"AAC" (space) message & send to 7575

ویل ڈن … ڈی سی اسلام آباد

چند روز قبل ایک قومی انگریزی اخبار میں ڈپٹی کمشنر اسلام آباد کی ایک تصویر نظر سے گزری جس میں وہ پولیو کے قطرے پی رہے ہیں۔ یہ عمل یقینا حیران کن ہے۔ ڈپٹی کمشنر کو کیا ضرورت آن پڑی کہ وہ پولیو سے بچائوکے قطرے پی رہے ہیں؟ یہ قطرے تو پیدائش سے لے کے سات سال عمر تک کے بچوں کو پلائے جاتے ہیں۔ تفصیلات جان کر انتہائی خوشگوار حیرت ہوئی کہ ڈی سی صاحب نے یہ قطرے کسی کمپنی کی مشہوری کے لیے نہیں پیے بلکہ عوام میں پائے جانے والے خدشات اور تحفظات کو رد کرنے کی غرض سے پیے کہ ان قطروں کا کوئی نقصان یا ''سائڈ ایفیکٹ‘‘ نہیں ہے‘ اور ایسا تاثر محض ان عناصر کا گمراہ کن پروپیگنڈا ہے جو پاکستان کو پولیو فری نہیں دیکھنا چاہتے۔ یہ ایک انتہائی سادہ اور عام فہم بات ہے کہ پولیو سے متاثرہ بچے کسی طور ایک فعال معاشرے کا حصہ نہیں بن سکتے۔ اس تناظر میں وطن عزیز کے خلاف ایک انتہائی گھنائونی اور گمراہ کن مہم چلائی جا رہی ہے کہ پولیو سے بچائو کے قطرے بچوں کے لیے نقصان دہ اور بیشتر بیماریوں کا باعث ہیں‘ تاکہ اس طرح عوام میں زیادہ سے زیادہ تشویش اور بدگمانی پیدا کر کے انسداد پولیو کی مہمات کو سبوتاژ کیا جا سکے۔ یہ ایک خاص ''مائنڈ سیٹ‘‘ اور ''مخصوص لابی‘‘ کی سازش ہے۔
اس موقع پر ڈی سی اسلام آباد کی تعریف اور پذیرائی نہ کرنا ناانصافی کے زمرے میں آتا ہے۔ ان کا یہ طرز عمل سول سروسز (ضلعی انتظامیہ) خصوصاً محکمہ صحت کے افسران اور فیلڈ افسران کے لیے قابل تقلید ہے۔ اسی سوچ اور فکر کے ساتھ پولیو کے انسداد کے لیے کام جاری رہا تو وہ دن دور نہیں جب مملکت خداداد پولیو فری سٹیٹ بن جائے گا۔ 
یہ ڈی سی صاحب کون ہیں؟ اور ان کا مکمل تعارف کیا ہے؟ یہ جاننے کے بعد میری حیرت زیادہ دیر برقرار نہ رہ سکی کیونکہ یہ موصوف جس باپ کے فرزند ہیں وہ جنون اور پاگل پن کی خطرناک حد تک دلیر اور جرات کا پہاڑ ہے۔ جی ہاں میرا اشارہ ریٹائرڈ پولیس آفیسر چوہدری شفقات احمد کی طرف ہے۔ ڈی سی اسلام آباد حمزہ شفقات ان کا سپوت ہی نہیں پیروکار بھی ہے۔ چوہدری شفقات احمد کا بیٹا ہو اور جرأت مند نہ ہو... ناممکن۔
واقفانِ حال بخوبی جانتے ہیں کہ نوے کی دہائی کے اوائل میں کشمور میں روپوش اغوا برائے تاوان کے خطرناک ملزم کو انہوں نے دست بدست مقابلہ کر کے نہ صرف چت کیا بلکہ پُر خطر راستوں سے لاہور بھی لے کر آئے تھے۔ اس کیس کی تفتیش کیسے کی گئی اور ملزمان کا سراغ کیسے لگایا گیا‘ یہ ایک دلچسپ اور چونکا دینے والی داستان ہے‘ جس کے لیے ایک علیحدہ کالم بھی کافی نہ ہو گا؛ تاہم چوہدری شفقات کے تجربات اور مشاہدات پولیس فورس کے لیے آج بھی مفید اور کارآمد ہیں۔ ایک مرتبہ اس وقت کی وزیر اعظم بے نظیر بھٹو نے کسی مخصوص کیس کے بارے میں سخت ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے محدود وقت کا الٹی میٹم دیا اور تاکید کی کہ مقررہ وقت کے دوران ملزمان کو گرفتار کیا جائے۔ پولیس کے اعلیٰ حکام نے چوہدری شفقات احمد‘ جو اس وقت ڈی ایس پی تھے‘ کو ''بلی کا بکرا‘‘ بنا کر وزیر اعظم کے روبرو پیش کر دیا کہ اس کیس کی تفتیش ان (چوہدری شفقات) کے پاس ہے۔ اللہ نے چوہدری صاحب کو سرخرو کیا اور انھوں نے مقررہ وقت میں ملزمان کو گرفتار کر لیا‘ جس پر وزیر اعظم نے آئی جی پنجاب کو ہدایت کی کہ جرائم کے خلاف اعلیٰ کارکردگی کا مظاہرہ کرنے پر ایس پی کے عہدے پر ترقی اور انعام بھی دیا جائے۔ چوہدری شفقات نے وزیر اعظم سے بھرے مجمع میں کہہ دیا ''آئی جی صاحب نے تو کبھی شاباش نہیں دی، یہ مجھے کیا ترقی دیں گے‘‘ چوہدری شفقات کی یہی روایتی اور بے باک گفتگو یہاں بھی ان کے لیے مصیبت بن گئی۔ آئی جی کے بارے میں ان ریمارکس کے بعد اعلیٰ افسران نے ان کی ترقی کو ذاتی عناد اور انا کا مسئلہ بنا لیا اور پھر ایک طویل عرصے تک ان کو ترقی نہ مل سکی۔ چوہدری شفقات نے دوران سروس اکثر ''پورا سچ‘‘ بول کر اپنے عرصہ ملازمت کو مشکلات سے دوچار رکھا۔
پھر وہ وقت بھی آیا کہ شفقات احمد ایس پی بنے۔ ایس ایس پی بنے اور ڈی آئی جی کی ذمہ داریاں بھی اضافی طور پر نبھاتے رہے۔ یہ کہنا قطعاً بے جا نہ ہو گا کہ وہ اس زمانے میں لاہور پولیس میں ایک قابل اور دلیر ''کرائم فائٹر‘‘ کے طور پر جانے جاتے رہے۔ جرائم پیشہ عناصر کے لیے وہ ہمیشہ خوف کی علامت بنے رہے۔
یہ وہ دور تھا‘ جب راقم کو شعبہ صحافت میں ابھی چند سال ہی ہوئے تھے۔ ان دنوں بطور کرائم رپورٹر بے شمار اچھے برے واقعات میری یادداشت کا آج بھی حصہ ہیں۔ چوہدری شفقات، احمد خان چدھڑ، اسلم ساہی (مرحوم)، الطاف جگا، شیخ صدیق، چوہدری زمان، مسعود عزیز، عمر ورک، افتخار کھارا (شہید)، رانا احمد حسن، اکرام اللہ نیازی (شہید)، عظمت گوندل، ملک حبیب اللہ، نسیم الزمان، طاہر عالم خان، رانا رشید، عبدالرئوف ڈوگر اور رائے ضمیر سمیت دیگر افسران کرائم فائٹنگ میں اپنا مقام رکھتے تھے۔ اس دور میں بدمعاشی کلچر، بھتہ خوری، اغوا برائے تاوان، دوران ڈکیتی قتل اور خصوصاً اندھے قتل کی وارداتوں کے حوالے سے لاہور پولیس کے مذکورہ افسران جرائم پیشہ افراد کے لیے خوف کی علامت تھے۔ یہ لوگ ملزمان تک رسائی اور تفتیش کے تکنیکی اور نفسیاتی حربوں کی بدولت ایسے ایسے بدنام زمانہ اور دہشت کی علامت مجرموں کو نہ صرف قانون کے شکنجے میں جکڑنے کی مہارت رکھتے تھے بلکہ جرائم کی دنیا کے بہت بڑے نیٹ ورک بھی ان افسران کے آگے بے بس اور پسپائی کا شکار رہے۔ اس دور میں کرائم سین کی سپاٹ کوریج کے بغیر خبر فائل کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔ اور شہر بھر میں ہونے والی جرائم کی وارداتوں کی لمحہ بہ لمحہ رپورٹنگ کے نتیجے میں حاصل ہونے والا تجربہ آج بھی میرے لئے سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔ انتہائی منظم اور خطرناک کریمنل گینگز کو اپنی آنکھوں کے سامنے منطقی انجام تک پہنچتے دیکھا ہے۔ اکثر پولیس کارروائی کے دوران مزاحمت اور پولیس مقابلوں کا آنکھوں دیکھا حال رپورٹ کیا۔ 1996 میں شہر کے انتہائی نامور نیورو سرجن ڈاکٹر بشیر کی بازیابی کے لیے پولیس کارروائی کی لمحہ بہ لمحہ سپاٹ کوریج کرنے پر استادوں کے استاد سید عباس اطہر مرحوم نے بندۂ عاجز کے بارے میں کہا تھا ''آج سے تم آصف عفان نہیں، آصف طوفان‘‘ ہو۔ شاہ صاحب کی طرف سے یہ پذیرائی میرے لیے آج بھی میڈل کا درجہ رکھتی ہے۔
نوے کی ہی دہائی کا ایک اہم اور دلچسپ واقعہ قابل ذکر ہے۔ بے نظیر بھٹو کے دور حکومت میں سابق وزیر اعظم نواز شریف کے والد میاں شریف مرحوم کی گرفتاری کا معاملہ لاہور پولیس کے افسران کے لیے ایک کٹھن اور دشوار مرحلہ تھا۔ ہر افسر اس ذمہ داری سے پہلوتہی کیے جا رہا تھا۔ کوئی پولیس افسر میاں شریف کو گرفتار کر کے شریف برادران کی مخالفت اور دشمنی مول لینے کو تیار نہ تھا۔ ایسے میں چوہدری شفقات نے اس مشکل چیلنج کو قبول کیا‘ اور میاں شریف کو خود جا کر گرفتار کیا۔ بعد ازاں شریف برادران نے اقتدار میں آ کر چوہدری شفقات کو اپنے قہر و غضب کا نشانہ بنائے رکھا۔ چوہدری شفقات کا تمام کیریئر اسی قسم کے ''ایڈوینچرز‘‘ اور چیلنجز سے بھرا پڑا ہے۔
میری ذاتی رائے یہ ہے کہ ڈپٹی کمشنر اسلام آباد حمزہ شفقات اگر اپنے باپ کی ''حقیقی تصویر‘‘ نہ ہوتے تو شاید اس نوعیت کی تصویر بھی اخباروں کی زینت نہ بنتی جس کا میں نے ذکر کیا ہے... یہ تصویر بلا شبہ ''سول سروس‘‘ کی تصویر ہے۔
سرکاری ڈیوٹی کو محض نوکری کے بجائے مقصد اور نتائج سے مشروط کرنا ہی بہترین گورننس ہے۔ ایسے افسران کی قدر اور معاونت حکومت کی ذمہ داری ہے۔ حکومت کی ''کردار سازی‘‘ سے لے کر ''نیک نامی‘‘ تک یہی چراغ جلیں گے تو روشنی ہو گہ۔ ویلڈن... حمزہ شفقات... ''کیپ اٹ اپ‘‘... تم اگر قوم کے معماروں اور معصوم بچوں کو پولیو سے محفوظ کرنے کے لیے ماڈل بن کر قطرے پی سکتے ہو تو، یقینا تمھارے اندر بے پناہ صلاحیت موجود ہے کہ وطن عزیز کے انتظامی سسٹم کو لاحق ''پولیو اور کوڑھ‘‘ جیسے موذی امراض سے نجات دلا کر سول سروس کو اس کے حقیقی کردار اور تقاضوں سے ہم آہنگ کر سکتے ہو۔ سول سروس میں ایسے بے شمار حمزہ شفقات موجود ہیں جنھیں اہداف اور اعتماد دے کر مطلوبہ نتائج حاصل کیے جا سکتے ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں