اہداف کے حصول کے لئے حکمت عملی میں تبدیلی کرنا، خود کو از سر نو منظم اور صورتحال کے پیش نظر‘ نظر ثانی کرنا یقینا ایک مثبت اور ''پریکٹیکل اپروچ‘‘ ہے۔ ''یو ٹرن‘‘ کے حوالے سے وزیر اعظم عمران خان کی گفتگو کا لب لباب کچھ اسی طرح تھا۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ اہداف کے حصول کے لئے ''یو ٹرن‘‘ لینا بڑے لیڈر کی نشانی ہے۔
بعض اوقات دوائی کا دستیاب ہونا ہی کافی نہیں ہوتا، اس کا ترکیبِ استعمال معلوم ہونا بھی ضروری ہوتا ہے۔ دوائی کی مقدار اور دو خوراکوں کا درمیانی وقفہ بھی علاج کا حصہ ہے۔ لیکن عمران خان صاحب کہیں زیادہ نازک صورتحال سے دوچار نظر آتے ہیں۔ ''وہ لگانے والی دوائی کھا رہے ہیں، اور کھانے والی دوائی لگائے چلے جا رہے ہیں‘‘۔ ایسی صورتحال میں افاقہ کیا خاک ہو گا؟
اقتدار میں آنے سے قبل عمران خان ہمیشہ شریف برادران کی کرپشن‘ اقربا پروری اور سرکاری عہدوں کی بندر بانٹ پر سیاست اور واویلا کرتے رہے ہیں۔ آج وہ خود اقتدار میں آنے کے بعد اپنے ہی ''بیانئے‘‘ کی نفی کر کے قول و فعل کے تضاد کو ''یو ٹرن‘‘ قرار دے رہے ہیں۔ توجہ طلب امر یہ ہے کہ سابق حکومت اگر اپنے قریبی لوگوں کو سرکاری عہدے اور مراعات دے تو کرپشن... اور یہی روایت آپ برقرار رکھیں تو اسے کیا کہیں گے؟ کیسے جائز قرار دیں گے؟
دوستیاں نبھانے کے چکر میں عمران خان صاحب کی ذات اور گورننس پر کئی کڑے سوالیہ نشان آ چکے ہیں۔ سیدھی سی بات ہے ''رائٹ مین فار رائٹ جاب‘‘ ہی واحد فارمولا ہے گڈ گورننس اور بہترین حکمرانی کا۔ حکومت کے پاس ایک شعبے میں کئی کئی مشیر ہیں جو نہ صرف اپنے وزرا کے لئے وبال بنے ہوئے ہیں بلکہ وزارت اور متعلقہ مشینری میں ''کنفیوژن‘‘ اور گروپ بندی کا بھی باعث ہیں۔ حضرت لقمان نے اپنے بیٹے کو نصیحت کرتے ہوئے کہا تھا ''میں جب بھی پچھتایا اپنے بولنے پر پچھتایا‘‘ الفاظ کے اسراف سے بہتر ہے خاموش رہا جائے۔
وزیر اعظم عمران خان کے ارد گرد موجود ہر شخص ''از خود‘‘ یہ طے کئے بیٹھا ہے کہ وہ کسی بھی معاملے میں‘ کسی بھی وقت دخل اندازی اور بیان بازی کا مکمل اختیار رکھتا ہے۔ چند روز قبل افغانستان میں قتل ہونے والے ایس پی طاہر داوڑ کے حوالے سے وزیر اعظم کے معاون افتخار درانی نے میڈیا کو سختی سے جھٹلانے کی کوشش کی‘ اور اس نازک اور حساس معاملے کی ناقابل تردید حقیقت کو یکسر مسترد کر دیا۔ اور پھر دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو گیا۔ حقیقت کھل کر سامنے آ گئی۔ کسی نے افتخار درانی صاحب سے یہ پوچھنے کی اخلاقی جرأت بھی نہیں کی کہ بھائی تم نے کون سے ''طوطے سے فال‘‘ نکلوا کر بیان دیا تھا۔ کہتے ہیں: بعض اوقات ''لا علمی نعمت اور کم علمی لعنت‘‘ بن جاتی ہے۔ غضب خدا کا ترجمانی حکومت کی اور علم اور قابلیت صفر۔
کس حکومتی شخصیت نے کیا بیان دے دیا؟ کیوں دے دیا؟ پالیسی کیا تھی؟ اس بیان کے نتیجے میں حکومت کو کتنی سبکی کا سامنا کرنا پڑا؟ یہ سوچنا شاید حکومتی ترجیحات کا حصہ نہیں ہے اور کمال یہ کہ ایک روز قبل حکومت کی سبکی کا باعث بننے والے اگلے روز پھر ''بائو شائو‘‘ بن کر وزیر اعظم کے پہلو میں انتہائی مطمئن اور با اعتماد کھڑے نظر آتے ہیں۔ وزیر اعظم عمران خان اپنے ذاتی تعلق کی بنیاد پر کئے گئے کئی فیصلوں کی زد میں ہیں اور ان کو اس کی قیمت بھی چکانا پڑ رہی ہے‘ کیونکہ تعلق کی قیمت بہرحال چکانا ہی پڑتی ہے۔
برادر محترم حسن نثار کا ایک شعر اس صورتحال کی بھرپور عکاسی کرتا ہے:
ساری ضدیں پوری کر لیں، ہر اک کام تمام کیا
یہ تو بتا اس کھیل میں آخر اپنا کیا انجام کیا
