قارئین آج چند منتخب موضوعات پر بات کریں گے۔ سزا اور جزا کی بنیاد پر بلائے گئے وفاقی کابینہ کے حالیہ اور منفرد ترین اجلاس میں کپتان نے اپنی ٹیم کے وزرا کو پاس کر دیا۔ وزیر اعظم کی طرف سے تمام وزراء کے پاس ہونے کی خبر سنتے ہی یکایک مجھے وہ فلمی اشتہار یاد آ گئے جن پر پروڈکشن کمپنی کی طرف سے انتہائی فخریہ انداز میں لکھا ہوتا تھا ''سنسر نے بخوشی پاس کر دیا‘‘۔
قارئین...! آپ کو یاد ہوگا یہ بہت زیادہ پرانی بات نہیں زیادہ سے زیادہ دو دہائیاں پہلے اخبارات کے اندرونی صفحات شہر بھر کے سینما گھروں میں زیر نمائش فلموں کے اشتہارات سے بھرے ہوتے تھے اور نئی ریلیز ہونے والی فلم کے اشتہار پر فلم کمپنی اس اعلان کو باعث اعزاز سمجھتی تھی کہ ہماری فلم سنسر نے بخوشی پاس کر دی۔ یعنی مذکورہ فلم مطلوبہ معیار اور ضابطے کے عین مطابق تیار کی گئی ہے۔ خیر بات ہو رہی تھی وفاقی کابینہ اور اس کی کارکردگی کی... وزیر اعظم نے تو اس کارکردگی کو تسلی بخش قرار دیتے ہوئے اطمینان کا اظہار بھی کر دیا۔
وزیر اطلاعات فواد چوہدری، وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کی کارکردگی قابلِ تعریف قرار دی گئی ہے جبکہ مراد سعید کو وَن سٹیپ ترقی دے کر وفاقی وزیر بنانے کا فیصلہ بھی کر لیا گیا ہے۔ مذکورہ اجلاس سے قبل افواہوں اور خدشات کا طوفان کھڑا تھا کہ کون کون سے برج الٹیں گے... کون کون سے نئے سروں پر تاج پہنائے جائیں گے... لیکن افواہیں اور خدشات کے طوفان کا رُخ کپتان نے موڑ دیا ہے۔ ویسے بھی اس موقع پر کابینہ کی کارکردگی پر عدم اطمینان اور وزراء کی تبدیلی حکومت کی ساکھ اور نیک نامی کیلئے اچھا ''شگون‘‘ نہیں ہے۔
وزیر اطلاعات فواد چوہدری کی کارکردگی کو قابلِ تعریف قرار دے کر وزیر اعظم نے ان تمام ''چیمپئنز‘‘ کی کوششوں اور عزائم کو خاک میں ملا دیا جو وزیر اطلاعات کی تبدیلی کے خواہش مند اور پرعزم تھے۔ مذکورہ صورتحال میں سرگرم اکثر ''چیمپئن‘‘ فواد چوہدری سے بھی اظہار یکجہتی کرتے پائے گئے۔ وزیر اطلاعات سے یہ یکجہتی عین وہ منظرنامہ پیش کر رہی تھی ''جیسے کوئی کسی محلے میں بچے کے اغواء کی واردات میں ملوث ہو اور متاثرہ خاندان کے ساتھ ملک کر بچے کی تلاش میں بھی پیش پیش نظر آئے۔‘‘
