سال نو پر وزیر اعظم عمران خان نے قوم کے نام ایک پیغام میں اس عزم کا اعادہ کیا کہ امسال غربت، جہالت، ناانصافی اور کرپشن کا خاتمہ کر دیں گے۔ یعنی 2019ء میں ان ناسوروں سے ہم جان چھڑا لیں گے۔ وزیر اعظم کی نیت اور عزم بجا سہی... لیکن خدا جانے وہ ایسا کون سا آسیب ہے جو حکمرانوں کی نیک نیتی اور عزم کے باوجود ان سے ایسے فیصلے کروا دیتا ہے‘ جن سے نہ صرف ان کے اعلامیے کی نفی ہوتی ہے بلکہ ان کی گورننس پر بھی بڑے سوالات کھڑے ہو جاتے ہیں‘ جبکہ حکمرانوں کو کانوں کان خبر تک نہیں ہوتی کہ ان کی نیک نیتی اور ''گڈ گورننس‘‘ کے عزم کا کیا حشرنشر کر دیا گیا ہے۔
چوروں نے چوروں کو تحفظ دینے کے ایسے ایسے قانونی ڈھونگ اور ناجائز حیلے رچا رکھے ہیں‘ جن سے وہ بہ آسانی اپنے اہداف کے حصول میں کامیاب رہتے ہیں اور ان کے ہاتھ بھی میلے نہیں ہوتے۔ پس پردہ رہنے والے سہولت کار وارداتیے‘ حکمرانوں کو حقائق سے لا علم رکھ کر یا ادھورے سچ کی بنیاد پر ان سے ایسے فیصلے کروا لیتے ہیں جو نہ صرف بدنامی بلکہ جوابدہی کا باعث بھی بن جاتے ہیں۔
چند روز قبل وفاقی حکومت نے ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی کے سربراہ کی تقرری کرکے سابق حکمرانوں کی ترجیحات اور روش کی تقلید کی۔ اس تقرری سے قانون پسند فارما انڈسٹری تشویش کا شکار ہے‘ جبکہ اسی انڈسٹری کا ایک مخصوص گروپ اس تقرری پر نہ صرف شادیانے بجا رہا ہے بلکہ اس کامیابی کے نشے میں سرشار اپنے ایجنڈے کی تکمیل کے لیے بے تاب بھی ہے۔
نئے چیف ایگزیکٹو ڈریپ کی شہرت اور ساکھ کے بارے میں تو کافی لوگ جانتے ہوں گے‘ لیکن مملکتِ خداداد کے طول و عرض میں کسی سرکاری‘ حکومتی شخصیت نے احتساب کی پکڑ سے بچنے کیلئے وہ حربہ استعمال نہیں کیا ہو گا‘ جو موصوف نے اپنے خلاف انکوائری سے بچنے کے لیے استعمال کیا۔ انہوں نے نہ صرف خود کو تفتیش میں مردہ قرار دلوایا بلکہ احتساب کے ادارے کے اعلیٰ حکام کی آنکھوں میں دھول جھونک کر سزا سے بھی بچ نکلے جبکہ ان کے چار دیگر شریک جرم قصور وار ٹھہرائے جانے کے بعد اپنے اپنے حصے کی سزا بھی بھگت چکے ہیں۔ تفتیشی افسر نے ''کمالِ مہارت‘‘ سے شیخ اختر کو مردہ ظاہر کرکے نہ صرف ادارے کی ساکھ کو داؤ پر لگایا بلکہ قانون اور عدالت کے ساتھ کھلواڑ کرکے‘ اور ایف آئی اے میں باری لگا کر آج ایک بینک میں افسری کے مزے بھی لوٹ رہا ہے۔
