد سے زیادہ اراضی اور جائیدار رکھنے والے افراد کی فہرست مرتب کر کے ڈپٹی کمشنرز کو فراہم کریں ۔ مثلاً 15 یا 20 ایکڑ یا جو حد بھی مقرر کی جائے‘ اس سے زائد اراضی رکھنے والے افراد کو پابند کیا جائے کہ وہ اپنی ان جائیدادوںکی وضاحت کریں کہ انہوں نے یہ جائیدادیں کن ذرائع سے حاصل کیں۔
پٹواری ان سرمایہ داروں کی ''دائی‘‘ ہوتا ہے۔ اسے خوب معلوم ہوتا ہے کہ جائیداد کس نام پر ہے۔ 
ان کی رکھوالی کون کرتا ہے؟ جائیداد وں کی فرد کون نکلواتا ہے...؟ اور اس کی گرداوری کون کرواتا ہے...؟
اور اسے عید، شب برات کون بھجواتا ہے...؟ 
جائیدادوں کی فہرست مکمل ہونے کے بعد صاحبانِ جائیداد کو بڑی عزت اور احترام سے ڈپٹی کمشنرز کے آفس بلوایا جائے اور اُن سے کہا جائے کہ وہ اپنی ان جائیدادوں کی تفصیل فراہم کریں کہ انہوں نے یہ کن ذرائع سے کب اور کیسے خریدیں...؟ ان کے پاس یہ سرمایہ کہاں سے آیا...؟ ان کے ذرائع آمدن کیا ہیں...؟ اگر وہ ان سوالات کے جواب دستاویزی ثبوت کے ساتھ فراہم کر دیں تو انہیں چائے پلا کر رخصت کر دیا جائے ۔ بصورت دیگر ان کی جائیدادیں بحق سرکار ضبط کر لینی چاہئیں‘ اور قانون کے مطابق کارروائی بھی ہونی چاہیے۔ بعد ازاں اُن جائیدادوں کو فروخت کر کے اُن سے حاصل ہونے والی رقم سرکاری خزانے میں جمع کروائی جائے ۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ FBR اور REVENUE کے صوبائی اداروں پر مشتمل ایک مشترکہ ٹاسک فورس تشکیل دی جائے‘ جو بے رحم اور بلا امتیاز کارروائی کر کے ٹیکس چوری سے لے کر تجوریوں اور بے نامی اکائونٹس میں پوشیدہ اربوں روپے کے کالے دھن کا سراغ لگائے اور یہ رقوم برآمد کرے۔ حکومت کے پاس وسائل موجود ہیں‘ کمی ہے تو صرف ویژن اور اہداف کے تعین کی۔ اس طرح پکڑا جانے والا ''کالا دھن‘‘ قومی خزانے کا حصہ بن سکتا ہے اور یوں ہماری قومی معیشت جو اس وقت ''وینٹیلیٹر ‘‘ پر ہے‘ اُسے نہ صرف سنبھالا مل سکتا ہے بلکہ اُسے مستحکم بھی کیا جا سکتا ہے۔ 
اگر ان عناصر کو پکڑ کر ان سے کالا دھن اور بے نامی جائیدادوں کا حساب نہ لیا گیا‘ تو ایف بی آر میں ریفارمز کا انتخابی نعرہ کس طرح شرمندہ تعبیر کو سکے گا؟ یہ پی ٹی آئی کی حکومت کے لیے سوالیہ نشان ہے۔ کیونکہ یہ پیسہ چوری کا پیسہ ہے ، ٹیکسوں کا پیسہ ہے اور نا جائز ذرائع سے کمایا گیا پیسہ ہے‘ جس کی لوٹ کھسوٹ کی وجہ سے ہماری معاشرتی اقدار تباہ ہوگئی ہیں اور اخلاقی حوالے سے بھی سوسائٹی غیر متوازن ہو گئی ہے۔ پولیس ریفارمز کا حال تو آپ دیکھ ہی چکے ہیں۔
آج کے دور میں ہزاروں متمول اور نامی گرامی شرفاء قطعی اس سوال کا تسلی بخش جواب نہیں دے سکتے کہ ان کی غیر معمولی اور حیرت انگیز معاشی ترقی کا راز کیا ہے؟ آیا ان کے گھر سے ہیرے جواہرات کی دیگ نکل آئی تھی‘ یا تیل نکل آیا تھا جسے بیچ کر وہ عربوں کی طرح امیر کبیر بن گئے

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں