کرپشن پر سزائے موت کا قانون بنانے کی باتیں ہو رہی ہیں۔ اس حوالے سے اسمبلی میں پیش رفت بھی جاری ہے۔ چین اور کوریا جیسے ممالک اپنے ابتدائی حالات میں ہم سے کب بہتر اور مستحکم تھے۔ انہوں نے بھی کرپشن کو ''موت‘‘ دے کر ہی اپنے ملک اور قوم کو باوقار اور خوشحال زندگی دی ہے۔ بد قسمتی سے ہمارے ہاں لوگ کرپشن کے دفاع میں مصلحت اور مفاہمت کی اس انتہا پر چلے جاتے ہیں کہ ان کی بلا سے ملک کے پلے کچھ رہے نہ رہے‘ ان کی گردن اور کھال محفوظ رہنی چاہیے۔ سیاست میں مفاہمت کے بادشاہ کسی صورت ''ڈیڈ لاک‘‘ کے قائل نہیں۔ بس سسٹم اور کام چلنا چاہیے۔ ''جس معاشرے میں سب چلتا ہے وہاں کچھ بھی نہیں چل سکتا‘‘۔ اگر سیاسی مفاہمت کا مطلب ''چوروں کا چوروں کو‘‘ تحفظ دینا ہے تو یہ مفاہمتی پالیسی ملک و قوم کی پستی، گراوٹ اور بدحالی سے ہو کر جگ ہنسائی تک جا پہنچتی ہے۔ ماضی میں ہمارے حکمران ''سونے کے کشکول‘‘ لے کر مال اکٹھا کرنے کیلئے بیرون ممالک اور آئی ایم ایف کی ''زیارت‘‘ کو نکلتے تھے اور انتہائی تکلیف دہ، ذلت آمیز اور مشکل شرائط پر ملنے والے قرضوں سے سابقہ قرضوں کی قسطیں اتار کر قوم کو معاشی ریلیف اور خوشحالی کی نوید سناتے تھے۔
سیاسی مخالفین کو احتساب اور کرپشن کے نام پر زیر عتاب رکھنے کی روایت گزشتہ تین دہائیوں سے زوروں پر تھی‘ لیکن مفاہمت کے بادشاہ آصف علی زرداری نے اپنے دورِ اقتدار میں اس کلچر اور پالیسی کے خلاف ''مفاہمت‘‘ کو متعارف کروایا‘ اور یہ کریڈٹ بھی انہی کو جاتا ہے کہ ان کے دورِ حکومت میں کسی کو سیاسی قیدی بنا کر زیر عتاب نہیں رکھا گیا۔ ہاں! ضمیر کے قیدیوں کی کوئی کمی نہ تھی۔ ایک دوسرے کو چور اور برا بھلا کہنے کی کوئی ممانعت نہیں تھی۔ اس طرح چوروں کا چوروں کو تحفظ دینے کا یہ سلسلہ اقتدار کے بٹوارے سے لے کر ملک و قوم کی دولت کے بٹوارے تک جا پہنچا اور اس مفاہمت کی شاہراہ پر چلتے ہوئے یہ قائدین قوم کو جس سنہرے دور کی نوید سناتے رہے‘ وہ سنہرا دور ''چمکیلا اندھیرا‘‘ نکلا۔ چوروں کا چوروں کو تحفظ دینے کا بڑا سیدھا سا مطلب ہوتا ہے ''تم بھی لوٹو‘‘ ... ''ہم تو لوٹ ہی رہے ہیں‘‘... اس ملک کے وسائل ہمارے باپ داد کی جاگیر ہیں۔ اس کے ساتھ جو چاہے کھلواڑ کرو تمہیں کوئی روکنے اور پوچھنے والا نہیں۔ پھر چشمِ فلک نے یہ منظر بھی دیکھا کہ حکمران ''دربدر‘‘ ہو گئے۔ بقول برادرِ محترم حسن نثار ''شریف خاندان... پسِ زندان‘‘۔
اور اب سیاست میں مفاہمت کے نمبردار آصف علی زرداری اور ان کی ہمشیرہ فریال تالپور سے جے آئی ٹی کی تفتیش کو پیپلز پارٹی نے تماشا اور امتیازی سلوک قرار دے دیا ہے۔ ایک گھنٹہ سے زائد جاری رہنے والے تفتیش میں آصف علی زرداری سے کاروباری اور مالی معاملات کے بارے میں سوال پوچھے گئے جبکہ اومنی گروپ سے تعلق کی نوعیت بھی تفتیشی سوالات کا حصہ تھی۔ آصف علی زرداری کئی سوالات کے تسلی بخش جواب نہ دے سکے۔ ان کی ہمشیرہ فریال تالپور کو بھی سوالنامہ دے دیا گیا ہے جبکہ بلاول بھٹو زرداری طلبی کے باوجود پیش نہیں ہوئے۔
