بمشکل قلم نے ساتھ دینا شروع کیا ہے۔ طبیعت بہت کچھ لکھنے پرآمادہ ہے‘ لکھ نہیں پا رہا‘ ذہن اور قلم کا آپس میں ربط نہیں بن رہا۔ ایسا تو کبھی نہیں ہوا۔ آج ایسا کیوں ہو رہا ہے۔ لکھنا شروع کرتا ہوں تو چند سطریں تحریر کرکے پھر خود ہی اس تحریر سے غیر مطمئن ہو کر دوبارہ لکھنا شروع کرتا ہوں، یہ عمل متعدد بار دھرا چکا ہوں۔ پھر خیال آیا: یہ کیفیت کہیں اس لئے تو نہیں کہ جس عظیم الشان ہستی کے بارے میں آج لکھنے کا ارادہ ہے، وہ ان الفاظ کی محتاج نہیں۔ اس عالی مرتبت شخصیت پر اظہار خیال کے لئے الفاظ کے چنائو سے لے کر استعارے تک کوئی لفظ اس قابل نہیں جو ان کے شایانِ شان ہو اور ان کی روحانیت کے نور اور زبان و بیان کے سحر کا احاطہ کر سکے۔ چھوٹا منہ بڑی بات۔ سورج کو چراغ دکھانا جیسی ضرب الامثال بھی غیر متعلقہ اور بے اثر محسوس ہو رہی ہیں۔ بے اختیار یاد آیا: دو چار برس کی بات نہیں‘ یہ پون صدی کا قصہ ہے۔
قارئین! میں جس ہستی کا ذکر کرنے جا رہا ہوں وہ یقینا میرے لئے انتہائی باعث اعزاز ہے۔ احساسِ تفاخر سے میرا ذہن اور جذبات سنبھالے نہیں جا رہے۔ اظہار خیال کے لئے کون سے الفاظ ڈھونڈ نکالوں جو ان کی سحر انگیز شخصیت کا احاطہ کر سکیں؟ مولانا عبدالوہاب کا دنیا سے پردہ ملت اسلامیہ ‘بالخصوص مملکت خداداد کیلئے یقینا ایک بڑا سانحہ ہے، مولانا سے جدائی کی خبر جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی‘ ملک بھر سے عقیدت مندوں نے ان کے سفر آخرت میں شرکت کے لئے رائیونڈ کا رخ کیا۔ ملک کے کونے کونے سے ان کے ماننے والے منہ مانگے کرائے دے کر ان کے جنازے کو کندھا دینے کی آرزو لئے رائیونڈ پہنچ گئے۔ اس موقعہ پر ایئرلائنز کو بھی معلوم تھا کہ سفر طویل ہے اور عقیدت مندوں نے جانا ضرور ہے۔ اس صورتحال کا بھرپور فائدہ اٹھایا گیا۔
مولانا عبدالوہاب نے پون صدی تک اپنی عمر کا ایک ایک لمحہ عملی طور پر دین کی تبلیغ اور اشاعتِ اسلام کے لئے وقف کئے رکھا۔ ایسی ہستی کو کم از کم میں تو زندوں کی فہرست سے خارج کرنے کی جسارت نہیں کر سکتا‘ کیونکہ جس ہستی کی شب بیداری سے لے کر دن بھر کی تبلیغ اور ملت اسلامیہ کے لیے تڑپ تک اثرات اور ثمرات آج بھی دنیا بھر میں نظر آتے ہیں، تو پھر دنیاوی پردہ ان کے ماننے والوں اور عقیدت مندوں کے درمیان کیسے حائل ہو سکتا ہے؟ خیر یہ میرا ذاتی موقف اور نقطہ نظر ہے۔
قیام پاکستان سے قبل مولانا حاجی عبدالوہاب نے تعلیم مکمل کرنے کے بعد اپنے کیریئر کا آغاز تحصیلدار کی حیثیت سے کیا‘ لیکن اللہ تعالیٰ انہیں کسی بڑے مقصد کے لئے منتخب کر چکا تھا۔