زیادہ تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں واقفانِ حال اور خصوصاً فواد چوہدری بخوبی جانتے ہیں کہ ان کے بیرون ملک دورے کو کیسے اور کیوں ''سکینڈلائز‘‘ کیا گیا...؟ اور ایسا نقشہ کھینچا گیا کہ فواد چوہدری کو خود یہ کہنا پڑ گیا اگر وزیر اعظم میری کارکردگی سے مطمئن نہیں اور کسی اور کو یہ ذمہ داری دینا چاہتے ہیں تو میں بطور ایم این اے کام کرنے پر بھی تیار ہوں۔ یہ کوئی نئی بات نہیں... محلاتی سازشوں میں یہ سب چلتا ہے۔ وہ شکر کریں کہ ''عزت سادات‘‘ بچ گئی۔
شکاریوں کا جال اتنا کمزور نہ تھا... وہ تو خیر ہو وزیر اعظم کی... جنہوں نے فواد چوہدری کی وزارت کو ''پاسنگ مارکس‘‘ نہیں دئیے بلکہ انہیں ''پوزیشن ہولڈر‘‘ قرار دے کر ان تمام ''چیمپئن‘‘ حضرات کی کوششوں پر پانی پھیر دیا‘ جو وزارتِ اطلاعات کے قلمدان کی تبدیلی کا ماحول بنائے بیٹھے تھے۔
کابینہ کے حوالے سے وزیر اعظم کے اس فیصلے کو ان کی سیاسی بصیرت قرار دیا جاسکتا ہے کیونکہ اس نازک موقع پر کابینہ میں ردّوبدل اور وزراء پر عدمِ اعتماد حکومت کے لیے بڑا سیاسی دھچکہ ثابت ہو سکتا تھا۔ اس تناظر میں وزراء کا دفاع ہی بنتا تھا۔ گزشتہ سو دنوں میں ہونے والی تمام ''اونگیاں بونگیاں‘‘ وزیر اعظم نے کلیئر کر کے اگلے سہ ماہی جائزہ اجلاس تک مہلت دے دی۔ کپتان کے اس اقدام سے اکثر وزراء کی نہ صرف سانسیں بحال ہوئی ہیں بلکہ وہ دفاعی پوزیشن سے بھی باہر نکل آئے ہیں۔
اب وزراء کو چاہیے کہ وہ کپتان کی اس رعایت اور ''معاملہ فہمی‘‘ کو اپنا میرٹ تصور نہ کریں بلکہ اسے خصوصی رعایتی نمبروں سے پاس ہونا ہی سمجھیں... یعنی چند اضافی نمبروں کے ساتھ ''پاسنگ مارکس‘‘... یہ اضافی نمبر وزیر اعظم صاحب نے اپنے نمبروں میں سے دئیے ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ آئندہ کارکردگی کا جائزہ اجلاس کیا منظر نامہ پیش کرتا ہے...؟ رعایتی نمبروں سے پاس ہونے والے وزراء اور مشیر پوزیشن ہولڈر بن سکیں گے یا نہیں؟ یہ تو وقت ہی بتائے گا... یہ حقیقت بھی اپنی جگہ کہ ''پوت کے پاؤں پالنے میں ہی نظر آ جاتے ہیں‘‘۔
اب چلتے ہیں کہ ذرا نیب کی طرف... وزیر اعظم نے نیب کی مجموعی کارکردگی پر عدم اطمینان کا اظہار کیا ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا ہے کہ نیب پر اگر میرا اختیار ہوتا تو کم از کم پچاس افراد جیل میں ہوتے۔ وزیر اعظم نے پچاس افراد کو بذریعہ نیب جیل بھجوانے کی خواہش کا اظہار کیا ہے۔ اگر خان صاحب اپنی حکومتی ٹیم، پارٹی اور شریک اقتدار حلیف جماعتوں پر ایک نظر ڈال لیں تو مطلوبہ ہدف کا نصف تو گھر سے ہی مل سکتا ہے۔ اس تاثر کو بھی دن بدن تقویت مل رہی ہے کہ نیب کا ہاتھ اَپوزیشن پر ''بھاری‘‘ ہے‘ جبکہ حکومتِ وقت کے قریبی اور حلیف نیب کی دسترس سے قدرے دور پائے جا رہے ہیں۔ چھبیس اہم شخصیات پی۔ٹی۔آئی حکومت کے لیے سوالیہ نشان ہیں جن کے کیسز نیب میں زیر التواء ہیں۔ اکثرکیسز تو سالہا سال کی گرد میں ''اَٹ‘‘ چکے ہیں۔
دوسری طرف عدالتی نااہلی کے باوجود جہانگیر ترین کے لیے سرکاری پروٹوکول... انتظامی مشینری... دست بہ دستہ اور حکومتی مؤقف کی ترجمانی کس حیثیت میں؟ یہ وہ تضادات ہیں جو حکومت کے لیے اس وقت تک سوالیہ نشان بنے رہیں گے جب تک حکومت ان سوالات اور ''مصلحتوں‘‘ سے چھٹکارا حاصل نہیں کر لیتی۔ خیال رہے کہ دوستیوں، مصلحتوں اور دوہرے معیار کی قیمت اتنی نہ بڑھ جائے کہ چُکانا ممکن نہ رہے... اور ویسے بھی کابینہ کو رعایتی نمبر دے کر وزیراعظم نے پاس کیا ہے‘ عوام نے نہیں۔
آخر میں صحت عامہ کے حوالے سے حکومت پنجاب کے ایک اہم فیصلے کی تعریف کرنا بھی ضروری ہے۔ حکومتِ پنجاب نے ''ٹھنڈی مرغی‘‘ کی روک تھام کیلئے پہلے سے ذبح شدہ مرغی کے گوشت کی فروخت پر پابندی لگا دی ہے۔ محکمہ لائیو سٹاک نے مفادِ عامہ کے ایک پیغام میں کہا ہے کہ صارفین اپنے سامنے صحت مند مرغی ذبح کروا کر اس کا گوشت خریدیں اور ذبح کرنے سے پہلے اس بات کی تصدیق کر لیں کہ دکاندار نے تکبیر پڑھ لی ہے۔ قارئین یہ ایک انتہائی سنگین مسئلہ تھا جو عرصہ دراز سے حکومتی توجہ کا طلبگار تھا۔ دکاندار بیمار، نیم مردہ اور مردہ مرغیاں پہلے سے ذبح کر کے رکھ لیتے ہیں اور آنے والے گاہک کو تازہ گوشت ظاہر کر کے فروخت کرتے ہیں۔ یہ بھی ایک کھلی حقیقت ہے کہ اکثر ریسٹورینٹس کے آرڈر پر مردہ مرغی (ٹھنڈی مرغی) کا گوشت سپلائی کیا جاتا ہے اور باقاعدہ تاکید اور اصرار کر کے مردہ مرغی معمولی قیمت پر منگوائی جاتی ہے جو شہریوں کو کھلا کر منافع خوری کے ساتھ ساتھ شرعی اور اخلاقی قدروں کا جنازہ نکالا جاتا ہے۔
صارفین تو اپنے سامنے مرغی ذبح کروا کر گوشت خرید لیں گے... لیکن ایسے بے ضمیر ریسٹورنٹ مالکان اور مرغی فروش دکانداروں کی ملی بھگت کا کیا کریں گے‘ جن کے منہ کو زیادہ منافع خوری اور ٹھنڈی مرغی کا خون لگ چکا ہے۔ اس حوالے سے محکمہ لائیو سٹاک کو مزید کام کرنے کی ضرورت ہے اور ایسے بے رحم، سفاک اور بے ضمیر منافع خوروں کے لیے بھی کوئی لائحہ عمل بنانا ہو گا۔ ویسے بھی ماضی میں لائیو سٹاک کی اعلیٰ کارکردگی اور فرض شناسی کے نتیجے میں یہ قوم کافی کھوتے اور کچھوے کھا چکی ہے‘ مزید مردار اور حرام گوشت کھانے کی متحمل نہیں ہو سکتی: تاہم عوام کو مردار اور حرام کھلانے کے بجائے اپنی تنخواہ اور نوکری حلال کرنے پر توجہ دیں۔