سالِ رواں کے آخری 72 گھنٹے باقی ہیں اور نظر آ رہا ہے کہ سپریم کورٹ آف پاکستان آخری گھنٹے تک تاریخ رقم کرنے میں مصروف رہے گی۔ چیف جسٹس آف پاکستان نے رائل پام کلب کی انتظامیہ کو تحلیل کر کے ریاست اور ریلوے کی رٹ بحال کر دی ہے۔ چیف جسٹس نے رائل پام کلب کے کنٹریکٹ کو پہلے دن سے ہی غیر قانونی قرار دیتے ہوئے اپنے ریمارکس میں کہا ہے ''ہمیں معلوم ہے کہ رائل پام کلب کے مالکان انتہائی با اَثر ہیں اور آدھا پاکستان اُن کی بات مانتا ہے‘‘۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ ریلوے کی زمین ریلوے کے پاس ہی رہے گی‘ کلب کے معاملات معمول کے مطابق چلیں گے لیکن انتظامی اختیارات پرائیویٹ آڈٹ کمپنی فرگوسن کے پاس ہوں گے۔ سپریم کورٹ نے ریلوے لیز پالیسی بھی تبدیل کر کے اس کی مدت تین سال مقرر کر دی ہے۔
ریلوے کی اس قیمتی اراضی پر ملی بھگت اور دھونس کے زور پر رائل پام کلب جنرل مشرف کے دور میں بنایا گیا تھا‘ جسے سابق وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق نے واگزار کرانے کے لیے اپنی سی کوشش کی‘ لیکن جنرل مشرف کی رخصتی کے باوجود رائل پام کے مالکان کے اَثر و رسوخ کا شکنجہ برقرار تھا۔ خواجہ سعد رفیق ریلوے کی یہ وسیع اور قیمتی اراضی واگزار کروانے میں کامیاب نہ ہو سکے۔ خیر شیخ رشید بھی رائل پام کے حوالے سے وہی تحفظات رکھتے ہیں جو ماضی میں سعد رفیق کے تھے حالانکہ جس دورِ حکومت میں رائل پام کلب غیر قانونی طریقے سے بنایا گیا شیخ رشید اُس دور میں وفاقی وزیر کے عہدے پر فائز تھے۔
خیر! اب یہ کریڈٹ بحیثیت وزیر ریلوے شیخ رشید کے حصے میں آیا ہے لیکن در حقیقت یہ کریڈٹ چیف جسٹس آف پاکستان کو ہی جاتا ہے کیونکہ رائل پام کے مالکان کے سامنے حکومتوں اور وزارتوں کی کیا حیثیت؟ یہ کام صرف اور صرف عدالتِ عظمیٰ ہی کر سکتی تھی جو اس نے کر دکھایا... انتہائی قیمتی اراضی سے با اَثر مافیا کو بے دخل کرنا ریلوے کی تاریخ میں بڑا کام ہے۔ سپریم کورٹ کے اس فیصلے سے نہ صرف پاکستان ریلوے کی رِٹ بحال ہوئی ہے بلکہ ریاست کی بالا دستی کے تصور کو بھی تقویت ملی ہے۔ ماضی میں ریلوے کو انتہائی آسان ہدف سمجھا جاتا تھا۔ جس نے جب چاہا... جہاں چاہا ریلوے کی زمین پر قبضہ کر لیا... اور جس نے لیز کروائی اس نے ریلوے کی زمین کو باپ کی جاگیر سمجھ لیا اور سونے پہ سہاگہ یہ کہ ریلوے کے افسران اور اہلکار ان قبضہ مافیاز کی ''کنسلٹینسی‘‘ کے عوض اپنا حصہ وصول کر کے اس کارِ بد میں شریک رہے۔ اَب دیکھنا یہ ہے کہ ریلوے کی زمینوں کو باپ کی جاگیر سمجھنے والے افسران اور قبضہ مافیاز کے ساتھ کیا سلوک کیا جاتا ہے۔
