پارلیمنٹ میں ہنگامہ‘ احتجاج اور حکومتی بینچوں پر دباؤ کی پالیسی تا حال کامیاب جا رہی ہے۔ سپیکر قومی اسمبلی نے بالآ خر خواجہ سعد رفیق کے پروڈکشن آرڈر جاری کر دئیے ہیں۔ شہباز شریف کو چیئرمین پبلک اکاؤنٹس کمیٹی بنانے سے لے کر خواجہ سعد رفیق کے پروڈکشن آرڈر جاری کرنے تک اس تاثر کو مزید تقویت مل رہی ہے کہ شہباز شریف سے نہ صرف رعایت برتی جا رہی ہے بلکہ ان سے ڈیل بھی ہو سکتی ہے۔ اس طرح قائدحزب اختلاف کے ذریعے پارلیمنٹ میں بہتر ''ورکنگ ریلیشن شپ‘‘، قانون سازی اور دیگر امور پر تعاون حاصل کیا جاسکتا ہے تاکہ حکومت کو ایوان چلانے کیلئے کم سے کم مزاحمت کا سامنا کرنا پڑے اور شہباز شریف 'کچھ لو اور کچھ دو‘ کی پالیسی کے تحت ایوان کی کارروائی کا حصہ بنے رہیں۔
شہباز شریف سے ڈیل کے حوالے سے حکومتی حلقوں خصوصاً حلیف جماعتوں میں بھی تحفظات پائے جاتے ہیں۔ شہباز شریف کی زوجۂ ثانی تہمینہ درانی کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ وہ شہباز شریف کو ریلیف دلوانے کے لیے انتہائی سرگرم ہیں اور ان کی کوشش ہے کہ اس ریلیف کے بدلے شہباز شریف پارلیمنٹ میں حکومتی بینچوں کے ساتھ تعاون اور ''معاملہ فہمی‘‘ کا مظاہرہ کریں۔
پی ٹی آئی اور حلیف جماعتوں کے شدید تحفظات کے باوجود چیئرمین پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے لیے شہباز شریف کے نام پر اتفاق اور حکومتی رضامندی ڈیل افواہوں اور خبروں کو مزید ہوا دے رہی ہے کہ شہباز شریف اپنے آپ کو قابل قبول بنانے کے لیے ایوان کی کارروائی میں تعاون کا مظاہرہ کریں گے اور اس کے عوض ایوان میں ''نمائشی‘‘ احتجاج، ہنگامے اور واک آؤٹ کے نتیجے میں اَپوزیشن کو ریلیف دیا جاسکتا ہے... واقفانِ حال بخوبی جانتے ہیں کہ شہباز شریف روزِ اوّل سے ہی ڈیڈ لاک کی سیاست کے خلاف ہیں اور وہ کبھی ''پوائنٹ آف نو ریٹرن‘‘ پر نہیں جاتے‘ خاص طور پر جب مدمقابل ان پر حاوی ہو۔ وہ پرویز مشرف کے لیے بھی کسی حد تک قابلِ قبول تھے لیکن نواز شریف کی وجہ سے اپنے طور پر کوئی فیصلہ کرنے کی پوزیشن میں نہ تھے۔ وہ نوازشریف کی نااہلی کی سزاکے بعد بھی انتہائی اقدام اور احتجاجی سیاست کے حق میں نہ تھے۔ بطور وزیر اعلیٰ وہ دبے لفظوں میں اپنے ان خیالات کا اظہار بھی کرتے رہے ہیں۔ وہ معاملہ فہمی اور افہام و تفہیم پر ہی زور دیتے رہے لیکن نواز شریف کی ہٹ دھرمی اور ضد کی وجہ سے ہمیشہ مجبور ہی دِکھائی دئیے۔ شہباز شریف کی انہیں ''خصوصیات‘‘ کے پیش نظر ہی شاید انہیں ریلیف دیا رہا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ تہمینہ درانی اپنے اس مشن میں کس حد تک کامیاب ہوتی ہیں اور شہباز شریف کو واقعی ریلیف ملتا ہے یا نہیں۔
بات ہو رہی تھی پروڈکشن آرڈر کی۔شہباز شریف اور خواجہ سعد رفیق کے قومی اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کی اس حوالے سے قانون میں گنجائش ضرور موجود ہے کہ مخصوص حالات کے تحت اگر سپیکر یہ سمجھے کہ اسیر رکن اسمبلی کا اجلاس میں شریک ہونا ناگزیر ہے تو وہ پروڈکشن آرڈر کے ذریعے مذکورہ رکن اسمبلی کو اجلاس میں شرکت کیلئے طلب کر سکتا ہے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ حکومت کو ایوان چلانے کے لیے کون سے مخصوص حالات کا سامنا یا مجبوری لاحق ہے کہ خواجہ سعد رفیق کے بغیر ایوان کی کارروائی چلانا ممکن نہ ہے؟ اسی طرح شہباز شریف بھی ریمانڈ پر ہیں اور دورانِ تفتیش ملزمان کو بذریعہ جہاز اسلام آباد پہنچایا جاتا ہے۔ ان ملزمان کو قومی اسمبلی سے دھواں دھار خطاب کا موقع بھی فراہم کر کے تفتیش اور احتساب کے عمل کو کیونکر سبوتاژ کیا جارہا ہے؟
رکن قومی اسمبلی کی حیثیت سے شہباز شریف اور خواجہ سعد رفیق دونوں کا استحقاق اپنی جگہ لیکن یہ فیصلہ بہرحال سپیکر قومی اسمبلی ہی کی صوابدید ہے اور یہ انہوں نے ہی طے کرنا ہے کہ وہ کون سے غیر معمولی حالات ہیں‘ جن کے تحت کسی اسیر رکن قومی اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کے لیے پروڈکشن آرڈر جاری کرنا ناگزیر ہے۔
