حکومتِ وقت نے میڈیا کے لیے کافی آسانیاں پیدا کر دی ہیں۔ خاص طور پر تجزیہ کاروں‘ کالم نگاروں اور ٹی وی اینکرز کو روزانہ کی بنیاد پر اتنے زیادہ موضوعات فراہم کر دئیے جاتے ہیں کہ انتخاب کرنا مشکل ہو جاتا ہے کہ کس ایشو پر بات کریں اور کس پر نہ کریں؟ ایک سے بڑھ کر ایک ہوتا ہے۔ موضوع کے انتخاب میں پہلا حق تو حکومت کا ہی بنتا ہے کیونکہ صاحب اقتدار اپنی طرف سے دھیان ہٹنے دیں تو اپوزیشن اور دوسرے موضوعات پر بات کرنے کا موقع ملے۔ جب بھی کوئی حکومتی مشیر یا وزیر لب کشائی کرتا ہے تو میڈیا کو اگلے چند روز کا مواد مل جاتا ہے۔ فیصلوں پر اَٹل رہنے کی حکومتی پالیسی اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی صورتحال یقینا میڈیا کیلئے ''بائی پراڈکٹ‘‘ کی حیثیت رکھتی ہے اور از خود ایسی صورتحال پیدا کر دی جاتی ہے کہ حکومت کے ''لتے‘‘ لیے جا سکیں۔
وزیراعظم عمران خان کے ''من پسند‘‘ دوست زلفی بخاری کا معاملہ ہی لے لیجئے۔ خان صاحب ہیں کہ کسی طور ماننے کو تیار ہی نہیں... گزشتہ روز انہوں نے زلفی بخاری کے معاملے پر ہی سپریم کورٹ کے نوٹس پر اظہارِ افسوس بھی کر ڈالا‘ جس پر جناب چیف جسٹس آف پاکستان نے بھی دو ٹوک الفاظ میں وزیراعظم پر واضح کر دیا ہے کہ کسی کو پسند ہو یا نہ ہو جب اقربا پروری ہوگی تو قانون بھی حرکت میں آئے گا۔ اقربا پروری کا مطلب صرف رشتہ داری ہی نہیںبلکہ تعلق داری‘ قرابتداری اور دلداری بھی اقربا پروری کے زمرے میں ہی آتے ہیں۔ ان تمام بنیادوں پر کسی بھی شخص کو منصب‘ مراعات یا رعایت دینا اقربا پروری ہی کہلاتا ہے اور جب قانون اور ضابطے بھی اس کی بھینٹ چڑھا دئیے جائیں تو اسے کیا نام دیا جا سکتا ہے؟ ؎
ہر داڑھی میں تنکا ہے ... ہر آنکھ میں شہتیر
زلفی بخاری کی دہری شہریت کے حوالے سے سخت اور اصولی مؤقف اپنانے پر نیب پراسیکیوٹر کو کیا بھگتنا پڑا۔ یہ قانون پسند اور اصول پسند وزیراعظم کیلئے دعوتِ فکر ہے۔ واضح رہے کہ زلفی بخاری کئی ماہ تک نیب کی طلبی پر حاضری تو درکنار بلکہ نوٹس کا جواب تک دینا گوارا نہیں کرتے تھے۔ نیب حکام تحریری طو رپر اس صورتحال کا اظہار کر چکے ہیں کہ زلفی بخاری تفتیش میں تعاون سے دانستہ گریز کر رہے ہیں۔ ان کی ملک میں موجودگی کے باوجود ہر نوٹس کے جواب میں یہی بتایا جاتا تھا کہ وہ بیرون ملک گئے ہوئے ہیں۔ اب دہری شہریت کے باوجود وہ اوورسیز پاکستانیوں کے حوالے سے وزیراعظم کے مشیر کے عہدے کی بہاریں لوٹ رہے ہیں۔ زلفی بخاری کا یہ دعویٰ بھی انتہائی حیرت کا باعث اور توجہ طلب ہے کہ بیرون ملک پاکستانیوں کیلئے ان کی خدمات گراں قدر ہیں۔ ''خدا جانے انہوں نے اووسیز پاکستانیوں کے لیے کون سے پہاڑ کھود ڈالے ہیں اور نہریں نکالی ہیں‘‘۔ اس کا جواب تو شاید وزیراعظم بھی نہ دے سکیں۔ سپریم کورٹ کے نوٹس پر اظہارِ افسوس اور نیب سے نالاں وزیراعظم کسی صورت زلفی بخاری کی تقرری کے فیصلے پر نظر ثانی کیلئے تیا رنہیں ہیں۔ ماضی میں اسی نیب کو قومی خدمت کی علامت قرار دینے والے حکمران آج اسی نیب پر تنقید کر رہے ہیں‘ تعجب ہے۔