سابقہ دورِ حکومت میں وزیر صحت سائرہ افضل تارڑ نے ایک با اثر گروپ کی ملی بھگت سے شیخ اختر حسین کو مخصوص مقاصد اور ایجنڈے کی تکمیل کا ''ٹاسک‘‘ دے کر قائم مقام چیف ایگزیکٹو ڈریپ تعینات کیا تو ایک طوفان کھڑا ہو گیا۔ شیخ اختر کی اہلیت اور تقرری پر سخت سوالات اٹھائے گئے کہ یہ تو احتساب کی پکڑ سے بچنے کیلئے خود کو مردہ قرار دلوا چکا ہے... ایک مردہ کیسے ادارے کا سربراہ بن سکتا ہے۔ اس پر چیئرمین نیب نے نومبر 2017ء میں شیخ اختر کو مردہ قرار دے کر قانون اور عدالتوں کو گمراہ کرکے سزا سے بچانے کے واقعہ کی دوبارہ تحقیقات کا حکم دیا‘ لیکن ایک سال سے زائد عرصہ گزرنے کے باوجود اس مجرمانہ غفلت پر کوئی کارروائی نہ کی جا سکی... کیونکہ ادارے میں ''ریورس گیئر‘‘ کا کوئی آپشن موجود نہیں ہے۔ ویسے بھی اس واردات کے مرکزی کردار کا تعلق متعلقہ ادارے سے ہی تھا۔ بہرحال یہ کیس نیب کے لیے بھی ٹیسٹ کیس ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ حکام اپنی اندرونی کالی بھیڑوں کے لیے کیا ''ویژن‘‘ رکھتے ہیں۔ شیخ اختر کی بطور چیف ایگزیکٹو تعیناتی کے بعد ڈریپ کی طرف سے ان کی بے گناہی اور معصومیت پر مبنی گمراہ کن اور حقائق کے منافی مراسلے جاری کیے جا رہے ہیں‘ جبکہ وفاقی حکومت اور قومی ادارہ صحت تاحال خاموش ہیں‘ اور پی ٹی آئی کے اہم اور سرکردہ رہنما اس حوالے سے دفاعی پوزیشن اختیار کرنے پر مجبور ہیں۔
سوال یہ ہے کہ صحت عامہ سے متعلق اس اہم ترین اور حساس ترین ادارے میں ایک ایسے چیف ایگزیکٹو کی تقرری کیونکر ممکن ہوئی جو مفادات اور روپے پیسے کے لیے کچھ بھی کر سکتا ہے اور جس کے اَثاثے اور معیارِ زندگی اس کی آمدنی کی چغلی کھاتے ہیں۔ واقفانِ حال بخوبی جانتے ہیں کہ شیخ اختر 1992ء میں بطور اسسٹنٹ ڈرگ کنٹرولر بھرتی ہوئے اور اپنی چھبیس سالہ نوکری میں با اثر لوگوں کی سہولت کاری کے عوض ہمیشہ راج کیا۔ جب کبھی کوئی کڑا وقت آیا تو لے دے کر معاملہ رفع دفع کرا لیا۔ شیخ اختر یہ ''گُر‘‘ بھی بخوبی جانتے ہیں کہ اپنے سے سینئر، قابل اور بہتر افسران پر حکمرانی کیسے کی جاتی ہے۔ اپنے سینئر افسران کا تبادلہ کرانے میں وہ کمال مہارت رکھتے ہیں۔ ایسے بے شمار واقعات ان کے کیریئر کا حصہ ہیں۔
کہنے والے یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ ''مافیا جیت گیا... میرٹ ہار گیا‘‘ حکمرانوں کی آنکھوں میں بھی یقینا وہی دھول جھونک دی گئی ہے‘ جو ماضی میں احتساب کے ادارے اور عدالتوں کی آنکھوں میں جھونکی گئی تھی اور نتیجہ یہ کہ سرکاری فائلوں میں دفن مردہ ''کفن پھاڑ کر‘‘ نہ صرف باہر آ گیا بلکہ ایک حساس اور اہم ترین ادارے کا سربراہ بھی بن گیا۔ ایسے ''جھاکا اُترے‘‘ اور لالچ کے مارے چیف ایگزیکٹو سے کیا اُمید رکھی جا سکتی ہے؟ اس کی تعیناتی تو خود ادارے کی موت ہے۔ بد قسمتی سے اس ادارے کو سیاسی مداخلت، مصلحتوں اور ''سرکاری بابوؤں‘‘ نے سونے کی کان بنا دیا ہے۔ مال لگاؤ... مال بناؤ... کے فارمولے کو نصب العین بنا لیا گیا ہے۔ ڈریپ میں یہ فارمولا اتنا ''پاپولر‘‘ ہوا کہ پاکستان میں ادویہ سازی کو مال بنانے کا آسان ترین دھندہ بنا دیا گیا۔
کسی بھی ملک میں ادویہ سازی کا لائسنس، رجسٹریشن اور دیگر حساس تکنیکی امور کی منظوری کے ساتھ ادویات کی من چاہی قیمتوں کا تعین ممکن نہیں... لیکن یہ سب پاکستان میں نہ صرف ممکن ہے بلکہ یہ تمام مراحل انتہائی آسانی سے طے کیے جا سکتے ہیں۔ اس کے لیے پی آر اور مینجمنٹ درکار ہے۔ ''مینجمنٹ‘‘ جتنی مضبوط ہو گی‘ تمام مراحل اتنے ہی آسانی سے طے ہوں گے۔ اس پر ستم یہ کہ بیک جنبشِ قلم سینکڑوں ادویات کی تیاری کا پروانہ ایسے جاری کیا جاتا ہے جیسے دوا نہ ہوئی لڈو یا جلیبی کی تیاری ہو گئی... ایک اور تشویشناک بات یہ ہے کہ اکثر کمپنیوں کے پاس ادویات کی تیاری کے لیے مطلوبہ سہولیات ناکافی ہونے کے باوجود اُنہیں ادویات کی تیاری کا لائسنس بہ آسانی دے دیا جاتا ہے۔ پچانوے ہزار سے زائد ادویات کے برانڈ رجسٹرڈ ہیں‘ جن کی قیمتوں اور رجسٹریشن سے متعلق جانکاری اور تصدیق کے لیے ڈریپ کی ویب سائٹ آج بھی خاموش ہے۔
پاکستان ادویہ سازی میں آٹھ ملین ڈالر کی منڈی ہے‘ جس میں 811 ایلوپیتھک اور 836 متبادل ادویات شامل ہیں۔ ڈریپ کی کارکردگی کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ ایک مخصوص مافیا کی اِجارہ داری کو بڑھانے کیلئے ادویات کی امپورٹ 10 فیصد سے بڑھ کر 18 فیصد تک جا پہنچی ہے جبکہ کاسمیٹکس کو دانستہ رجسٹرڈ نہیں کیا جا رہا‘ جس کی وجہ سے غیر معیاری مصنوعات کو ''بوجوہ‘‘ کھلی چھوٹ حاصل ہے۔
ضرورت اس اَمر کی ہے کہ ایسے اہم اور حساس ادارے کی سرابراہی کسی قابلِ اعتماد، غیر متنازعہ اور دردِ دل رکھنے والے شخص کو سونپی جائے۔ 2001ء اور 2004ء میں شیخ اختر کے خلاف بننے والے نیب کے کیسز کی تفتیش میں اسے مردہ قرار دینے کے واقعہ کی تحقیقاتی کے لیے جے آئی ٹی تشکیل دی جائے اور ذمہ داران کو ان کے حصے کی سزا ''بونس‘‘ کے ساتھ دلوائی جائے... جو ابھی بھگتنا باقی ہے... کہیں ایسا نہ ہو کہ یہ سزا پوری قوم میں تقسیم ہو جائے۔ اگر ان کے ''کرموں‘‘ کی سزا قوم کو بھگتنا پڑی تو یقینا یہ ناکردہ سزا ہو گی... اور ناکردہ کی سزائیں بد دعائیں بن کر لگا کرتی ہیں۔