پی ٹی آئی حکومت کے حلیف اور وزیر ریلوے شیخ رشید احمد بھی اس حوالے سے شدید تحفظات رکھتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ دورانِ اسیری میری والدہ کا انتقال ہوگیا تھا‘ مجھے صرف نمازِ جنازہ پڑھنے کی ہی اجازت دی گئی تھی اور رکن قومی اسمبلی ہونے کے باوجود ساڑھے تین سال اسمبلی کی شکل تک نہیں دیکھی تھی۔ انہوں نے اتنے بڑے بڑے مالی اور انتظامی سکینڈلز میں ملوث مرکزی ملزمان کو دوران ریمانڈ و تفتیش اسمبلی میں شرکت کے لیے لانا اور تقریریں کروانا تعجب خیز قرار دیا۔ شیخ رشید کا کہنا ہے کہ وہ اپنے ان تحفظات کا اظہار وزیراعظم سے خود مل کے کرچکے ہیں۔ انہوں نے وزیراعظم سے یہ شکوہ بھی کیا کہ شہباز شریف کا پروٹوکول ہم سے زیادہ ہے اور وہ منسٹرز کالونی میں قیام پذیر ہیں... دیکھتے ہیں کہ شیخ رشید کے تحفظات پر وزیراعظم کوئی ایکشن لیتے ہیں یا ''ریلیف‘‘ کا یہ سلسلہ جاری رہے گا۔
دوسری طرف نواز شریف اور آصف علی زرداری کے سیاسی مستقبل کے لیے آئندہ 72گھنٹے انتہائی اہم اور کٹھن قرار دئیے جا رہے ہیں۔ نواز شریف کو سزا اور زرداری کی ممکنہ گرفتاری کے حوالے سے اہم فیصلے متوقع ہیں جبکہ پی ٹی آئی حکومت کی طرف سے آصف علی زرداری کی نااہلی کے لیے الیکشن کمیشن سے بھی رجوع کیا جا رہا ہے۔ ایسی صورت میں آصف زرداری کے سر پر نااہلی کی تلوار بھی لٹک رہی ہے۔ حکومتِ وقت کی طرف سے یہ پہلا کیس ہے جو کسی سیاست دان کے خلاف دائر کیا جارہا ہے۔
آصف علی زرداری نے پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والے ارکان اسمبلی اور سینیٹرز کو ہنگامی طور پر کراچی طلب کر لیا ہے۔ اجلاس میں زرداری کی ممکنہ گرفتاری کے حوالے سے حکمتِ عملی پر غور کیا جائے گا۔ جبکہ نواز شریف کے بارے میں کہا جارہا ہے کہ انہوں نے اپنے کیسز میں انتہائی غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کیا ہے۔ تضادات نے ان کے لیے مشکلات میں مزید اضافہ کر دیا ہے۔ گزشتہ روز عدالت میں پیش ہونے کے بعد انہوں نے انتہائی جذباتی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ کرپشن میرے نزدیک سے نہیں گزری‘ کبھی کمیشن اور کک بیک نہیں لی۔ نواز شریف تاحال خود کو معصوم اور بے گناہ ثابت کرنے پر مصر ہیں۔ وہ ناجانے کونسی دنیا میں رہ رہے ہیں، اتنا کچھ ان کے ساتھ ہو گیا... اپنے ہی دورِ حکومت میں دربدر ہوگئے۔ دودہائیاں قبل بطور وزیراعظم انہوں نے احتساب بیورو بنایا اور سیاسی مخالفین کو زیر عتاب رکھنے کیلئے سیف الرحمن کو اس کا چیئرمین بنایا اور پھر وہ وقت بھی آیا کہ احتساب بیورو... حساب بیورو کا منظر پیش کرنے لگا۔ نیب کی قانون سازی سے لے کر تقرریوں تک نواز شریف کس طرح ان سب سے بری الذمہ ہو سکتے ہیں۔ اپنی پکڑ اور مکافاتِ عمل کا سامان تو اپنے ہاتھوں سے خود کیا۔ اب واویلا اور شور شرابا کیسا؟ آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا۔
قارئین ابھی ابھی خبر آئی ہے کہ وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار نے پنجاب حکومت کی سو روزہ کارکردگی کے حوالے سے انتہائی اہم اجلاس کی صدارت کی اور 17وزراء کی کارکردگی پر عدم اطمینان کا اظہار کیا ہے۔ مذکورہ وزراء کے بارے میں رپورٹ آئی ہے کہ انہوں نے اپنے محکموں میں کام تو درکنار... تنکا نہیں توڑا... صرف بریفنگ دی‘ چائے پی اور بائے بائے... وزیراعلیٰ نے ان وزراء کی کارکردگی رپورٹ وزیراعظم کو ارسال کر دی ہے اور یہ فیصلہ اب وزیراعظم کی صوابدید پر ہے کہ وہ ان وزراء کے محکمے تبدیل کرتے ہیں یا انہیں وزارت سے فارغ کرتے ہیں۔
حکومت پنجاب اور اس کے مشیروں کی کارکردگی پر اگر بات شروع کی جائے تو یہ کالم ناکافی ہے۔ ان کی کارکردگی اور گورننس کے حوالے سے چشم کشا حقائق آئندہ کالم میں پیش کروں گا۔