ناجانے وہ کونسی مصلحت اور مجبوری ہے کہ وزیراعظم زلفی بخاری کی دوستی کے آگے کسی قانون‘ میرٹ اور ضابطے کو ماننے کیلئے تیار ہی نہیں۔ وہ خواہ سپریم کورٹ ہو یا نیب خان صاحب سب سے ہی نالاں اور شاکی ہیں۔اس حوالے سے حکومتی اور پی ٹی آئی کے حلقوں میں بھی تشویش پائی جاتی ہے کہ عمران خان کے سخت مؤقف کی وجہ سے انہیں خواہ مخواہ دفاعی پوزیشن اختیار کرنا پڑتی ہے۔ کیازلفی بخاری کے سوا کوئی اس قابل نہیں جو اس عہدے پر کام کر سکے؟ متعدد حالیہ کالموں میں وزیراعظم صاحب کو باور کرایا ہے کہ سو دن کی آزمائشی پرواز کے بعد جو سواریاں تاحال آپ پر بوجھ اور جواب دہی کا باعث بن رہی ہیں خدارا انہیں آف لوڈ کر دیں۔ یہ ملک اب مزید تجربات اور ''اللّوں تللّوں‘‘ کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ اس قوم کو وہ حکمران اور عمران خان چاہیے جو کنٹینر پر گھنٹوں کھڑے ہوکر میرٹ‘ قانون‘ ضابطے اور اخلاقیات کی بات کر تھا اور شریف برادران کی اقربا پروری اور عہدوں کی بندر بانٹ پر سخت تنقید کرتا تھا‘ لیکن صورتحال اور منظر نامہ آج بھی کچھ زیادہ مختلف نہیں ہے۔ آج بھی سرکاری وسائل دوستیوں اور یاریوں پر ''واری‘‘ ہیں۔
دوسری طرف وفاقی کابینہ میں ردوبدل کا اشارہ ملتے ہی لابنگ اور بھاگ دوڑ شروع ہو چکی ہے۔ اسد عمر کی متوقع تبدیلی کے پیشِ نظر مشرف دور کے وزیر مملکت برائے خزانہ عمر ایوب نے بھی متبادل وزیر خزانہ بننے کے لیے بھاگ دوڑ شروع کر دی ہے۔ میرٹ اور کارکردگی کے پیش نظر شیریں مزاری‘ اعظم سواتی‘ فیصل واوڈا اور کئی دیگر کی وزارتوں پر بھی خطرات منڈلا رہے ہیں۔ دیکھنا ہے کہ عمران خان نئی کابینہ میں کون سے نئے کھلاڑی میدان میں اتارتے ہیں جو مطلوبہ اہداف کے حصول میں کس حد تک عمران خان کو سرخرو کر سکیں گے؟ جبکہ عمران خان کو یہ مشورہ بھی دیا جا رہا ہے کہ یہ وقت کابینہ میں تبدیلی کا نہیں ہے۔ اس سے حکومت کا مورال نہ صرف متاثرہوگا بلکہ اس اقدام کو حکومتی ناکامی سے منسوب کیا جائے گا اور اپوزیشن کے ہاتھ نیا ایشو آجائے گا ‘جو اسے بطور کارڈ استعمال کر سکتی ہے۔ اس لیے فی الحال کابینہ میں تبدیلی کے امکان کو ردکر دینا ہی بہتر ہے۔ بہرحال عمران خان نے کابینہ میں تبدیلی کا اشارہ دے کر ٹھہرے ہوئے پانی میں پتھر پھینک دیا ہے‘ جس سے حکومت اور پارٹی کے اندر ایک ایسی لہر پیدا کر دی ہے کہ اکثر ارکانِ اسمبلی خود کو متبادل قیادت ثابت کرنے کی سرتوڑ کوششوں میں مبتلا ہوچکے ہیں اور عمران خان کے اس مؤقف کی تائید اور باقاعدہ لابنگ بھی کر رہے ہیں۔ بے تکے‘ غیر متعلقہ اور غیر ذمہ دارانہ بیانات بھی ان سو دنوں میں حکومت کے لیے وبال بنے رہے ہیں اس حوالے سے ابھی خبر آئی ہے کہ تمام وزرا اور مشیروں کو بیان بازی سے روک دیا گیا ہے۔اس حوالے سے مزید بتایا گیا ہے کہ صرف وزیراطلاعات فواد چوہدری کے بیان کو ہی سیاسی پالیسی بیان تصور کیا جائے اور وہ ہی کسی ایشو پر بحیثیت حکومتی ترجمان بیان دے سکتے ہیں... دیر آیددرست آید... یہ ایک مثبت اور اہم فیصلہ جو حکومت نے کافی دیر سے کیا۔ خیر کیا تو سہی۔
وزیر اعظم عمران خان نیب سے بھی نالاں ہیں جبکہ دو‘سری طرف حکومت پنجاب کی کارکردگی سے بھی کوئی خاص مطمئن نہیں۔ اس حوالے سے وزراکی کارکردگی اور میڈیا مینجمنٹ پر بھی اعتراضات پائے جاتے ہیں۔ کہا یہ جارہا ہے کہ پنجاب حکومت میں کافی کام ہورہا ہے جس کی مناسب اور باقاعدہ تشہیر نہیں کی جارہی۔ اگر ان تمام حکومتی اقدامات کی پبلسٹی اور میڈیا مینجمنٹ پر کام کیا جاتا تو حکومتِ پنجاب کی کردار سازی بہتر انداز میں ہو سکتی تھی۔ جو وزرا کی ناکامی اور ناقص کارکردگی کا سبب بن رہی ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ حکومتِ پنجاب کے کس وزیر نے کونسی ایسی کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے جو ابھی تک میڈیا سے پوشیدہ ہے۔ اس حوالے سے مجھے ماضی کا ایک واقعہ یاد آگیا جو مجھے مرحوم بیوروکریٹ دوست شیخ ظہورالحق نے سنایا تھا‘ جو ان کے اپنے ساتھ پیش آیا۔ شیخ ظہور الحق اُن دنوں سیکرٹری اطلاعات پنجاب کے عہدہ پر تعینات تھے۔ سردار عارف نکئی نے وزیراعلیٰ پنجاب کا قلمدان سنبھالنے کے بعد سیکرٹری اطلاعات کو طلب کیا اور کہا : سیکرٹری صاحب مجھے اخبارات میں ہر روز لیڈ(سرخی) چاہیے۔ سیکرٹری اطلاعات شیخ ظہور الحق نے کہا: جی ضرور کیوں نہیں۔ آپ روز کوئی ایسا بڑا کام کر دیا کریں جس کی بنیاد پر میں اخبار میں سرخی لگوا سکوں۔ اس پر وزیر اعلیٰ عارف نکئی نے حیرانی سے پوچھا :یہ روز کیسے ممکن ہے؟ جس پر سیکرٹری اطلاعات نے جواب دیا کہ پھر میں لیڈ بھی روزانہ نہیں لگوا سکتا۔ اس جواب کا وزیراعلیٰ عارف نکئی نے برا بھی منایا۔ میڈیا مینجمنٹ اچھی ہو یا بری... خوشبو اور بدبو کا راستہ کون روک سکتا ہے؟ ایسے میں کام کئے بغیر کردار سازی اور تشہیر کی توقع ایسے ہی ہے جیسے ''چارہ‘‘ بو کر ''گندم‘‘ کی توقع کی جائے ؎
آتے ہیں نظر مسندِ شاہی پہ رنگیلے
تقدیر اُمم سو گئی طاؤس پہ آکر