وزیر ریلوے شیخ رشید رائل پام کے حوالے سے پریس کانفرنس کر رہے ہوں یا ریلوے کی کارکردگی کے حوالے سے... تو یہ کیسے ممکن ہے کہ اَپوزیشن خصوصاً شریف خاندان اور زرداری صاحب کا ذکر نہ ہو۔ ایک بار پھر انہوں نے دورانِ پریس کانفرنس شہباز شریف کو آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے کہا ''یہ کیسے ممکن ہے کہ جس منسٹر کالونی میں شیخ رشید رہتا ہو وہاں شہباز شریف بھی رہے‘‘۔ انہوں نے ایک بڑی خبر دیتے ہوئے کہا کہ وہ شہباز شریف کے چیئرمین پبلک اکاؤنٹس کمیٹی بننے کے معاملہ پر سپریم کورٹ سے رجوع کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔
اپنے ایک حالیہ کالم میں پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے چیئرمین کے نام پر حکومتی رضا مندی اور اتفاق رائے اور حکومتی وزراء کے واویلا پر ہم کافی تفصیل سے بات کر چکے ہیں لیکن شیخ رشید کا سپریم کورٹ سے رجوع کرنے کا اشارہ یقینا حکومتی صفوں میں انتشار اور اختلافِ رائے کی نشاندہی کرتا ہے۔ شیخ رشید حکومت کے حلیف اور اتحادی ہیں‘ لیکن آج کے حلیف کل کے حریف بننے میں دیر نہیں لگاتے... تحفظات سے شروع ہونے والے اختلافات شکووں سے ہو کر الزام تراشی پر ختم ہوتے ہیں اور پھر اختلاف رائے سے شروع ہونے والے شکوے ہی سیاسی راہیں علیحدہ کرنے کا موجب بنتے ہیں۔ بغل گیر اور شیر و شکر حلیف بد ترین سیاسی حریف کے طور پر مدِّ مقابل نظر آتے ہیں۔ وطنِ عزیز کا سیاسی منظرنامہ ایسے بے شمار واقعات سے بھرا پڑا ہے۔
شیخ رشید صاحب نے یہ بھی کہا ہے ''میرا ٹارگٹ ایک سال ہے‘ مجھے سو دن کی کارکردگی سے باہر ہی رکھیں‘‘۔ ایک طرف وفاقی اور صوبائی حکومتیں سو روزہ کارکردگی پر تقریبات اور اعلامیے جاری کر رہی ہیں جبکہ دوسری طرف شیخ رشید کہتے ہیں کہ سو روزہ کارکردگی کا اطلاق مجھ پر نہیں ہوتا۔ اگر وزیر ریلوے حکومتی پالیسی کا حصہ نہیں تو سیدھی سیدھی ''سائیڈ لائن‘‘ ہے جو شیخ رشید لیے ہوئے ہیں۔ انہوں نے اپنے حالیہ بیان کو دوہراتے ہوئے کہا ہے کہ شہباز شریف وکٹ کے دونوں طرف کھیل رہے ہیں اور ان کی ''گوٹی‘‘ حکومت سے ''فٹ‘‘ ہو چکی ہے۔
شہباز شریف کے حوالے سے شیخ رشید کے تحفظات، ارادے اور حکومتی پالیسی بہرحال ایک پیج پر نظر نہیں آ رہے۔ مستقبل میں شیخ رشید کے بیانیے میں مزید شدت آ سکتی ہے اور دبے دبے تحفظات اور شکوے... کھلے اختلافات اور الزام تراشیوں تک بھی جا سکتے ہیں اور پھر ''اُصولی سیاست‘‘ کے نام پر کیا ہوتا ہے...؟ خدا جانے!