زرداری خاندان کی جے آئی ٹی میں طلبی اس احتسابی عمل کا حصہ ہے جس کا آغاز نواز شریف کی نااہلی سے ہوا تھا۔ اس تناظر میں احتساب کا یہ دائرہ اپنے مطلوبہ دیگر اہداف تک پہنچ چکا ہے۔ آصف علی زرداری نے اس بلا کو ٹالنے کیلئے ہر ممکن مفاہمت اور سیاسی تعاون کا عملی مظاہرہ بھی کیا لیکن اب وہ وقت آن پہنچا ہے کہ ''سچ کو جاننے... ماننے... اور تسلیم کیے بغیر‘‘ کام نہیں چلے گا۔ غاصب منصب داروں کے کڑے احتساب سے ہی اس زمین کا قرض ادا ہو گا۔
بلاول بھٹو زرداری کے اکثر بیانات غیر سنجیدہ ہوتے ہیں لیکن مالی بحران سے نمٹنے کیلئے دوست ممالک کے حکومتی دوروں اور کوششوں کا تمسخر اُڑانا... آئی ایم ایف سے رجوع کرنے پر شعلہ بیانی ان کی ذہنی اور سیاسی بلوغت کا پتہ دیتی ہے۔ کوئی ان پوچھے کہ اس ملک پر قرضوں کا غیر معمولی اور تشویشناک بوجھ گزشتہ سو دنوں کی پیداوار نہیں‘ یہ ''کارِ بد‘‘ اس وقت سے جاری ہے جب آپ اس دنیا میں بھی نہیں آئے تھے۔ اسی دوران دو مرتبہ ان کی والدہ محترمہ بھی وزیر اعظم کے منصب پر فائز رہیں‘ اور اُن کے اقتدار کے دوسرے دور کے خاتمے تک بلاول بھٹو زرداری کمسن ہی تھے۔ گمان غالب یہ ہے کہ بلاول بھٹو کو اس وقت ملنے والا جیب خرچ بھی آج تک موجود حکومت پر قرضے کی صورت میں واجب الادا ہو گا۔ بعد ازاں طاقت اور اختیار سے بھرپور دور ان کے والد آصف علی زرداری کی حکمرانی کا دور تھا۔ پیپلز پارٹی کے ان تین ادوار میں جو قرضے اس ملک پر چڑھائے گئے‘ اس کا جواب کون دے گا؟
غضب خدا کا‘ قرضے کی قسط ادا کرنے کیلئے بھی قرضہ ہی لینا پڑا... دورِ حکومت نواز شریف کا ہو یا بے نظیر کا... پرویز مشرف کا ہو یا آصف علی زرداری کا... اس ''بھیانک خیانت‘‘ میں ہاتھ سبھی حکمرانوں کے رنگے ہوئے ہیں اور رہی بات زرداری خاندان کے خلاف احتسابی کارروائی کی تو لانچوں میں بھر کر کرنسی نوٹوں کی نقل و حمل سے لے کر درجن سے زائد شوگر ملز، کمپنیاں، جائیدادیں اور نا جانے کیا کیا... صرف گزشتہ دس سال میں؟ تعجب ہے! ڈاکٹر عاصم اور انور مجید سمیت کئی دوسرے کرداروں کے پس پردہ ''بینی فشری‘‘ کون ہے۔ کیا بلاول بھٹو زرداری نہیں جانتے؟
جب معاشرے میں لوٹ مار اور مار دھاڑ استحقاق تصور کیا جانے لگے تو سمجھ لینا چاہیے کہ بڑے آپریشن کا وقت آن پہنچا ہے۔ یہ آپریشن الحمدللہ شروع ہو چکا ہے۔ نواز شریف خاندان اور دیگر اہم سیاست دانوں سے لے کر اعلیٰ سرکاری افسران تک سبھی احتسابی شکنجے میں آ چکے ہیں‘ قانونِ فطرت بھی حرکت میں آ چکا ہے اور قوم قانونِ فطرت کی حرکت اور گرفت کا عملی مظاہرہ دیکھ رہی ہے۔ عبرت صرف سمجھنے والوں کیلئے ہے۔
یوں تو وطنِ عزیز کے حکمرانوں، اشرافیہ اور حکام کی بد اعمالیوں اور لوٹ مار کی چونکا دینے والی اَن گنت داستانیں منظر عام پر آچکی ہیں۔ لوٹ مار اور نفسانفسی کے اس گھمسان میں نہ کسی حکمران نے کوئی لحاظ کیا اور نہ کسی منصب دار نے کوئی شرم کی... ایسا اندھیر مچائے رکھا کہ بند آنکھ سے بھی سب صاف صاف نظر آرہا ہے... سربراہِ حکومت سے لے کر پٹواری تک کسی پر کوئی الزام لگا دیجئے کلک کرکے فِٹ بیٹھے گا۔
جب معاشرے میں احترام سے دیکھے جانے والوں کی قیادت اور دیانت سوالیہ نشان بن جائے تو پھر کیسی حکومتیں‘ اور کیسی قیادتیں؟ علم میں مزید اضافے اور یاددہانی کے لیے عرض ہے کہ چارٹر طیاروں پر وزرا اور مشیروں کی ''سوٹڈ بوٹڈ‘‘ فوج سے لے کر بیرونی قرضے حاصل کرنے کیلئے جانے والے حکمرانوں تک‘ سب کون تھے؟ والدہ کے دورِ اقتدار میں تو بلاول صاحب چھوٹے تھے لیکن والدِ محترم کی طرزِ حکمرانی کے نتیجے میں کھربوں روپے کی ملوں، کمپنیوں، اکاؤنٹس اور جائیدادوں کا حساب تو یاد ہی ہو گا۔ دور نہیں جاتے گزشتہ دس سالوں کو لے لیجئے۔ روزانہ کی بنیاد پر کمائی گئی دولت اور وسائل کی بربادی کا حساب مانگنا تماشا نہیں... احتساب کہلاتا ہے... اور روزِ حساب تو آنا ہی ہوتا ہے... جلد یا بدیر... یہ قانونِ فطرت ہے۔
مملکتِ خداداد کی تاریخ میں پہلی بار چشم فلک نے دیکھا کہ حکمران، اشرافیہ اور حکام سے کوئی پوچھنے والا اور جواب طلب کرنے والا بھی ہے... اور پھر یہ بھی ہوا کہ اقتدار اور اختیار کے نشے میں دھت ہو کر فیصلے اور ''ایڈونچرز‘‘ کرنے والوں سے پوچھا گیا کہ تم نے یہ فیصلے کس قانون اور ضابطے کے تحت کیے؟ ملکی وسائل اور معیشت کو ''بھنبھوڑ‘‘ کر رکھ دیا گیا۔ کس کھاتے میں؟ معاشرتی اور اخلاقی اقدار کا جنازہ نکال دیا‘ کس بوتے پر؟ سب کو یکساں طور پر جواب دہ بنا دیا گیا ہے... اب وقت آن پہنچا ہے کہ احتساب کا یہ گھیرا اپنے آخری ہدف تک بھی ضرور پہنچے گا۔ اور کرپشن کو موت دے کر ہی اس ملک کی معیشت اور اخلاقی اقدار کو بچایا جا سکتا ہے جو پہلے ہی ''وینٹی لیٹر‘‘پر ہیں۔؎
یہ دیس ہے سب کا مگر اس کا نہیں کوئی
اس کے تنِ خستہ پہ تو دانت ہیں سب کے
آخر میں عرض کرتا چلوں کہ ملکی صورتحال اور مالی بحران کا سارا ملبہ پی ٹی آئی کی حکومت پر ڈال دینا نہ صرف مضحکہ خیز بلکہ گمراہ کن پروپیگنڈا ہے۔ وطنِ عزیز پر قرضوں کا وہ بوجھ جو موجودہ حکومت لیے پھر رہی ہے وہ بوجھ سو دن کا نہیں بلکہ گزشتہ تین دہائیوں کا ہے۔ احتساب کے خلاف شور مچانے اور سیاست کرنے والے اپنا ریکارڈ درست کر لیں۔