ایک روز مولانا حاجی عبدالوہاب بطور تحصیل دار تانگے پر سفر کر رہے تھے۔ تانگے والا مولانا سے مخاطب ہوا اور بولا ''بابو جی کبھی بڑا کام کیا ہے؟‘‘ مولانا بولے: یہ بڑا کام کیا ہوتا ہے؟ تانگے والا بولا: نظام الدین اولیاء کا۔ اس طرح تانگے والے کی دعوت پر مولانا عبدالوہاب مرکز نظام الدین اولیائؒ میں مولانا الیاس کاندھلوی کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ انہیں پہلے وضو کا کہا گیا۔ بعد ازاں مولانا الیاس احمد کاندھلوی نے مولانا حاجی عبدالوہاب کو مخاطب کرکے کہا ''عبدالوہاب تیری دعوت کے بول پوری دنیا میں پہنچا دئیے گئے ہیں‘‘۔ اس طرح مولانا عبدالوہاب شبِ جمعہ پر باقاعدگی سے آنا شروع ہو گئے اور اپنے سرکاری دفتر میں بھی دعوت اور تبلیغ کا کام شروع کر دیا۔ چھ ماہ مرکز نظام الدین اولیائؒ میں تعلیم و تربیت کے بعد انہوں نے اپنی زندگی تبلیغ کے لئے عملی طور پر وقف کر دی۔ سرکاری عہدے کو لات مار کر مجلس احرار اسلام میں باقاعدہ شمولیت اختیار کرنے کے بعد بورے والا شاخ کے صدر منتخب ہوئے اور پھر بورے والا میں قیام کے دوران نہ صرف اللہ کا پیغام لوگوں تک پہنچایا بلکہ اس کار خیر کے لئے جسمانی مشقت کو بھی جاری رکھا۔
انہوں نے سرکاری عہدہ، مراعات اور دیگر عیش و آرام کو ٹھوکر مار کر اللہ کے دین کا راستہ اپنایا اور اللہ سے ایک ہی خواہش اور تمنا کی ''اللہ کے دین کے راستے میں موت کی آرزو‘‘ اللہ تعالیٰ نے ان کی یہ مراد پوری کی اور 95 سال کی ضعیف العمری اور علالت کے باوجود مولانا حاجی عبدالوہاب کو اپنے دین کی تبلیغ اور تعلیم کے لئے آخری سانس تک منتخب کئے رکھا۔
آپ کا تعلق دیوبند مکتبہ فکر سے تھا۔ آپ نے ہمیشہ فکری ہم آہنگی پر زور دیا۔ مولانا حاجی عبدالوہاب کو سیاست سے کوئی سروکار نہ تھا‘ حالانکہ ان کے در پر بڑی بڑی نامی گرامی ‘سرکاری اور حکومتی عہدوں پر فائز شخصیات باقاعدگی سے حاضری دیا کرتی تھیں۔ آپ کی شخصیت پُرکشش اور رائے مستند تھی۔ یہی وجہ ہے کہ فروری 2014 میں جب طالبان کے ساتھ مذاکرات کا مرحلہ شروع ہوا تو فریقین کی جانب سے پیش کردہ ناموں میں آپ کا نام سر فہرست تھا۔ سابق حکومت میں شامل رہنمائوں نے تحریک طالبان سے مذاکرات کے لئے آپ کا نام پیش کیا‘ اور دوسری طرف سے بھی آپ ہی کا نام سامنے آیا۔ انصاف اور اصول پسندی کے پیش نظر عالمی طاقتوں نے بھی آپ کے نام پر اتفاق کیا۔ مولانا حاجی عبدالوہاب نے تبلیغی تحریک کو سارے عالم میں پھیلایا۔ آج پوری دنیا میں تبلیغی جماعت پرامن اور بامقصد جماعت تصور کی جاتی ہے۔ آپ نے دعوت اور تبلیغ والے کام کو پوری محنت اخلاص اور نظم کے ساتھ سرانجام دیا۔ اللہ کی مدد اور نصرت سے ناقابل یقین حد تک کامیابی حاصل ہوئی، آپ نے اللہ کی نافرمانی اور فسق و فجور میں مبتلا لاکھوں افراد کو اپنی تعلیم اور تبلیغ کے زور پر دین اسلام کا داعی بنا دیا۔ آپ کے اس مشن کی پوری دنیا میں اور کسی دوسرے مذہب میں کوئی دوسری مثال نہیں ہے۔
نورانی چہرے اور پُرنور شخصیت کے مالک حاجی عبدالوہاب کبھی سماجی اور سیاسی تقریبات میں شریک نہیں ہوتے تھے۔ آپ انتہائی خاموشی کے ساتھ دینِ اسلام کی تبلیغ میں مگن رہے۔ آپ نے پوری زندگی اشاعت اسلام اور دین خداوندی کی تبلیغ میں بسر کر دی۔ یہی آپ کا مشن اور یہی مقصدِ حیات تھا۔ جوق در جوق غیر مسلموں کو دائرہ اسلام میں داخل کیا۔ دنیا نے دیکھا کہ آپ کی تبلیغ کے بعد بے شمار لوگوں نے اپنے جان و مال اور زندگی کو اللہ کے دین کی تبلیغ کے لئے وقف کر دیا۔ پھر ایک ایک گھر سے ایک ہی وقت میں کئی کئی افراد دین کے کام کے لئے باہر نکلے اور احیائے اسلام کی عالمگیر تحریک بن گئی۔ یہ کوئی معمولی کام اور معمولی تحریک نہیں ہے بلکہ پورے دین کے عملی طور پر زندگی میں نفاذ کی تحریک ہے۔ آپ کا یہ مشن نہیں تھا کہ لوگ محض زبان سے اسلام قبول کریں بلکہ آپ چاہتے تھے کہ لوگ پورے کے پورے اسلام میں داخل ہو جائیں، جیسا کہ قرآن پاک کی ہدایت ہے۔
تبلیغی جماعت کے دوسرے سرکردہ رہنمائوں کی طرف سے مولانا حاجی عبدالوہاب یہی کہا کرتے تھے کہ ہماری جماعت اور تبلیغ کا خاص مقصد یہ ہے کہ مسلمانوں کو حضور پاکﷺ کا لایا ہوا دین پورے کا پورا سکھا دیں‘ تبلیغی قافلوں کی آمدورفت اسی سلسلے کا ایک حصہ ہے۔ ان کی تعلیمات اور دینی خدمات پر اگر لکھا جائے تو یہ کالم کیا پورے اخبار کے صفحات بھی ناکافی ہوں گے۔ مولانا حاجی عبدالوہاب نے اپنی زندگی میں ہی مولانا نذرالرحمن کو امارت کی ذمہ داری سونپ دی تھی۔ وہ ان کے انتہائی با اعتماد اور مخلص ساتھیوں میں شمار ہوتے ہیں اور ان کے جلائے ہوئے چراغوں کی روشنی کو بڑھانے کے لئے ان کے مشن کو نا صرف آگے بڑھائیں گے بلکہ ان چراغوں میں اضافہ بھی کریں گے، جو دین کی روشنی میں چار سو روشن رہیں گے۔ آخر میں ایک دعا۔
''اے رب کعبہ تجھے اپنی شان کریمی کا واسطہ‘ تجھے شاہ مدینہﷺ کا واسطہ‘ مولانا عبدالوہاب کے تبلیغی قافلے کو اتنی وسعت عطا فرما دے کہ دین اسلام کی روشنی سے اسلام دشمن طاقتوں کی آنکھیں نہ صرف چندھیا جائیں بلکہ وہ خود اس روشنی کا حصہ بن جائیں اور مملکت خداداد کو اس حوالے سے دنیا بھر میں ممتاز اور معتبر بنا دے۔‘‘