ہماری ''وزارتیں‘‘ اور ''سفارتیں‘‘ تادمِ تحریر ایس پی طاہر خان داوڑ کی میت حاصل کرنے میں ناکام ہیں۔ قوم کو یہ خوشخبری سنائی گئی ہے کہ آج (جمعرات) میت پاکستان پہنچ جائے گی۔ جسدِ خاکی کے حصول کیلئے حکومتی کوششوں اور کامیاب ''سفارتکاری‘‘ کے حوالے سے خیبر پختونخوا حکومت کے وزیر اطلاعات شوکت یوسف زئی کا بیان ہی دفتر خارجہ کی کارکردگی... سنجیدگی... اور اہلیت کا پتہ دے رہا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ''میت وصول کرنے کیلئے پاکستانی حکام طورخم بارڈر پر شام تک انتظار کرتے رہے اور دن ڈھلنے کے بعد ناکام لوٹنا پڑا‘‘۔
قارئین...! طورخم بارڈر پر شام تک انتظار کرنا کوئی معمولی بات نہیں۔ یقینا مؤثر اور کامیاب سفارتکاری کا بہترین نمونہ ہے۔ اب کیا کریں...؟ قصور موسم کا بھی ہے... موسمِ سرما شروع ہو چکا ہے۔ سورج جلد غروب ہو جاتا ہے۔ اس لیے انتظار ترک کرنا پڑا اور طورخم بارڈر سے واپس آنا پڑا۔ اگر یہ وقوعہ موسم گرما میں پیش آتا تو شاید گھنٹہ دو گھنٹہ مزید انتظار کرنے کیلئے مل جاتے کیونکہ موسم گرما میں سورج ذرا تاخیر سے غروب ہوتا ہے اور اس طرح طورخم کے بارڈر پر انتظار کرنے والے پاکستانی حکام کی کارکردگی کا گراف مزید اوپر جا سکتا تھا... کیا کریں بیچارے... موسم آڑے آ گیا۔
سارا دن انتظار... اور خالی ہاتھ لوٹنے پر ہمارے حکام خصوصاً سفارتکاری کے ماہرین قابل تحسین ہیں۔ ان کی گراں قدر کاوشوں کے اعتراف میں کوئی تقریب منعقد ہونا چاہیے اور اس ''شاندار کارکردگی‘‘ پر میڈلز دینے میں بھی کیا مضائقہ ہے۔
ایس پی طاہر خان داوڑ 26 اکتوبر کو وفاقی دارالحکومت سے اغوا ہوئے۔ انہیں افغانستان لے جا کر بہیمانہ تشدد کے بعد قتل کرکے لاش ننگرہار کے ضلع دربابا میں پھینک دی گئی۔ ان کے پاس موجود ان کا سروس کارڈ ان کی شناخت کا باعث بنا۔ 19دن بعد لاش ملنے کی خبر سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی تو پاکستانی حکام نے تصدیق کرنے سے پہلے تو انکار کیا۔ بعد ازاں انکار کی گنجائش ختم ہونے کے بعد تسلیم کرنا پڑا۔
ایس پی طاہر خان داوڑ کا اغوا کوئی پہلا واقعہ نہیں۔ ماضی کے چند واقعات پر نظر ڈالیں تو بے بسی اور ''ناکامی‘‘ کے سوا کسی حکومت کے ''پلے‘‘ کچھ نہیں تھا۔ سابق وزیر اعظم سید یوسف رضا گیلانی کے بیٹے کو پُرہجوم انتخابی مہم کے دوران جلسے سے اغوا کر لیا گیا اور اس موقع پر دو افراد جان سے بھی گئے۔ ان کی رہائی کتنے عرصے بعد اور کیسے عمل میں آئی؟ اغوا کے محرکات اور پسِ پردہ کیا عوامل تھے؟ یہ ایک تفصیلی اور علیحدہ بحث ہے۔ اندازہ کریں کہ اغوا کار کتنے منظم اور تربیت یافتہ تھے کہ وہ انتہائی اعتماد سے دندناتے ہوئے آئے اور اپنا ٹارگٹ مکمل کرکے چلے بھی گئے۔ اس موقع پر پرائیویٹ سکیورٹی سمیت انتظامیہ نام کی کوئی شے حرکت میں نہ آ سکی۔ سابق جوائنٹ چیف آف سٹاف جنرل طارق مجید کے داماد گارڈن ٹاؤن لاہور کے رہائشی ملک عامر کو بھی ایسے اغوا کیا گیا جیسے کسی نے اوپر سے ''اُچک‘‘ لیا ہو اور وہ بھی جان لیوا انتظار کے بعد گھر واپس آئے۔ سابق گورنر سلمان تاثیر کے بیٹے کو بھی ایسی ہی صورتحال کا سامنا رہا۔ وہ بھی دن دیہاڑے اغوا کاروں کے ہتھے چڑھ گئے اور کوئی کچھ نہ کر سکا۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں کی اس سے بڑی ناکامی اور کیا ہو گی کہ وہ اغوا کاروں کو روک سکے اور نہ ہی بعد ازاں ملزمان کا سراغ لگا سکے۔
یہ تاثر اب کھلی حقیقت بن چکا ہے کہ پاکستان کی پولیس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں نے دہشت گردی کے حوالے سے تمام تر ذمہ داری ''آرمڈ فورسز‘‘ پر ڈال کر خود کو بری الذمہ کر لیا ہے۔ گزشتہ پانچ برسوں میں خیبر پختونخوا کی جس پولیس کو ملک بھر میں ماڈل بنا کر پیش کیا گیا... جس میں اصلاحات اور کارکردگی کا ''ڈھول‘‘ پیٹا گیا‘ اس کا ''پول‘‘ کھل چکا ہے۔ صوبے کا ایک پولیس کپتان اغوا کرکے افغانستان پہنچا دیا گیا‘ انہیں خبر تک نہ ہوئی... کہاں ہے ان کی گڈ گورننس؟ کہاں ہیں ان کے کرائم فائٹرز؟ کہاں گئی ان کی سکیورٹی؟ تعجب ہے پاکستان کی ''ماڈل پولیس فورس‘‘ اپنے کپتان کو نہ بچا سکی؟ کیا اغوا کار ''ماچس کی ڈبیا‘‘ میں ڈال کر افغانستان لے گئے تھے؟ یا کوئی ''سلیمانی ٹوپی‘‘ پہنا کر لے گئے تھے؟ کس طرح ایک جیتا جاگتا انسان کتنے ناکوں‘ چیک پوسٹوں‘ اور حفاظتی مراحل سے گزر کر سرحد پار باآسانی پہنچا دیا گیا؟
خیبر پختونخوا پولیس کے ذمہ داران سے یہ پوچھا جانا منطقی ہے کہ جس کام کی تکمیل سے سارے اختیارات‘ مراعات‘ تعریفیں‘ تام جھام‘ پروٹوکول اور پورے ملک میں ''واہ واہ‘‘ مشروط تھی‘ وہ کام ہی نہ ہو سکا تو تم کس مرض کی دوا ہو؟
فرض کریں اسی قسم کی بربریت اور ظلم کیلئے پاکستان کی سرزمین استعمال ہوتی یا پاکستان میں کسی افغان کو کسی دوسرے ملک کے باشندے اغوا کرکے قتل کر دیتے تو ہمارے خلاف طوفان کھڑا کر دیا جاتا... پاکستان کو دہشت گرد قرار دے دیا جاتا‘ خطے میں ''سکیورٹی رِسک‘‘ ڈکلیئر کر دیا جاتا۔ ہم تو احتجاج بھی اس طرح کرتے ہیں جیسے تعزیت کر رہے ہوں۔ ہمارا سفارتی محاذ کتنا کمزور اور غیر مؤثر ہے۔ دفتر خارجہ کی کارکردگی بھی کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں۔ ماضی کے بے شمار واقعات کی طرح طاہر خان داوڑ کے قتل کا اندوہناک واقعہ بھی وقت کی گرد میں دب جائے گا۔
یہ اَمر انتہائی توجہ طلب ہے کہ اس نوعیت کے ہر دوسرے یا تیسرے واقعہ کا تعلق افغانستان سے کیوں جا نکلتا ہے؟ لا انفورسمنٹ کے ادارے کہاں ہیں؟ اینٹی سمگلنگ، پاکستان کسٹمز اور قانون نافذ کرنے والے ادارے مصنوعات کی نقل و حمل پر تو خوب نظر رکھتے ہیں‘ اور انہیں اجناس، ادویات اور دوسری مصنوعات کی سمگلنگ تو رات کے اندھیرے میں بھی نظر آ جاتی ہے‘ اس حوالے سے ان کی مخبری کا نظام بھی خوب چل رہا ہے‘ لیکن جیتے جاگتے انسان کس طرح ان کی نظروں سے اوجھل ''مقتل گاہ‘‘ اور سرحد پار پہنچا دئیے جاتے ہیں۔
یہ انتہائی تشویش کا مقام ہے کہ پورے ملک میں ایک ایسا ''سہولت کار‘‘ نیٹ ورک موجود ہے جو ''آرڈر‘‘ پر جب چاہے‘ جسے چاہے‘ جہاں سے مرضی چاہے‘ اٹھا کر مطلوبہ مقام پر پہنچانے کی مہارت رکھتا ہے۔ یہ حالات ہمارے ملکی نظام‘ گورننس‘ اور لاء انفورسمنٹ اداروں کیلئے سوالیہ نشان ہے۔ جس ملک میں ریاست کے افسران‘ اعلیٰ شخصیات اور ان کے اہل خانہ ہی محفوظ نہ ہوں وہاں عام آدمی کا تو اللہ ہی حافظ ہے۔
ایسے حالات میں پاک فوج کی خدمات کا ذکر نہ کرنا ناانصافی ہو گی۔ ہمارے قانون نافذ کرنے والے سول اداروں کو شکر گزار ہونا چاہیے‘ پاک فوج کے ان افسران اور جوانوں کا جو دن رات ایسے تخریبی عناصر کی سرکوبی کیلئے مصروفِ عمل ہیں اور پاک فوج نے ایسی بیشتر ذمہ داریوں کا بیڑا اٹھایا ہوا ہے جو براہِ راست سول اداروں کے فرائض اور ذمہ داریوںکا حصہ ہیں۔
وزیراعظم عمران خان نے طاہر خان داوڑ کے اندوہناک قتل پر اظہار افسوس کرتے ہوئے ا س واقع کی انکوائری کا حکم دے دیا ہے۔ دیکھتے ہیں کہ انکوائری کب تک مکمل ہوتی ہے۔ وزیر اعظم پاکستان کو دیگر اہم امور کے ساتھ ساتھ خارجہ پالیسی پر بھی نظر ثانی کر کے باوقار اور جرأت مندانہ اقدامات کرنا ہوں گے۔
آخر میں ایک دُعا:''اے ہمارے رب بے شک تو اپنے عندئیے اور فرمان کے برعکس نہیں کرتا... ہمارے حکمرانوں کو ہمت‘ استطاعت‘ طاقت اور استقامت عطا فرما کہ وہ مملکتِ خدادا د میں بسنے والے کمزور اور ناتواں عوام کی حفاظت اور کفالت کر سکیں... اے رب العالمین! ادھر قدم قدم پر ڈاکو مسلط‘ بھیڑئیے مامور‘ہول طاری‘ مصائب منتظر اور عفریت ایستادہ ہیں... ایسے میں سیاہ بخت اور بے کس عوام چلیں بھی تو کہاں تک...؟ نتیجتاً وہ راتوں کولٹتے ہیں... دن دیہاڑے دبوچ لیے جاتے ہیں... ان کی جان‘ مال اور عزت کو ایک تیرا ہی سہارا ہے... زوالِ عصر کے ملگجے میں مارے جاتے ہیں... جو حشر مملکتِ خداداد کا ہوچکا ہے اس کے بعد تاخیر...؟ انتظار...؟...اور کتنا انتظار...؟ شاید اسی لیے تو ''اَلصَّبُور‘‘ بھی ہے... ' 'اَلمُقَدَّم‘‘بھی ہے... اور ''اَلمُؤخَّر‘‘بھی ہے... اے رب تو ''اَلعَدَل‘‘ بھی تو ہے... عدل بھی تیری ہی ذات سے منسوب ہے... عدل اور بلا تاخیر... تیری اس صفت کے اطلاق کی سب سے زیادہ ضرورت آن پڑی ہے‘‘...آمین!