حالیہ ایک کالم میں وزیر اعظم صاحب کو مشورہ دیا تھا کہ وزارتوں میں بے جا مداخلت اور متعلقہ وزیر کو ''بائی پاس‘‘ کرنے سے کنفیوژن اور ابہام پیدا ہو رہا ہے‘ جو نہ صرف وزارتوں میں گروپنگ کا باعث بن رہا ہے بلکہ اہداف کے حصول میں رکاوٹ کا موجب بھی ہے۔ کئی ایسی وزارتیں ہیں جن کو چلانے والے ایک سے زیادہ ہیں۔ وزارتِ اطلاعات و نشریات کو ہی لے لیجئے وزیر ایک اور چلانے والے کئی ہیں جبکہ مشیروں کا کام مشورے اور فیڈ بیک تک محدود ہونا چاہیے نہ کہ وزارت کے افسران کو براہِ راست ہدایت دینا اور مداخلت کرنا... ایسے میں وزارتوں میں تعینات افسران غیر علانیہ گروپ بندی کا شکار ہو جاتے ہیں اور ساری توانائیاں اور صلاحیتیں ''پوائنٹ سکورنگ‘‘ کی نذر ہو جاتی ہیں۔
حال ہی میں کئی اہم معاملات میں مشیروں کے غیر ذمہ دارانہ بیانات نہ صرف سُبکی کا باعث بن چکے ہیں بلکہ ان کی کم علمی اور ناقص کارکردگی کا پول بھی کھل چکا ہے۔ اس صورتحال کی نشاندہی پر نہ صرف وزیر اعظم نے نوٹس لیا‘ بلکہ اپنی سربراہی میں ہونے والی روزانہ میٹنگ کی ذمہ داری وزیر اطلاعات فواد چوہدری کو سونپ دی ہے۔ ''پاور شیئرنگ‘‘ کے اس اقدام کے نتیجے میں مذکورہ مشیر اب وزیر اطلاعات کی سربراہی میں ہونے والی میٹنگ میں روزانہ شریک ہوں گے۔ اس فیصلے سے اُمید کی جاتی ہے کہ کنفیوژن اور ابہام کا نہ صرف خاتمہ ہو گا بلکہ خود مختارانہ فیصلے بھی ہو سکیں گے اور اس طرح اپنے اپنے دائرہ کار تک محدود رہنے سے ان کی کارکردگی پرکھنے میں آسانی ہو گی۔ دیکھتے ہیں کہ ''پاور شیئرنگ‘‘ کا یہ فارمولہ کس حد تک کامیاب ہوتا ہے اور وزیر موصوف وزیر اعظم صاحب کے اس اعتماد پر کس حد تک پورا اُترتے ہیں۔ گیند اب اُن کے کورٹ میں ہے... کیا گھوڑا... کیا گھوڑے کا میدان۔
اب چلتے ہیں ذرا احتساب کارنر کی جانب... سپریم کورٹ آف پاکستان نے احتسابی کارروائیوں پر شدید تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ نیب کو کوئی حق نہیں کہ کسی کی تذلیل کرے۔ احتساب کے نام پر کسی کی تضحیک اور کردار کشی قطعی ناقابلِ برداشت ہے جبکہ آصف علی زداری کے حوالے سے جے آئی ٹی کی رپورٹ بھی مسترد کر دی ہے‘ جس کے نتیجے میں زرداری، فریال تالپور اور انور مجید بھی جائیدادوں کی نہ صرف ضبطگی سے بچ گئے ہیں بلکہ وزیر اعلیٰ سندھ اور بلاول بھٹو کے نام بھی ای سی ایل سے نکالنے کا حکم آ گیا ہے۔ اس طرح زرداری اینڈ کمپنی کے سر پر لٹکتی تلوار اور مصیبت فی الحال ٹل چکی ہے۔ طویل عرصہ وزیر خزانہ کے طور پر احکامات کی ''بجا آوری‘‘ کرنے والے مراد علی شاہ کی بحیثیت وزیر اعلیٰ عزت نفس مجروح کرنے سے منع کرنے کے ساتھ بلاول کو بھی معصوم اور والدہ کے مشن پر گامزن قرار دیا گیا ہے۔
دوسری جانب شہباز شریف چیئرمین پی اے سی بن کر منسٹرز کالونی میں ڈیرے ڈالے ہوئے ہیں۔ احتساب کے دیگر کیسوں کا حال بھی کچھ زیادہ مختلف نہیں... ان کیسوں کو بنانے سے لے کر تفتیش اور عدالتی کارروائیوں تک تمام مراحل میں وطنِ عزیز کے خزانے کی خطیر رقم خرچ ہو رہی ہے‘ اور نتیجہ... تا حال صفر... نہ کوئی ریکوری اور نہ ہی کوئی اُمید... احتساب نہ ہو گیا سانپ سیڑھی کا کھیل ہو گیا... ناقص تفتیش اور ناکافی شواہد کے باوجود ڈھنڈورا ایسا کہ عوام کے کان پھٹے جا رہے ہیں... پورے ملک میں ہیجان کی سی کیفیت طاری ہے پتہ نہیں شریف برادران کے ساتھ کیا ہونے والا ہے...؟ اور زرداری اینڈ کمپنی کے ساتھ کیا کرنے جا رہے ہیں... ؟ اور دیگر نیب اسیران بھی نہ جانے کیا انکشاف کرنے جا رہے ہیں۔ نیب نے پوری قوم کو تجسس اور انتظار کی سولی پر لٹکایا ہوا ہے لیکن ایسا عملی طور پر کچھ ہوتا نظر نہیں آ رہا... جیسا کہ نیب ڈھنڈورا پیٹ رہی ہے۔