دوستیاں اور یاریاں نبھانے کے لئے ہوتی ہیں اور نبھانی بھی چاہئیں لیکن ''دادا جی کی فاتحہ اور حلوائی کی دکان‘‘ نہیں ہونی چاہئے۔ آپ کے پاس وزارتوں میں تعینات قابل اور تجربہ کار افسران کی فوج موجود ہے۔ ان کو یکسر نظر انداز کر کے ذاتی مشیروں پر مکمل انحصار نا مناسب اور ''نان پریکٹیکل‘‘ ہے۔ نا تجربہ کار اور ''نان پروفیشنل‘‘ مشیروں کے ذریعے تجربات کے انبار لگانے سے بہتر ہے افسران کی مہارت اور تجربے سے استفادہ کیا جائے۔ مشیروں کی بے جا اور بے تکی مداخلت گروپ بندی اور محاذ آرائی کا سبب بن چکی ہے اور متعلقہ وزیر اکثر و بیشتر مصلحت پسندی پر مجبور ہیں۔ بات ہو رہی تھی اقربا پروری اور قریبی ساتھیوں میں سرکاری عہدوں کی بندر بانٹ کی۔ وزیر اعظم عمران خان سے ناگزیر تعلق کے ایک اور دعویدار سید ذوالفقار عباس بخاری المعروف ذلفی بخاری کہتے ہیں کہ میں عمران خان کے ساتھ پوری دنیا گھوما ہوں‘ ''کنٹینر‘‘ سے لے کر ایوان اقتدار تک تمام مراحل میں عمران خان کے ہمقدم اور شانہ بشانہ رہا ہوں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ وہ سمجھتے ہیں ''اوورسیز پاکستانیوں‘‘ کے حوالے سے ان سے بہتر معاون خصوصی وزیر اعظم کو نہیں مل سکتا۔ وہ اپنی اس مہارت کے زعم میں مبتلا بھی ہیں۔ ان کی اہلیت اور قابلیت کے بارے میں عمران خان صاحب کے پاس بھی شاید کوئی معقول جواب نہیں ہے۔ ایک مرتبہ تو ذلفی بخاری کے کاروبار کے حوالے سے ایک سوال پر وزیر اعظم عمران خان لا جواب پائے گئے تھے۔ نیب اور ایف آئی اے میں زیر التوا کیسوں اور دوہری شہریت جیسے اعتراضات کے باوجود عمران خان صاحب یہاں تو ''یو ٹرن‘‘ لینے کے موڈ میں نظر نہیں آ رہے۔ قانون کے احترام اور پاسداری کا عالم یہ ہے کہ ذلفی بخاری نیب کی طلبی کو کسی خاطر میں نہیں لاتے‘ اور نیب نے بھی تحریری طور پر اپنے تحفظات کا اظہار کیا ہے کہ وہ نیب کے ساتھ تعاون کرنے سے گریز کر رہے ہیں۔ جبکہ ذلفی بخاری صاحب نے ایک ٹی وی پروگرام میں اینکر کے ایک سوال کے جواب میں کہا تھا ''بھائی مجھے نیب کیوں بلا رہی ہے، میں نیب کے قانون اور ضابطے کی زد میں نہیں آتا‘ میں ساری عمر باہر رہا ہوں اور کاروبار بھی باہر ہی کرتا ہوں‘ تو نیب مجھے کس طرح بلا سکتی ہے؟‘‘
نیب کی طلبی/ سمن پر کئی مہینے تو ان کے کانوں پر جوں تک نہ رینگی۔ انہوں نے کسی نوٹس پر حاضری تو درکنار کسی قسم کی قانون پسندی اور ذمہ داری کا مظاہرہ بھی نہیں کیا۔ بصورت دیگر ان کی کیا مجال کہ نیب کے سمن/ طلبی کو نظر انداز کرکے از خود یہ فیصلہ کر لیں کہ نیب کا اطلاق مجھ پر نہیں ہوتا۔
اسی طرح انیل مسرت کے حوالے سے اعتراضات اور تحفظات بھی میڈیا کی زینت بن چکے ہیں۔ سو دن کی ''آزمائشی پرواز‘‘ کے بعد خان صاحب کو معلوم ہو جانا چاہئے کہ کون سی ''سواری‘‘ اب ''بوجھ‘‘ ہے اور کون سی ''سواری غیر موزوں‘‘۔ ایسی سواریوں کو ''آف لوڈ‘‘ کرنا ہو گا تاکہ ان کی جگہ آپ کو جواب دہ نہ ہونا پڑے۔ ''یو ٹرن‘‘ کا مقصد نظر ثانی... درستی اور اصلاح ہو تو یقینا یہ ایک قابل تعریف اور مثبت عمل ہے۔ قول و فعل کے تضاد کو ''یو ٹرن‘‘ سے تعبیر کرنا قطعی نا قابل فہم اور غیر مناسب ہے۔
ماضی میں جن شخصیات کے بارے میں عمران خان صاحب ناپسندیدگی کا اظہار کرتے رہے اور جن کے بارے میں انتہائی سخت الفاظ میں بڑے بول بھی بولتے رہے، آج وہی شخصیات حکومت کی حلیف اور شریک اقتدار ہیں۔
محترم خان صاحب! آپ نے تو کھیل کے میدان میں کسی کو دوسری غلطی کا موقع نہیں دیا، یہ تو پھر امور سلطنت ہیں‘ یہاں ''بلنڈرز‘‘ کی ''سیریز‘‘ کس طرح آپ کے لئے قابل برداشت ہے؟ آپ نے تو اپنے بڑے بھائیوں جیسے ماجد خان المعروف ''مائٹی خان‘‘ کو ''آف لوڈ‘‘ کرنے میں دیر نہیں لگائی تھی۔ تو پھر یہ دوستیوں کا بوجھ سرکاری وسائل پر آپ کس طرح ڈال سکتے ہیں؟ تعجب ہے!