چیئرمین پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کی تقرری کا معاملہ ہو‘ شہباز شریف کا منسٹر کالونی میں قیام ہو یا سو روزہ حکومتی کارکردگی کی بات ہو‘ شیخ رشید کسی بھی حکومتی پالیسی پر اتفاق نہیں کرتے۔ وہ ہمیشہ کی طرح اپنی ذاتی رائے کی بنیاد پر سیاسی منظر نامے میں اپنی انفرادیت برقرار رکھتے ہیں اور اپنے مؤقف کا دفاع اور وضاحت اتنی شدت سے کرتے ہیں کہ لگتا ہے کہ اپنے مؤقف سے پیچھے ہٹنے والے نہیں... اور نہ ہی اس میں کوئی تبدیلی آئے گی۔ ماضی میں اپنے تمام حلیفوں کا حریف اور حریفوں کا حلیف بننے کا اعزاز بھی شیخ رشید کو ہی حاصل ہے۔ اس تناظر میں ان سے کچھ بھی توقع کی جا سکتی ہے کیونکہ ان کے پاس اپنے ہر اقدام اور ''یو ٹرن‘‘ کا جواز اور جواب موجود ہوتا ہے۔ خیر یہ حکومت کے سمجھنے کی بات ہے۔
نواز شریف کے مستقبل کے حوالے سے ایک انتہائی اہم خبر آپ سے شیئر کرتا چلوں کہ پاکپتن دربار اراضی کیس کی تحقیقات کے لیے ڈی جی نیکٹا خالق داد لک کی سربراہی میں قائم کی گئی جے آئی ٹی ختم کر کے نئی جے آئی ٹی تشکیل دے دی گئی ہے۔ ڈی جی نیکٹا خالق داد لک نے سپریم کورٹ سے استدعا کی تھی وہ اپنی ذاتی وجوہات کی بناء پر اس جے آئی ٹی کی سربراہی نہیں کر سکتے۔ سپریم کورٹ نے معذرت قبول کرتے ہوئے ڈائریکٹر جنرل اینٹی کرپشن پنجاب حسین اصغر کی سربراہی میں نئی جے آئی ٹی بنا دی ہے جو اگلے دس روز میں ٹی او آر مکمل کرے گی۔ ڈی جی نیکٹا کی معذرت کے بعد حسین اصغر کی سربراہی میں نئی جے آئی ٹی نواز شریف کے لیے نئی اور مزید مشکلات پیدا کر سکتی ہے۔
اختتام پذیر ہوتے ہوئے اس سال کو اگر طلبیوں اور جواب طلبیوں کا سال قرار دیا جائے تو بے جا نہ ہو گا۔ بڑے بڑے سورما سپریم کورٹ کے کٹہرے میں بے بس کھڑے دکھائی دئیے... ایسا ایسا ''شجر ممنوعہ‘‘ جڑ سے اکھاڑ پھینکا گیا جن کا ماضی میں تصور بھی نا ممکن تھا... تازہ ترین اور حالیہ طلبی کا ذکر بھی کرتا چلوں کہ عدالت نے صوبائی وزیر اطلاعات و ثقافت فیاض الحسن چوہان کو طلب کر لیا ہے کہ انہوں نے عدالتی پابندی کے باوجود بسنت منانے کا اعلان کیوں اور کیسے کیا؟
چیئرمین پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کی تقرری کا معاملہ ہو‘ شہباز شریف کا منسٹر کالونی میں قیام ہو یا سو روزہ حکومتی کارکردگی کی بات ہو‘ شیخ رشید کسی بھی حکومتی پالیسی پر اتفاق نہیں کرتے۔ وہ ہمیشہ کی طرح اپنی ذاتی رائے کی بنیاد پر سیاسی منظر نامے میں اپنی انفرادیت برقرار رکھتے ہیں اور اپنے مؤقف کا دفاع اور وضاحت اتنی شدت سے کرتے ہیں کہ لگتا ہے کہ اپنے مؤقف سے پیچھے ہٹنے والے نہیں۔