یہ تماشا ایسا ہی چلتا نظر آرہا ہے... معیشت سے لے کر عوام کی قسمت تک... سب پر جمود طاری ہے۔ سیاسی اشرافیہ ہو یا افسر شاہی ان کی کرپشن اور لوٹ مار کی داستانوں پر مشتمل سرکاری فائلوں کے انبار نظر آ رہے ہیں۔ ایسی سنسنی پھیلائی جا رہے ہے کہ بس مجرم اپنے انجام کو پہنچ چکے ہیں... قانون پوری طاقت سے حرکت میں آ چکا ہے اور جلد ہی ملک و قوم کی لوٹی دولت کی ریکوری قومی خزانے کا حصہ بننے والی ہے۔ خوشحالی اور معیشت کی بحالی کے دلفریب جھانسے دے کر اور کتنا عرصہ عوام کو بیوقوف بنایا جائے گا؟ کب تک ان کے جذبات اور نفسیات سے کھیلا جائے گا؟ خوش گمانی اور دلفریب وعدوں پر مبنی سانپ سیڑھی کا یہ کھیل کب تک جاری رہے گا؟ جھانسے اور خود فریبی پر مبنی خوشحالی کی گوٹی جب 98 سے 16 پر آتی ہے تو عوام پر کون کون سی بجلیاں گرتی ہیں؟ جو مایوسی اور نا اُمیدی کے گڑھے میں کیونکر جا گرتے ہیں؟ کتنی بار جیتے ہیں؟ کتنی بار مرتے ہیں؟ پریس کانفرنسوں اور ٹاک شوز میں ڈھٹائی اور کس قدر ''پکے منہ‘‘ سے کرپشن کے خلاف حکومتی کارروائیوں کا ڈھول بجایا جاتا ہے...؟ اور نتیجہ روز نیا... منطق بھی روز ہی نئی... احتساب کی یہ کہانی کتنے موڑ کھا چکی ہے... اور ابھی کتنے موڑ باقی ہیں...؟ عوام کو مزید کتنے دلاسے اور جھانسے دئیے جائیں گے...؟ ان کے نصیب کے اور کتنے دھکے اور دھوکے باقی ہیں... جو انہوں نے ابھی کھانے ہیں۔ اس کا جواب نہ تو حکومت کے پاس ہے اور نہ ہی نیب کے پاس... دعوے ہیں کہ رُکنے کا نام نہیں لے رہے... ٹی وی چینلز کے درجنوں مائیک سامنے لگا کر سرکاری خرچ پر ''بھاشن‘‘ دینے والے حکام احتساب پر آنے والی لاگت کا حساب کیسے دیں گے؟ ان کے پاس کیا گارنٹی ہے کہ وہ مطلوبہ ریکوری کر بھی پائیں گے یا نہیں؟
قابلِ فکر اَمر یہ ہے کہ تفتیش، گرفتاریاں اور ٹرائل کے باوجود مطلوبہ اہداف کا حصول اور ریکوریاں کیوں نہیں ہو پا رہیں...؟ تفتیش اور فائل ورک اگر مکمل اور ٹھوس بنیادوں پر ہے تو ملزمان اپنے انجام سے تا حال دور کیونکر ہیں؟ کمزوری اور خرابی کہاں ہے...؟ اگر عدالت سے ملزمان کو ریلیف مل رہا ہے تو یقیناً کمزوری اور نقائص کا اشارہ تفتیش کی طرف جاتا ہے۔ تفتیش اور تحقیق پر اُٹھنے والے سوالیہ نشان کا ذمہ دار کون ہے...؟ بھاری اخراجات اور وسائل کے باوجود مطلوبہ اہداف میں نا کامی کا ذمہ دار کون ہے...؟ کیا یہ قوم اتنا مہنگا احتساب برادشت کرنے کے قابل ہے...؟ صرف گزشتہ ایک سال کے احتساب کا اگر ''حساب‘‘ کیا جائے تو کیا قوم کو یہ بتایا جا سکتا ہے کہ خطیر رقم کی لاگت کے باوجود کارکردگی کا گراف کہاں کھڑا ہے؟
احتساب کی بھول بھلیوں میں الجھنے سے کہیں بہتر ہے کہ اُن آپشنز پر غور کیا جائے جو لوٹی ہوئی دولت کی واپسی اور عبرت سے مشروط ہو۔ اس کے لیے لائحہ عمل پر نظر ثانی کے ساتھ ساتھ قابلِ عمل حکمتِ عملی کی اشد ضرورت ہے۔ ضیاع صرف وقت کا ہی نہیں بلکہ ملکی وسائل کا بھی ہے۔ جو موجودہ حالات میں انتہائی تکلیف دہ اور ناقابلِ برداشت بھی ہے۔ ماضی میں قوم کو گمراہ کن وعدوں اور دعووں سے پہلے ہی بہت ''بہلایا‘‘ جا چکا ہے۔ قوم کا پیسہ ایسے احتساب پر نہ لگایا جائے جس کا حساب ممکن نہ ہو... اور کہیں یہ احتساب قوم کو اتنا مہنگا نہ پڑ جائے کہ زیر احتساب سستے چھوٹ جائیں اور قوم کا اعتماد اور یقین بکھر کر رہ جائے۔ ملکی اداروں کی ساکھ ہی اس قوم کی آخری اُمید ہے۔ ویسے بھی ساکھ اور وقار کے حوالے سے نیب کا شمار تاحال اُن تین اداروں میں ہی ہوتا ہے جو ملکی سالمیت، بقاء اور استحکام کی علامت سمجھے جاتے ہیں۔ خدا اس ادارے کی ساکھ برقرار رکھے۔ آمین!